عاصمہ حدید کی قومی اسمبلی میں ہرزہ سرائی

قومی اسمبلی کے فلور پر رکن پی ٹی آئی ’’عاصمہ حدید‘‘ نے یہودیوں سے مفاہمت کے سلسلے میں کئی دلائل دیے ہیں، رکن اسمبلی نے خود اعتراف کیا کہ ان کا علم بہت زیادہ نہیں ہے لیکن پھر بھی انہوں نے اس ہرزہ سرائی کو ضروری سمجھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے حضور ﷺ خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھریہودیوں کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے یروشلم کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کی، جو کہ یہود کا قبلہ تھا اور پھر ان کے درمیان مفاہمت اس طرح کروائی گئی کہ مسجدِ اقصی کا قبلہ بنی اسرائیل کو دے دیا گیا اور خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا گیا۔
تحویلِ قبلہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے اہلِ توحید کا قبلہ تھا، حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں بیت المقدس کی تعمیر ہوئی اور بنی اسرائیل نے اسے اپنا قبلہ بنالیا، اس لئے جب تک یہ شاخ امامت کے منصب پر رہی اسی کے قبلے کو قائم رکھا گیا۔ مکہ میں نماز پڑھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ اس رخ سے نماز پڑھتے تھے جہاں کعبہ اور بیت المقدس دونوں سامنے کے رخ پر ہوتے، کیونکہ اس سے پہلے بنی اسرائیل دنیا کی پیشوائی کے منصب پر تھے، مدینہ ہجرت کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھی اور پھر جب تحویلِ قبلہ کا حکم آیا تو قبلے کی سمت بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کر دی گئی، کیونکہ اب امت محمدیہ کو امامت اور پیشوائی کے منصب فائز کر دیا گیا اور اس حکم کی حکمت خود اللہ تعالی نے یہ بیان کی کہ یہ دیکھنا مقصود تھا کہ ’’من یتبع الرّسول ممّن ینقلب علی عقبیہ‘‘ (البقرۃ)کہ کون رسولؐ کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ایک جانب اہلِ عرب کے وطنی اور نسلی فخر کے بت کو توڑا گیا اور دوسری جانب بنی اسرائیل کے نسلی غرور میں مبتلا لوگوں کا غرور توڑا گیا جو اپنے آبائی قبلے کے سوا مشکل سے ہی کسی دوسرے قبلے کو برداشت کرتے، اس طرح تحویلِ قبلہ کا حکم ان لوگوں کے لئے کچھ بھی مشکل ثابت نہ ہواجو محض اللہ کے پرستار تھے۔
نبی کریم ﷺ کا بار بار آسمان کی جانب نگاہ اٹھانا تحویلِ قبلہ سے پہلے اس حکم کے انتظار کی کیفیت کو واضح کرتا ہے، آپؐ خود محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دور ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی بیت المقدس کی مرکزیت بھی رخصت ہوئی۔ اب اصل مرکزِ ابراہیمی کی طرف رخ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ (دیکھئے تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص۱۲۰۔۲۱) یہ کوئی مصالحت نہیں تھی کہ یہود کو بیت المقدس دے دیا گیا اور مسلمانوں کو خانہ کعبہ، بلکہ بنی اسرائیل کو امامت کے منصب سے معزول کر کے امتِ محمدیہؐ کو یہ منصب عطا کر دیا گیا۔
موصوفہ کی کم علمی کا یہ عالم ہے کہ یہود دوستی اور ٹریٹی کی حمایت کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں، حالانکہ پرائمری اسکول کے بچے بھی اس تاریخ سے واقف ہیں،بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی حیثیت اور مذہبی پیشوائی اور بنی اسرائیل کی معزولی کو جانتے ہیں، قرآن جگہ جگہ بیان کرتا ہے کہ یہود تو آخری نبی کی آمد کے منتظر تھے اور اسی لئے اپنی الہامی کتاب کی نشانی کے مطابق کھجوروں کی سرزمین میں نئے نبی کے انتظار میں آباد ہوئے تھے، لیکن جب نبی کی آمد بنی اسماعیل میں ہوئی تو یہود نے اس نبی کو پہچاننے کے باوجود ماننے سے انکار کر دیا۔
محترمہ عاصمہ حدید یہود سے معاہدے کرنے کے جوش میں نبی کریم ﷺ کے یہود سے معاہدوں کے پس منظر اور ان کے اثرات سے بھی نابلد محسوس ہوتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت کے بعد گرد وپیش کی فضا کو پرامن بنانے کے لئے غیرمسلموں سے معاہدے کئے، یہود سب سے قریبی ہمسائے تھے، ان سے ابھی تک مسلمانوں کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچی تھی، آپؐ نے ان سے معاہدے میں ایسی کشادہ دلی اور رواداری کی سنت قائم کی جو پوری دنیا میں آج بھی ایک مثال ہے، اس میں کسی تعصب کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا، کیونکہ یہودیوں کی دشمنی ابھی تک ان کے دلوں میں تھی اس لئے برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا گیا، جس میں اپنے اپنے دین پر عمل میں آزادی، اپنے اخراجات کا بوجھ خود اٹھانا اور ریاست کے کسی ایک فریق پر حملے کی صورت میں مل کر اس کا جواب دینا،وغیرہ شامل تھے۔ یہود اگر معاہدے پر عمل درآمد کی اعلی مثال قائم کرتے تو کعب بن اشرف فتح بدر کے بعد خفیہ طور پر مکہ جا کر قریش میں بدلے کی آگ نہ بھڑکاتا، مدینہ آ کر ازواج النبی ﷺکی شان میں گستاخانہ شاعری نہ کرتا، اور رسول اللہ ﷺ کی تائید کے ساتھ محمد بن مسلمہ اسے کیفر کردار تک نہ پہنچاتے۔ شاس بن قیس یہودی نے اوس وخزرج کے مسلمان قبائل میں قدیم دشمنی کی آگ بھڑکانی چاہی مگر رسول اللہ ﷺ کی بروقت مداخلت سے یہ آگ بھی ٹھنڈی ہو گئی، غزوہ بدر کی فتح کی خبر نے یہود کے خفیہ غیض و غضب کو بڑھا دیا، اس کے تینوں قبیلے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے مگر بنو قینقاع سب سے بڑھ کر دشمنی پر آمادہ تھے، وہ قینقاع کی آبادی میں آنے والے مسلمانوں پر آوازے کستے، ان سے ٹھٹھا کرتے اور استہزاء کا کوئی موقع نہ جانے دیتے، حتی کہ انہوں نے مسلمان عورتوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی، رسول اللہ ﷺ نے ان کے علاقے میں جا کر انہیں نصیحت کی مگر بنو قینقاع نے کوئی اثر نہ لیا، الٹا ان کی ضد میں اضافہ ہو گیااور ایک عورت کی بے عزتی کرنے پر یہود سے ہونے والا جھگڑا یہود کی جلا وطنی پر منتج ہوا۔بنو نضیر نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور بظاہر آپؐ کو دعوت پر بلایا، اللہ نے آپﷺ کو ان کے ارادے کی خبر دے دی اور آپؐ نے یہود کا محاصرہ کیا اور ان کی مدد کے لئے کوئی بھی نہ آیا اور وہ معاہدہ کر کے شام اور خیبر کی جانب جلاوطن ہوئے، غزوہ احزاب کے موقع پر یہود کے آخری قبیلے بنو قریظہ نے عین جنگ کے دوران رسول اللہ ﷺ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور کفار کے ساتھ مل گئے اور اس عہد شکنی کی سزا پر ان کے قبلِ جنگ مردوں کو قتل کیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا اور یہود کے ساتھ آخری کاروائی غزوہء خیبر میں ہوئی جہاں ان کا غرور چکنا چور ہو گیا، اور پھر وہ کبھی مسلمانوں کے مقابل کھلے میدان میں نہ آ سکے۔ یہ حال ہے یہود سے نبوی معاہدوں کا جن کی جانب رکنِ اسمبلی متوجہ کر کے یہود کے ساتھ کسی اور ٹریٹی کی فرمائش کر رہی ہیں۔
محترمہ عاصمہ حدید کی کم علمی کا یہ حال ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بنی اسرائیل کا نبی قرار دے رہی ہیں، کیا ہماری بہن نہیں جانتیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں، ایک حضرت اسماعیلؑ کی اولاد جو عرب میں رہی اور بنی اسماعیل کہلائی، دوسرے حضرت اسحاقؑ کی اولاد ، جو ان کے بیٹے یعقوب کے لقب اسرائیل سے نکلی اور بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی، اسی شاخ میں جب پستی اور تنزّل کا دور آیا تو پہلے یہودیت پیدا ہوئی اور پھر عیسائیت نے جنم لیا۔بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے راہِ راست کا علم دیا اور انہیں اقوامِ عالم کی رہنمائی کی ذمہ داری سونپی۔ رسول اللہ ﷺ کا تعلق بنی اسماعیل سے تھا، اور یہود کے ایمان نہ لانے کا ایک سبب یہی دشمنی تھی کہ آخری نبی ﷺ جن کا وہ انتظار کر رہے تھے ،بنی اسرائیل میں سے نہیں آئے تھے۔
ہماری بہن کہتی ہیں کہ ہم نماز میں بنی اسرائیل کے لئے دعا کرتے ہیں: اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد ۔۔ کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم ۔۔ اور پھر اس کی تشریح کرتی ہیں کہ آل ابراہیم سے مراد’’ یہود‘‘ ہیں اور ہم نماز میں ان کے لئے اور کریسچینز کے لئے دعائیں کرتے ہیں، آل ابراہیم میں تو ابو لہب بھی تھا جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا: ’’تبت یدا ابی لہب وّ تبّ‘‘ (سورۃ اللہب)
کیا دعا اور درود اہلِ ایمان کے لئے مخصوص نہیں؟
سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:
(قال انّی جاعلک للنّاس اماماًط قال ومن ذریتیط قال لا ینال عہدی الظالمین) (۱۲۴)
’’اس (اللہ ) نے (ابراہیمؑ ) سے کہا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیمؑ نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔‘‘
اس سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ گمراہ یہودی اور مشرک بنی اسماعیل اس وعدے کے مصداق نہیں ہیں۔
اللہ تعالی نے آلِ ابراہیم ؑ کو رزق عطا کرنے کا وعدہ تو کیالیکن نہ ماننے والوں کو عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹنے کا عندیہ بھی دیا، بدترین ٹھکانا ہے۔ (سورۃ البقرۃ، ۱۲۶)
اس لئے ہمارا درود پڑھنا اور رحمت اور برکت کی دعا آلِ ابراہیم ؑ اور آل محمد ﷺ کے اسی حصّے کو پہنچتی ہے جو ایمان والے ہیں۔
محترمہ عاصمہ حدید صاحبہ ہم نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں، اللہ تعالی سے سیدھے راستے کی ہدایت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الّذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘ آمین
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، انکا نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان کا جو گمراہ ہوئے‘‘۔
انعمت علیھم سے مراد انبیاء اور صالحین کا راستہ ہے،
المغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں۔ یعنی ہمیں ان کے راستے پر نہ چلانا جن پر تیرا غضب نازل ہوا۔
ولا الضالین سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے اپنا راستہ گم کر دیا۔
اور رسول اللہ ﷺ نے اس مفہوم کی تائید کی ہے۔
آخر میں عاصمہ بہن سے ایک بات کہنا چاہوں گی، کہ اگر کوئی ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ وہ طب کا زیادہ علم نہیں رکھتا تو وہ پھر بھی اس سے اپنی بیماری کا علاج کروائیں گی؟ ہم اپنے مرض کے لئے بہترین ڈاکٹر کا انتخاب کریں، تو کیا اہم ملکی اور دینی معاملات ہی اس قابل رہ گئے ہیں کہ جو چاہے بغیر علم کے ہرزہ سرائی کرنے لگے؟
آپ خود اس بات کا اقرار کر رہی ہیں کہ آپ کے پاس زیادہ علم نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک عام درجے کا علم بھی نہیں، پھر قومی اسمبلی جیسے اہم قانون ساز ادارے کے فورم پر آپ کو یہ ہرزہ سرائی کرنی چاہئے تھی؟؟ یہ قوم کا آپ سے سوال ہے۔
آپ کے بیان کی ویڈیو وائرل ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اہل فکر ودانش کی پریشانی کا کیا عالم ہے، اور پوری قوم کس قدر شاک میں ہے۔
کیا آپ جیسی خاتون کو قانون سازی کے اس اہم ادارے کی ممبر ہونا چاہئے؟
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. I used to be suggested this web site by way of my cousin. I am not positive whether this publish is written by him as no one else know such unique about my difficulty. You’re wonderful! Thanks!

جواب چھوڑ دیں