ہمارے بہت سارے بہن بھائی بیچاری آسیہ کیلئے بہت ہمدردی کا جذبہ دکھلاتے ہوئے ہر ایک کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ :
“وہ بے قصور ہے اور ہر ایک سے گزارش کر رہے ہیں کہ فیصلہ پڑھو پلیز، فیصلہ پڑھو تو سمجھ آئے گا کہ اس کو پھنسانے کی سازش ہوئی ہے ۔کچھ بولنے سے پہلے تحقیق تو کرلو تم لوگ جانتے نہیں اس معصوم کیخلاف جھوٹی گواہی دی گئی ہے”۔
میرا سوال ان بہن بھائیوں سے یہ ہے کہ کیا آپ نے بھی تحقیق کی ہے کہ اس کے خلاف کس کس نے گواہی دی؟ آسیہ بی بی بے گناہ ہے بھی یا نہیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی گواہ ہے اس کی سچائی بیان کرنے کیلئے؟؟؟؟
میں نے فیصلہ پڑھا اور سر پکڑ لیا کہ یہ کیا فیصلہ ہے، کیا عقل گھانس چرنے چلی گئی تھی جو ایسی احمقانہ باتوں پر سزا ختم کردی، چیف جسٹس نے توہینِ رسالت ﷺ کے الزام میں قید آسیہ بی بی کو بری کرنے کیلئے جو دلائل تحریر کئے ہیں ان میں سے چند نکات پر مجھے اعتراض ہے میں وہ سطحی اعتراضات یہاں درج کر دیتی ہوں باقی آپ خود اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کریں کہ اس ملعونہ کی رہائی مشکوک ہے یا نہیں (میں اس تحریر میں آسان زبان استعمال کروں گی تاکہ ہر کوئی میری بات آسانی سے سمجھ سکے)
* فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ آسیہ نے نچلی دونوں عدالتوں میں دبائو میں آکر اعتراف جرم کیا تھا اور اب وہ اس جرم سے انکاری ہیں لہٰذا آسیہ کیخلاف کوئی کیس نہیں بنتا اور فوری طور پر آسیہ کو رہا کیا جائے ۔مجھے کوئی یہ بتائے کہ کیا آسیہ بی بی نے عدالت کو گمراہ کرنے کا جرم نہیں کیا ؟ یا تو وہ پہلے جھوٹ بول رہی تھی یا اب جھوٹ بول رہی ہے، کسی بھی صورت میں اس پر عدالت کو گمراہ کرنے کا کیس بالکل بنتا ہے ایسی کیا جلدی تھی کہ فوراً بری کردیا گیا؟
* فیصلہ میں ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ ایف آئی آر 5 دن کی تاخیر سے درج کی گئی۔۔۔۔۔۔ اس سادگی پہ کون نا مر جائے اے خدا ! ایسا لگ رہا ہے ہم پاکستان نہیں امریکہ میں رہتے ہیں کہ یہاں جرم ہوا اور اگلے منٹ میں وہاں ایف آئی آر درج ہوگئی، کیا آپ کو نہیں پتا کہ ہماری پولیس کوئی بھی مقدمہ درج کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتی، منت سماجت کرلو پیر پکڑ لو لیکن نہیں بھئی مجال ہے ایف آئی آر کٹ جائے، چلیں ایک کام کرتے ہیں، میں آپ کے گھر میں گھس کر آپکے گھر والوں، بزرگوں، خواتین، بچوں کو بہت برا بھلا کہتی ہوں گالیاں دیتی ہوں، آپ میرے خلاف ایک دو گھنٹے میں ایف آئی آر درج کروا کر تو دکھائیں۔۔۔۔۔حالانکہ یہ بڑی مثبت بات ہے تفتیشی افسر نے مکمل تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا ،گزشتہ دونوں فیصلوں میں صاف صاف لکھا ہے کہ تفتیشی افسر نے پوری تفتیش کے بعد ایف آئی آر درج کی ہے تاہم فاضل جج صاحبان کو اسی تاخیر پر اعتراض ہوگیا حالانکہ فیصلے میں آگے جا کر یہی جج حضرات ہائیکورٹ کے ججوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائیکورٹ نے ملزمہ کی ریویو کی اپیل اس لئے خارج کردی کہ وہ گیارہ دن تاخیر سے جمع کرائی گئی اور محض قانونی موشگافی کی بناء پر اپیل مسترد نہیں ہونی چاہیے یعنی مدعی کی جانب سے تاخیر مشکوک اور آسیہ کی تاخیر نا انصافی؟؟؟؟
* فیصلے میں لکھا گیا ہے گواہوں کے بیانات متضاد ہیں ،کوئی کہہ رہا ہے تھا مجمعے میں 100 لوگ تھے کسی نے کہا 1000 تھے کسی نے کہا 2000 تھے ۔مجھے یہ بتائیں کہیں دھماکہ ہوجائے اور آپ زخمیوں سے یہ معلوم کریں کہ وہاں کتنے لوگ موجود تھے، تو کیا سب ایک ہی تعداد بتائیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں کوئی کہے گا 100 تھے ،کوئی کہے گا 400 تھے کوئی کہے گا 10 لاشیں تھیں، کوئی کہے گا 25 لاشیں تو میں نے خود دیکھی ہیں لیکن بات صرف آفیشلز کی ہی تسلیم کی جاتی ہے میرے نزدیک یہ بات انتہائی غیر اہم تھی۔
* ایک پوائنٹ یہ لکھا ہے کہ بیانات بھی ایک سے نہیں کسی نے بتایا وہ مجمعے میں پیدل چل کر آئی کسی نے کہا وہ بائیک پر آئی۔۔۔کیا واقعی ؟؟؟ یہ بات توہین رسالت کا فیصلہ کرنے میں اتنی ہی اہم ہے کہ وہ بائیک پر آئی یا پیدل اور اس بات پر توہین کا الزام ثابت نہیں ہوسکتا۔
*اس مقدمے کی عینی شاہد معافیہ اور آسما بی بی کے علاوہ اور خواتین جو وہاں موجود تھیں انہوں نے گواہی کیوں نہیں دی؟ مجھے بتائیے کیا پاکستانی معاشرے میں خواتین عدالتوں کے چکر لگانے سے نہیں ڈرتیں ؟؟؟ کیا دیگر مقدمات میں اکثر خواتین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں نہیں ملتی رہیں ہیں کہ گواہی نا دو یا بیان واپس لے لو وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ معافیہ اور آسماء پر پانی پلانے کے جھگڑے کا ذکر کیا ہے جبکہ اس کے آگے یہ تک نہیں لکھا کہ آسیہ بی بی ان دونوں خواتین پر کسی بھی قسم کی رنجش، کدوت، جھگڑا، زمین و مال کا تنازعہ ثابت نہیں کرسکی کہ جسکے باعث اس کو پھنسایا گیا ہو بلکہ ملزمہ اس بات کا بھی اقرار کرچکی ہے کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے اسی گاؤں میں رہتی ہے مگر کبھی کوئی تلخ واقعہ نہیں ہوا۔
* ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ یہ کیس ذاتی رنجش کی بناء پر بنایا گیا اور پولیس افسر نے صحیح تفتیش نہیں کی کیا آپ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ پولیس افسر تین عورتوں کی لڑائی میں دلچسپی دکھاتے ہوئے اور اتنے دبائو کے باوجود ایک عورت کو اتنے سنگین الزام میں پھنسانے کی کوشش کرے گا؟ بھائی راؤ انوار تک اپنے آپ کو بچا نہیں سکا اور سب تسلیم کرلیا کہ اس کی غلطی تھی تو وہ گاؤں والے آفیسر صاحب کیا چیز تھے جو غلط بیانی کرتے یا اس پر قائم رہتے۔
* معزز جج صاحبان (جو کہ عاشقانِ رسول بھی ہیں) نے ملعونہ آسیہ بی بی سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ان کے حق میں صفائی بھی دی ہے کہ آسیہ نے سب سے پہلا اعترافی بیان بھرے مجمعے میں دیا تھا وہ خطرناک ماحول میں اتنی خوفزدہ ہوگئی تھی کہ مبینہ اعترافی بیان دے دیا۔ برائے مہربانی مجھے کوئی یہ بتائے کہ بھرے مجمعے میں مجرم تو اپنے کئے ہوئے جرم سے ہی مکر جاتا ہے کہ یار بہت دھلائی ہو جائے گی یہ میں نے پہلی بار سنا کہ مجمعے سے خوف زدہ ہوکر جھوٹا اعتراف کرلیا اور توہین کا الزام اپنے اوپر لے لیا۔
* ایک پوائنٹ یہ ہے کہ آسیہ کیخلاف گواہوں نے جھوٹے متضاد بیانات دیئے۔ تو کیا کسی ایک شخص نے بھی آسیہ کے حق میں سچی گواہی دی؟؟؟ اور میرا تو خیال یہ ہے کہ اگر جھوٹے بیانات ہوتے تو سب ایک ہی رٹی ہوئی بات کہتے۔۔۔۔
آخر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ گواہ اور ثبوت پیش کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے اور اگر کہیں بھی جھول پیدا ہو تو اس کا پورا پورا فائدہ ملزمہ کو ملنا چاہیئے۔ کیا کسی کو بھی اس آخری لائن میں پوری کہانی سمجھ نہیں آرہی کہ جھول پیدا کرکے ملزمہ کو فائدہ پہنچایا گیا ہے یہ جھول نچلی دو عدالتوں کو کیوں نظر نہ آئے یا تفصیلی فیصلوں میں ذکر تک نہیں۔
بہت مدلل انداز میں لکها ہے ..ماشاءاللہ
انصاف کا خون اور وہ بهی اتنا بہیمانہ …انصاف پر سے اعتبار اٹه گیا ہے
حقیقت پر مبنی تبصرہ ہے
زبردست تجزیہ