چلیں ہم نوکیا سے شروع کرتے ہیں ۔ 1865 میں فن لینڈ میں قائم ہونے والی اس عظیم الشان موبائل بنانے والی کمپنی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ دنیا حیران رہ گئ ۔ ایک عرصے تک بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صدی تک نوکیا اس دنیا پر حکمرانی کرنے والی شاید پہلی اور آخری کمپنی تھی تو غلط نہ ہوگا ۔ 2003 سے لے کر 2005 تک پورے پاکستان کے 70 فیصد موبائل فونز نوکیا کے ہی بنے ہوئے تھے ۔ صرف 2008 میں نوکیا کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ 4500 ملین موبائل سیٹس دنیا بھر میں بک گئے ۔ 2008 میں ہی صرف امریکا میں 300 ملین نوکیا استعمال کرنے والے لوگ تھے جبکہ امریکا کی 60 فیصد موبائل مارکیٹ بھی نوکیا ہی کے قبضے میں تھی ۔
2009 اور 2010 ایپل ، گوگل اور اینڈرائڈ کا دور شروع ہوچکا تھا لیکن نوکیا ابھی تک اپنے ہارڈوئیر کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ دنیا ” اسمارٹ” ہوتی جارہی تھی ۔ لوگ سوفٹ وئیر اور پلےاسٹور کی دنیا میں آچکے تھے ۔ ساری دنیا کے ڈیولپرز اور انجینئرز خود کو اینڈرائڈ پر لے آئے تھے لیکن نوکیا اپنی ” علیحدہ ” پہچان بنانے کے چکر میں اب اپنی پہچان کھونا شروع ہوچکا تھا ۔ ہندوستان اور چین جیسے ممالک میں بھی اب ” ہر مال چائنا” کی آوازیں لگ رہیں تھیں لیکن اوپر کرسیوں پر بیٹھے نوکیا کے ” دماغ ” خود کو عوام کی نظروں سے دیکھنے سے قاصر تھے ۔
نوکیا نے تنگ آکر بالآخر ستمبر 2010 میں اپنے پرانے سی – ای – او اولی پیکا کو ہٹا کر اسٹیفن ایلوپ کو اپنا نیا سی – ای – او مقرر کردیا ۔ ایلوپ نے بھی اپنی ” پہچان” برقرار رکھنے کی فکر میں خود کو مزید ایک تجربے سے گذارا اور مائیکرو سوفٹ کے پاس چلے گئے ۔ جو ونڈوز آج تک کی تاریخ میں کبھی ” موبائل فرینڈلی ” نہیں تھیں ۔ اس کو اپنے ہینڈ سیٹس کی زینت بنا ڈالا اور اس طرح 1865 میں پوری آب و تاب سے طلوع ہونے والا نوکیا کا سورج 2010 میں غروب ہوگیا ۔
ایلکوا ایلومینیم بنانے والی اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی کمپنی ہے ۔ 1987 میں کمپنی کی معاشی حالت بری طرح خراب ہونے لگی ۔ جگہ جگہ پلانٹس بند ہونے لگے ۔ عوام اور ملازمین کا اعتماد آہستہ آہستہ کمپنی پر سے ختم ہوتا جارہا تھا ۔ کیونکہ ایلومینیم کا کام بے انتہا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اسلئیے کسی نہ کسی پلانٹ پر کوئی نہ کوئی مزدور معذور ہوجاتا یا مر جاتا اور پھر زندگی بھر وہ یا اس کے ورثاء بے یار و مددگار پڑے رہتے ۔
پال – او نیل افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے آئے ۔ کمپنی کی پالیسی ، مشن اسٹیٹمنٹ اور اپنے پچھلے کارنامے گنوانے کے بجائے انھوں نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہا کہ میرے تین مقاصد ہیں :
1) میں اس بات کو یقینی بناؤنگا کہ کمپنی میں ہر شخص کو ہر کسی سے عزت اور محبت ملے۔
2) میں ہمیشہ اپنے ملازمین کی حفاظت کو مقدم رکھونگا ، کسی بھی حالت میں کسی قسم کو کوئی سمجھوتا سیفٹی پر نہیں ہوگا ۔
اور تیسرے یہ کہ ،
3) ہماری کمپنی میں موجود ہر ملازم کو لازماً یہ معلوم ہوگا کہ وہ یہاں ” کیوں ” یہ کام کر رہا ہے ۔
اور پھر پال – او نیل کے یہ الفاظ عمل میں ڈھل گئے ۔ کمپنی کے ہر ملازم کے پاس پال کا نمبر ہوتا تھا ۔ کہیں کوئی چھوٹی سی بھی شکایت پال کو موصول ہوتی تو پلانٹ پہلے بند ہوتا اور تفتیش بعد میں شروع ہوتی ۔ شروع کے چھ مہینے سخت اذیت میں گذرے لیکن پال نے طے کرلیا تھا کہ کمپنی میں حادثہ کوئی نہیں ہوگا اور پھر صرف چھ مہینے بعد ایلکوا دنیا کی سب سے بڑی ایلومینیم کمپنی بن گئی ۔سن 2000 میں جب پال – اونیل کپمنی سے رخصت ہوا تو اسکا شما ر دنیا کے کامیاب ترین سی – ای – اوز میں ہوتا تھا اور آپ کمال ملاحظہ کریں وہ ادھر کمپنی سے فارغ ہوا اور ادھر جارج بش نے اس کو اپنا وزیر خزانہ بنا لیا ۔
یہ دو کمپنیوں کے دو آدمیوں کی دو کہانیاں نہیں ہیں ۔ یہ ہمارے اداروں کا نوحہ اور المیہ ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ نجی ہوں یا سرکاری ۔ کسی بھی کمپنی میں گاہک بعد میں آتا ہے لیکن ملازم پہلے آتا ہے ۔ بیوقوف ہیں وہ ادارے جو صرف یہ لکھ کر لگاتے ہیں کہ ” کسٹمرز آلویز رائٹ ” ۔ صبح سے شام تک ان کسٹمزر کو ڈیل کرنے والے ملازمین کو بھی یہ حق دیجئیے کہ وہ بھی کچھ ” رائٹ ” کہہ سکیں ۔ اداروں کی تباہی کے لئیے یہ کافی ہے کہ آپ صرف ایک جی ہاں صرف ایک نااہل شخص کو باقی سارے لوگوں پر مسلط کردیں اور پھر اس کے بعد اپنے دیوالیہ ہونے کا تماشہ دیکھیں ۔ محض شاخ نازک پر مضبوط آشیانے کی تمنا رکھنا دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں ۔ اپنی ہاں میں ہاں ملانے والوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ آپ خود پر تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھیں ۔
علی بابا کے سربراہ جیک ما کے الفاظ ہیں کہ میں نے چالیس سال تک خود سے زیادہ ذہین لوگوں کو تلاش کیا اور پھر ان کو ساتھ بٹھا کر کام شروع کروایا ۔ ہمارے اداروں کے ” عقلمند ” سربراہان ہمیشہ خود سے ” کم عقل ” لوگوں کو تلاش کرتے ہیں اور کبھی ان سے کوئی عقل میں ” زیادہ ” آگیا تو وہ جاب رسک پر آجائیگا ۔ اسٹیو جابز کے بقول کہ ” میں حیران ہوتا ہوں کہ اداروں کے مالکان اتنے ذہین اور باصلاحیت لوگوں کو ملازمت پر رکھتے ہیں اور ان سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟ صبح سے شام تک ان کو لگے بندھے کاموں کی فہرست پکڑا دیتے ہیں “۔ ہم اتنے عقلمند ہیں کہ جس کے ” دماغ ” سے کام لینا ہے اس کے بھی ہاتھ پاؤں سے ہی کام لیتے رہتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو ہر ملازم پر شک رہتا ہے تو آپ کبھی ترقی نہیں کرسکتے ہیں ۔ یاد رکھیں جو بھروسہ نہیں کرسکتا وہ ترقی نہیں کرسکتا – دنیا میں کامیاب اور ناکا م لوگوں ، اداروں اور تنظیموں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ ناکام لوگ بس ” ہارڈ ورک ” پر توجہ دیتے ہیں اور کامیاب لوگ ” نیٹ ورک ” پر ۔وہ کام سے زیادہ افراد کو تیارکرنے پر کام کرتے ہیں ۔
جب تک کمپنیوں میں ” لیڈرز ” کے بجائے ” باس” رہینگے نہ تو ہمارے ادارے پروفیشنل ہوسکتے ہیں نہ ہی دنیا میں کوئی بڑی جگہ بنا سکتے ہیں ۔اگر آپ اپنے ادارے کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ ان کے خوشی ، غمی میں ” شریک ” ہونا سیکھیں ۔ ” حکم ” کے بجائے ” تعلق ” کے ذریعے کام کروائیں ۔ چاپلوسوں کے بجائے ” اہل ” لوگوں کو جگہ دیں ۔ ہاتھوں پاؤوں والے انسانوں سے زیادہ ” دماغوں ” والے لوگوں کو جمع کریں اور باس کلچر کے بجائے ” لیڈرشپ ” کلچر کا پروان چڑھانا ہوگا ۔ آپ کے ملازم کو اپنا ادارہ ایک فیملی اور گھر کی طرح معلوم ہو اور جس دن اس نے کمپنی کے درد کو اپنا درد سمجھنا شروع کردیا وہی آپ کی کامیابی کا دن ہوگا ۔
اسلام وعلیکم! بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔۔موضوع کا چناؤ اور اس پر انداز بیاں۔۔۔۔۔بہت زبردست!!!
جہانزیب صاحب
یہ بہت عمدہ موضوع ہے جس کا تعلق ہر اس فرد سے ہے جو آٹھ گھنٹے والی ملازمت کرتا ہے۔
اللہ آپ کے علم اور صلاحیتوں میں اضافہ کرے اور آپ دوسروں کو فیضیاب کرتے رہیں۔ آمین