علامہ محمد اقبال کی شاعری کا بیشتر حصّہ نوجوانان اسلام کے نام ہے،انہوں نے ان جوانوں کو کہیں شاہین کہیں شہباز اور کہیں عقاب کہہ کے مخاطب کیا۔۔۔
انہیں ان کا مقصد زندگی بتاتے ہوئے تاروں پہ کمند اور پہاڑوں کی بلندی کی تشبیہ دیتے ہیں،کہیں بے تکان پرواز کو کامیابی کا زینہ قرار دیتے ہیں،کہیں ان کی خودی کو صورت فولاد بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو کہیں بےداغ جوانیوں کا نسخہء کیمیاء بتاتے نظر آتے ہیں۔۔۔
علامہ اقبال کی اس عرق ریزی کو دیکھتی ہوں اور پھر سوچتی ہو ں کہاں کھوگیا اقبال کا وہ شاہین جس کا بسیرا پہاڑوں کی چٹانوں میں تھا قصرسلطانی کے گنبد کی چکا چوند نے کیسا اس کی آنکھوں کو خیرہ کیا کہ وہ اپنا نشیمن ہی بھلا بیٹھا۔۔۔
تہذیب فرہنگ جس کو قلب نظر کا فساد ٹھہرایا کب اور کیسے ان کے سخت کوش شباب کا لہو کرکے اسکو تن آساں اور داغ دار کر گئی۔۔۔
اقبال نے جس جواں کی خودی کو صورت فولاد بنانے کا خواب دیکھا اس کو کب اور کیسے زہر ناب پلا کر سلا دیا گیا۔۔۔
اقبال کا وہ شاہیں جس کی اداجھپٹنا پلٹنااورجس کی درویشی ضرب المثل ٹھہری تھی وہ کب خیابانوں اور آب و دانہ کے چکر میں پڑ کر اپنے بال وپر گنواں بیٹھااورضرب غازیانہ اور فقر حیدری سے محروم ہوکررہ گیا۔۔۔
ایسا محسوس ہوتا ہے واقعی اقبال کی کشت ویراں ہو گئی۔۔۔
لیکن اقبال تو اس ویرانی سے بھی نا امید نہیں وہ تو اس نا امیدی کو زوال علم و عرفان سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔
اس مٹی میں دوبارہ زرخیزی لانے کے لیئے ذرا سی نمی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔۔۔
امید بہار کیلئےاپنی ملت کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کو کہتے ہیں جس کی ترکیب قوم رسول ہاشمیؐ سے منسوب ہے۔۔۔
بے شک یہ “سرمایہ ملت” راکھ میں دبی چنگاری کی مانند ہے بس ذرا اک جھونکے کی ذرا ہوا دینے کی دیر ہے۔۔۔
ان شاءاللہ