ٍٍٍآج کل تعلیم و تعلم کے طور طریقوں میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر ،ڈوائٹ ۔ڈی ۔ایسن ہور (Dwight D.Eisenhower)کے مطابق’’حصول علم کی کوششوں میں، خواہ وہ بہتر تعلیم ہی کیوں نہ ہو،ہمیں روح تعلیم و مقصد تعلیم سے کبھی سر موئے انحراف نہیں کرنا چاہیئے۔اچھے اساتذہ ا تفاقا منصہ شہود پر رونما نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ اعلی شخصی ترغیب و تحریک کا نتیجہ ہوتے ہیں۔‘‘(In all our efforts for education, we must never lose sight of the very heart of education, good teaching itself. Good teachers don’t just happens,they are the product of the highest personal motivation) ڈوائٹ ڈی ایسن ہور کے اس تاریخ ساز قو ل سے مضمون کی ابتداء کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اساتذہ دوران تدریس مقصد تعلیم سے انحراف نہ کریں ۔معلومات کے انبار لگانے اور معصوم ذہنوں کو اپنے تبحر علمی سے مرعوب کرنے کے بجائے ان کے ذہنوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کی سعی و کاوش کریں۔ فی زمانہ ،وقت اور زمانے کی تیز رفتاری نے پیشہ تدریس کو پہلے سے زیادہ پیچیدہ ،گنجلک اورمزید چیالنچنگ بنادیا ہے۔یہ مشکل اور صبر آزما کام وہی انجام دے سکتے ہیں جو قابل ،بلند عزائم کے حامل اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ مروجہ تدریسی نظام میں وقت فوقتا تکنیکی و تخلیقی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تاکہ اساتذہ اپنے کام و پیشے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ زمانے کی رفتار کا ساتھ دے سکیں۔زمانے سے ہم رکابی کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ اپنے طریقہ تدریس کو بہتر بنائیں،حکمت عملی ،نقطہ نظر ، طریقہ پیش قدمی کے علاوہ اپنے علم میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے ساتھ تدریسی مہارتوں کومستحکم کریں اور پسندیدہ نئے تعلیمی و تخلیقی نظریات سے خود کو ہم آہنگ کریں۔اساتذہ مروجہ ،مقررہ،روایتی و مقید تعلیمی نظریات پر کاربند رہنے کے بجائے اپنی تدریس میں نئے ،تعلیمی نظریات،رجحانات اور جدید طریقہ تعلیم کو رواج دیں۔طلبہ کی بہتر زندگی اور ترقی کے لئے اساتذہ کو شخصی طور پر متحرک و فعال بنانے کی ضرورت ہیجو پیشہ تدریس کاسب سے اہم عنصر گردانا گیا ہے۔
تدریس موثر ہدایات پر مبنی ایک ایسے سائنسی علم و فن کا نام ہے جو مسلسل ارتقا پذیرہے اور جس کی تکمیل تقریبا ناممکن ہی ہے۔کیونکہ موثر تدریس کے لئے جہاں متبدل تدریسی نظریات کو سیکھنے کا عمل جاری ہے وہیں سکھانے کے لئے سیکھنے کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔تعلیمی مقاصد کے حصول کے لئے تدریسی سرگرمیوں کی ہر قدم پر مرحلہ واری سائنٹفیک منصوبہ بندی اور طریقہ کار پر سنجیدگی سے غورو خوص ضروری ہے۔تعلیم و تدریس پر جدید تحقیقات کی روشنی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔خاص طور پر اساتذہ جو تدریس اور معلومات کی ترسیل کے اہم ستون مانے جاتے ہیں آج جدید معلومات و تدریسی سائنس سے ہم آہنگ ہوکر ’’اکتساب برائے تدریس‘تدریس برائے اکتساب (سیکھو ،سکھانے کے لئے اور سکھاؤ سیکھنے کے لئےLearn to Teach, Teach to Learn) کے نظریہ پر عمل پیرا ہیں۔درس و تدریس کو موثر و مفید بنانے کے لئے چند ایسے شعبے ہیں جس پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جاسکے جو موجودہ نظام کو موثر ،مربوط اورمنظم بنا سکے۔تدریس کا دائرہ کار نہا یت وسیع ہے جسمیں موثر تدریس کے لئے معلم کی بہتر طریقہ ہائے تدریس سے آگہی، تعلیمی منصوبہ بندی، مضمون اور سبق کی منصوبہ بندی ، منظم انداز میں منصوبے پر عمل پیرائی ،طلبہ کے رویوں اور برتاؤ میں بہتری کے لئے خاص حکمت عملی کو وضع و اختیار کرنا،طلبہ کی ترقی کی مناسب جانچ و نگرانی کے لئے تعین قدر(امتحان)کی معلومات سے آگہی،تعلیم سے وابسطہ افراد،تنظیموں اور دیگر محکموں سے روابط ،اپنے مضمون اور موضوع پر عالمانہ عبور ،پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافہ اور بہتری کے لئے سعی و جستجو وغیر ہ جیسے عناصر شامل ہیں۔ایک استاد کا کام بہتر طریقے سے معلومات کی منتقلی یا ترسیل نہیں ہے بلکہ تدریس کا مقصد بچوں میں علم کے تئیں ترغیب و تحر یک پیدا کرنا،رہنمائی و رہبری کے ذریعے بچوں میں خود کار اکتساب کی فضاء کو فروغ دینا ہے۔ استاد کی پیدا کردہ تحریک ترغیب و رغبت کے زیر اثر طلبہ حصول علم میں معاون تما م وسائل کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔اپنے علم میں معروف و غیر معروف وسائل کے ذریعے اٖضافہ، گہرائی،گیرائی اور پختگی پیدا کرنے کے علاوہ،وہ زمانے کے مختلف مسائل ،الجھنوں اور چیالنجس کا کامیابی سے سامناکرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ استادتدریسی و تعلیمی عمل کا سب سے فعال عنصرہوتا ہے ۔طلبہ میں علم سے دائمی رغبت پیدا کرنے میں استاد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جناب اکرام خاں اپنی کتاب ’’تعلیم اور اس کے مسائل‘‘)صفحہ نمبر (66کے مطابق استاد کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک بحیثیت انسان اور دوسرا بحیثیت معلم۔بحیثیت انسان استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیمی اور سماجی ماحول سے اس طرح استفاد ہ کرکے کہ طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتیں بھر پو ر طریقے سے اجاگر ہوجائیں۔معلم کی حیثیت سے ایک استادکوسماجی (Social) اور انسان دوست مزاج کا حامل ہونا ضروری ہے۔سماجی شخصیت کا حامل اور انسان دوست استاد ماحول پر بہ آسانی اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے اساتذہ اسکول کے ماحول اور نظام کو طلبہ کے لئے دلکش بنا دیتے ہیں۔موثر تعلیم ،درس و تدریس کو بامعنی بنانے کے لئے استاد کو کن اوصاف و خوبیوں سے متصف ہونا چاہیئے یہ گفتگو ہر زمانے میں موضوع بحث رہی ہے ۔عموما ہر استاد چند خوبیوں سے متصف ہوتا ہے ۔تدریسی تجربہ اور معلومات کی کمی کی وجہ سے جب استاد تدریسی میدان میں اترتا ہے تب اس کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں بلکہ اکھڑنے لگتے ہیں۔ایک اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ استاد کو درس و تدریس سے زیادہ دشواری تعلیم و تعلم کے لئے سازگار ماحول پید ا کرنے میں پیش آتی ہے۔ایک استاد کو علم کی معدن یعنی کے عالم(Knowledged Person) ہونا ضروری ہے کیونکہ علم سے بے بہرہ استاد بھلا کیسے علم بانٹ سکے گا۔لیکن یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ علم کا حاصل کرنا اور دوسروں کو علم سے بہرور کرنا دو جداگانہ عمل ہیں۔جیسیکوئی بات آپ باآسانی سمجھ توجائیں گے، لیکن وہی بات دوسروں کو سمجھانے میں آپ کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ہم اپنے مسائل کو تو حل کر لیتے ہیں لیکن دوسروں کے مسائل کا کوئی حلہمارے پاس نہیں ہوتاہے۔اسی لئے ایک استاد کا صاحب علم ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ علم کو مختلف صلاحیتوں ،دلچسپیوں اور قوتوں کے حامل بچوں میں منتقلی کے فن سے بھی اس کو واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔دوسروں کو علم سے آراستہ کرنے ،فہم و ادراک پیدا کرنے کا فن خود کیسیکھنے اور سمجھنے کے مقابلے میں قدرے مشکل کام ہوتا ہے۔زیر نظر مضمون میں ایسی خو بیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو اپنا کر ایک استاد اچھا موثر اور کامیاب معلم بن سکتا ہے اور اپنے پیشے سے انصاف کرسکتا ہے۔
مضمون و موضوع پرمہارت اورعبور رکھتا ہو؛۔درس و تدریس اور تعلیم و تعلم میں طلبہ پر اثر انداز ہونے والا سب اہم عنصر استاد کامضمون و موضوع کا علم اور اس پر اس کا عبور و کمال ہوتا ہے۔صرف نصابی کتب پڑھ کر اسی معلومات کو طلبہ پر منقل کرنا طلبہ کے لئے ایک بے کیف اور غیر اطمینان بخش اکتساب کانقطہ آغاز ہوتا ہے۔آج کا زمانہ انفجار علم(Knowledge Explosion)کا دور ہے اور طلبہ کو حصول علم کے
لئے استاد کے علاوہ کئی ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ان حالات میں اگر استاد کا علم اور معلومات سطحی ہوں گے تب یہ معلومات طلبہ کے لئے کوئی دلچسپی اور کشش کا باعث نہیں ہوں گے اور استاد کی علمی حیثیت طلبہ کی نظروں میں بے وقعت ہوجائے گی۔ کمرۂ جماعت میں استاد کی موثراور پر کیف تدریس کا انحصار اس کے تبحر علم ،مضمون و موضوع کی معلومات پر عبور و دسترس اور تدریس کی مہارت پر ہوتا ہے۔ مضمون و موضوع کے علم پر عبور و مہارت پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے نہایت ضروری تصور کی جاتی ہے تاکہ طلبہ اپنے استاد کے علم و فضل کی قدر کر یں اور استاذی کا مقام و مرتبہ بلند ہو۔طلبہ کے نزدیک علم و فن کا دوسرا نام استاد کی شخصیت ہوتی ہے۔استاد اپنے علم کی گہرائی ،گیرائی اور نفس موضوع سے انصاف کرتے ہوئے شاگردوں میں تشکیک کی فضاء کو ابھرنے نہیں دیتا ۔ استاد اگر اپنے مضمون اور موضو ع پر دسترس نہ رکھتا ہو تب اکتساب و آموزش (سیکھنے کا عمل) مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔ استاد اپنی علمی بے مائیگی کی وجہ سے ذہین اور ہشیار طلبہ کی علمی تشنگیکو دور کرنے سے قاصررہتا ہے جس کی وجہسے طلبہ ناامید ی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔اپنے موضوع اور مضمون پر عبور و دسترس رکھنے والا استاد طلبہ کو علم سے سیراب کرتا ہے۔سیرابی علم سے سرشار طلبہ میں اکتساب کی شرح ازخود بڑھنے لگتی ہے ۔اکتساب اور درس و تدریس غیر ارادی طور پر ایک فعال اور دلچسپ عمل بن جاتے ہیں۔بقول ماہر تعلیم محمد اسحق مرحوم ’’ اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے۔‘‘ (تعلیم ایک تحریک ) ۔ بہتر درس و تدریس کے لئے ایک استاد کو اپنے علم و فن میں طاق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک باکمال استا د نہ صرف اپنے مضمون میں کمال پیدا کرتا ہے بلکہ وہ اپنے علم اور طریقے تدریس سے طلبہ کے قلب و ذہن تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ماہر تعلیم ہمایوں کبیر کے مطابق پڑھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک بھری بالٹی کو خالی بالٹی میں انڈیل دیا جائے۔ماہر تعلیم وسابق صدر جمہوریہ ہند نے بھی تختہ سیا ہ سے یا درسی کتاب سے نقوش علم کی طلبہ کی نوٹ بک کی منتقلی کو تدریس ماننے سے انکار کردیاہے۔ایک مثالی استاد اپنے علممیں وسعت پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے ۔اپنے علم میں وسعت پیدا کرتے ہوئے استاد طلبہ میں اکتساب کی فضاء کو پروان چڑھا تا ہے۔پڑھانے سے قبل اس کو علم ہوتا ہے کہطلبہ کو کیا اور کس طرح پڑھا یا جائے ۔طلبہ کی بنیادی کمزوریوں کا علم بھی ا یک استاد کے لئے بے حد ضروری ہے۔ تاکہ ترسیل علم میں ما نع تما م عناصر کا وہ کامیابی سے سد باب کر سکے۔ایک کامیاب استاد کا ہر سبق تدریس کا فن پارہ ہوتا ہے۔ ذہین اور ہشیار طلبہ کی جانب سے مضمون اور موضوع پر درسی نصاب کے علاوہ اٹھائے جانے والے اشکالات کے جوابات دینے کے لئے ایک استاد کو نصابی کتاب کی معلومات کا فی نہیں ہوتی ہے۔ذہین اور تعلیمی طور پر فعال اور ہشیار طلبہ کی تدریس ایک استاد کے لئے مشکل اور پریشان اس وقت ہوجاتی ہے جب اس کو موضوع و مضمون پر عبور حاصل نہ ہو اور نصابی مواد کے علاوہ اعلی معلومات تک اس کی رسائی نہ ہو۔طلبہ درسی کتب کے پڑھائے گئے مفروضے اور حروف فراموش کر دیتے ہیں لیکن استاد کے پڑھا ئیگئے سبق اور مفروضوں کی سدائے بازگشت تمام عمر ان کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔علوم کی ترسیل میں استاد کا تبحر علم نہایت اہم وسیلہ ہوتا ہے اور یہ تبحر طلبہ کے ذہن و قلب میں ہمیشہ کے لئے مرتسم ہوجاتا ہے۔اساتذہ کے لئے چند قابل قدر رہنمایانہ اصول بیان کیئے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ پڑھائے جانے والے موضوع میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے ساتھ درس و تدریس میں تنظیم و ترتیب پیدا کر سکتے ہیں۔
(1)اساتذہ پڑھائے جانے والے موضوع اور اس سے متعلق دیگر معلومات و مضامین کا پہلے ہی بغور مطالعہ کرلیں اور موضو ع کی تدریس میں معاون نوٹس بھی تیار کرنا نہ بھولیں۔موضوع سے متعلق معلومات کے حصول سے اساتذہ کومضمون اور موضوع پر عبور و کمال حاصل ہوجاتا ہے اور درس و تدریس میں تنظیم و ترتیب پیدا کرنے میں بھی وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔درسی سرگرمیاں باقاعدگی سے انجام پانے لگتی ہیں ۔کمرۂ جماعت بوریت اور افتادگی کا شکار ہونے سے محفوظ رہتی ہے ۔درس و تدریس کا سارا عمل ایک منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانے لگتا ہے۔اکتساب کی شرح بھی متاثر کن حد تک بڑھ جاتی ہے۔
(2)اساتذہ مختلف تعلیمی و تدریسی وسائل کے استعمال کے ذریعہ مو ضوع اور مضامین کی معلومات میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔موضوع اور مضمون کے بارے میں درسی کتب میں فراہم کردہ معلومات پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ مزید معلومات اور حقائق کے لئے غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ سے اپنے علم و معلومات میں اضافہ کریں۔ہر وقت اپنے طلبہ کو معیاری اور بہترین معلومات اور عمدہ علم کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک استاد کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔
(3)اساتذہ مطالعہ کی عادت کو مستقل اپنا شیوہ بنالیں۔مطالعہ کی کثرت کی وجہ سے، علم میں وسعت اور گہرائیپیدا ہوتی ہے۔اساتذہ کے لئے تو مطالعہ سانس کی طرح اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کے لئے سانس جیسے اہم ہے اسی طرح تدریسی زندگی کی ڈور بھی مطالعہ سے بندھی ہوئی ہے۔رسائل، جرائد، مضمون و موضوع سے متعلق کتابیں، جرنلس ،تحقیقی مضامین و مقالہ جات اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کے مطالعہ کے ذریعہ اساتذہ پر اعتماد اور موثر تدریس کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
(4) اپنے ہم پیشہ دوستوں، ساتھیوں ،مضامین کے ماہرین ،اپنے مضمون میں مہارت اور کمال رکھنے والے افراد سے گفتگو کو رواج دیں۔ باعلم اور باکمال افراد سے ملاقات کا کوئی موقع ضائع نہ کریں تاکہ علم میں اضافے کے ساتھ گہرائی و گیرائی پیدا ہواورموضوع کے گنجلک و پیچیدہ نکات کی تفہیمسہلہو جائے۔
(5)اپنے موضوع اور مضمون سے متعلق معلومات کو ضبط تحریرمیں لائیں، اخبارات ، ر سائل، جرائد اور میگزین میں چھپے موضوع سے متعلق معلومات کو کاٹ کر تراشوں کو محفوظ رکھیں۔ ۔اس ضمن میں روزنامے ،اخبارات کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہ معلومات کی فراہمی کا سب سے سستا ذریعہ بھی ہیں۔محفوظ کردہ تحریری نوٹس ، تراشوں کو دوران تدریس کمرۂ جماعت میں ایک وسیلہِ ، رسورس اور ریفرنس (حوالہ جاتی مواد) میٹریل کے طور پر استعمال کر یں۔
(6)معلومات کی ذخیرہ اندوزی ، مطالعہ کی وسعت ،جہاں موضوع و مضمون کے دانشورانہ تفہیم و تجزیہ کاذریعہبنتی ہے وہیں طلبہ کی استعداد ، ذہنی صلاحیتکے مطابق ذہانت کے فروغ،درس و تدریس کی تنظیم و ترتیب میں بھی یہ سرگرمی نہایت ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔
(7) درس و تدریس کے لئے اساتذہ مضمون و موضوع سے متعلق ا پنی معلومات کو جب ترتیب و تنظیم میں لے آتے ہیں تب تمام طلبہ، تعلیمی طور پر کمزور(سلو لرنر)،ذہین طلبہ(Gifted Students)،اور اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کی تدریس بھی موثر اور آسانی سے انجام دی جا سکتی ہے۔موضوع پر عبور اور کمال کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے موضوع کو آسان ، سہل اور معنی خیز بنا کر پیش کر تے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں دانشوری فروغ پانے لگتی ہے۔
(8)اپنے مضمون او رموضوع میں دلچسپی لینے سے اساتذہ میں بصیرت پیدا ہوجاتیہے جس کے وجہ سے وہ مدلل اور موثر گفتگو سے کام لینے لگتے ہیں۔استدلال اور بصیرت کی روشنی میں وہ موضوع و مضمون کی تدریس کے لئے اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو رواج دیتے ہیں۔طلبہ میں بحث و مباحث اور تجربہ و تجزیہ کی کیفیت کو پیدا کرنے میں بھی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
(9)اساتذہ اپنی پیشہ وارانہ اور مضمون کی معلومات میں تجدید اور اضافے کے لیئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں۔ اپنے مضمون میں نکھار پیدا کرنے والے اورینٹیشن پروگرام، ورکشاپس، نئے تعلیمی ،علمی و سائنسی رجحانات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ر ریفریشر کورسسز وغیرہ میں شرکت کریں تاکہ کمرۂ جماعت میں تدریس کو آسان اور مفید بنایا جاسکے۔
(10)پڑھائے جانے والے موضوعات کا وسیع او ر گہرا علم رکھتے ہوئے اساتذہ تمام طلبہمیں اکتساب کو یقینی طور پر پروان چڑھا سکتے ہیں۔ وسعت علم کے ذریعے طلبہ کے اکتساب کی جانچ منا سب انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ وسیع معلومات رکھنے کی وجہ سے بہتر اور موثر سوالات کرنے کے طریقوں سے واقف رہتے ہیں۔ اپنے تبحر علم کو بروئے کار لاتے ہوئے کمزور طلبہ کو آسان اور سہل انداز میں معلومات و حقائق کو خاکوں اور فلو چارٹس کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
(11)موضوع کے متعلق وسیع معلومات کی وجہ سے درس و تدریس میں جہاں سہولت پیدا ہوتی ہے وہیں موضوع و مضمون استاد کی یکتائی اور مہارت کمرۂ جماعت کے نظم و ضبط کو قابو میں رکھنا کا ایک اہم وسیلہ ہے۔استاد کا اپنے مضمون میں دسترس کی وجہ سے اختراعی طریقے ہائے تدریس اور تخلیقی تدریس کو جگہ دیتے ہوئے علمی نظریات کو استحکام اور پائیداری فراہم کرتاہے۔
ہمیشہ استاد کا مضمون پر عبورا ور دسترس طلبہ کے ذہنوں پر خوش گوار اثرات کا موجب ہوتا ہے۔ مضمون پر کمال اور عبور استاد کی عظمت و عزت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔طلبہ مضمون میں دلچسپی لینے لگتے ہیں ۔صحت مند اکتساب و تعلیمی ماحول کے لئے استاذ کا اپنے مضمون اور موضوع پر مکمل عبور اور دستر س ضروری ہے۔(جاری ہے)