می ٹو: بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

نانا پاٹیکر کے خلاف سابق اداکارہ تنوشری دتا کے ذریعہ جنسی ہراسانی کا الزام عائد کئے جانے کے بعد جنسی ہراسانی کے خلاف ہندوستان میں شروع ہونے والی خواتین کی مہم’’می ٹو‘‘(مَیں بھی جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہوں) میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ ٹیلی ویژن پر کام کرنے والی کئی معروف خواتین اور صحافیوں نے اپنے تلخ تجربوں کا ذکر کیا ہے اور ذہنی اذیت دینے کی بات کھل کر بتائی ہیں۔ ایسے میں نت نئی نیز اہم شخصیات کے ناموں کے انکشافات کے سبب ہلچل بڑھتی جا رہی ہے۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میں خواتین اِس ٹرینڈ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کرچکی ہیں۔ اِن الزامات میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے اِس کا اندازہ تو اُسی وقت ممکن ہے جب الزامات کی گہرائی سے تفتیش ہوگی۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں جاری ہیش ٹیگ می ٹو مہم کے ذریعہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے نامناسب واقعات کو بیان کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ مہم گزشتہ برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب ہالی ووڈ کی متعدد خواتین نے مشہور پروڈیوسر اور فلمساز ہاروی وائنسٹن پر جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ دی نیویارکر میگزین کے مطابق ہاروی پر تیرہ سے زیادہ خواتین نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ اُن میں گوے نیتھ پالٹرو اور اینجیلینا جالی جیسی اہم ایکٹرس بھی شامل تھیں۔ جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد وائنسٹن کی برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس (بافٹا) اور آسکر کی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔جس کے بعد امریکہ کی فلمی اور ٹی وی صنعت میں کئی معروف شخصیتوں کے خلاف بھی ایسے الزامات سامنے آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر می ٹو کا ہیش ٹیگ سب سے پہلے امریکی سماجی کارکن ترانا برکے نے استعمال کیا اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف اٹھنے والے شور میں اداکارہ الیسا میلانو نے اِسے مقبول بنایا۔ دسمبر۰۱۷ ۲ء میں ٹائم میگزین نے اِن دونوں خاتون کو ٹائمز پرسن آف دی ائیر کیلئے منتخب کرتے ہوئے میگزین کے کور پیج پر تصویر لگا کر’’دی سائلنس بریکر‘‘ سرخی لگائی تھی۔ اداکارہ پوجا بھٹ کا کہنا ہے کہ خود بالی ووڈ میں کئی ہاروی وائنسٹن ہیں لیکن لوگ آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔
اب ہندوستان میں می ٹو مہم کس طرح مقبول ہوئی یہ سمجھنا ضروری ہے۔ کچھ عرصہ قبل سابق رکن پارلیمان اور کانگریس لیڈر رینوکا چودھری نے کہا تھا کہ عورتوں کا جنسی استحصال صرف فلم انڈسٹری تک ہی محدود نہیں ہے اور چاہے پارلیمان ہو یا کوئی اور جگہ یہ مسئلہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ دراصل رینوکا چودھری بالی ووڈ کی مشہور کوریوگرافر سروج خان کے اُس بیان پر اپنی آراء کا اظہار کر رہی تھیں کہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ مردوں کی ہوس کا شکار بننا یا نہ بننا عورتوں کے ہاتھوں میں بھی ہے۔ تم اُس کے ہاتھ میں نہیں آنا چاہتی ہو تو نہیں آؤگی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر تمہارے اندر ہنر ہے تو تم خود کو کیوں فروخت کروگی۔ تیلگو فلمی صنعت میں کاسٹنگ کاؤچ کے خلاف برہنہ ہونے والی اداکارہ شری ریڈی پر ایک صحافی کے سوال کے جواب میں سروج خان نے یہ رد عمل دیا تھا۔ حالانکہ اُس بیان پر تنازعہ ہونے کے بعد سروج خان نے معافی مانگی تھی۔
اُسی بحث کے دوران سروج خان نے ایک اور بات کہی تھی جس پر غور کرنا ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ بابا آدم کے زمانے سے یہ چلتا رہا ہے۔ ہر دوشیزہ کے اوپر کوئی نہ کوئی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تم فلم انڈسٹری کے پیچھے کیوں پڑے ہو، وہ کم سے کم روٹی تو دیتی ہے ریپ کر کے چھوڑ تو نہیں دیتی۔ اُسی دوران معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے فرزند ہدایتکار فرحان اختر نے کہا تھا کہ حالات اُس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک عورتیں آواز نہیں اٹھاتیں۔ وہ کھل کر سامنے آئیں گی، اپنے تلخ تجربات بتائیں گی تو لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوگا۔ جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کو پوری قوت سے اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں پر بات کرنی ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مجرم سے زیادہ شرمندہ متاثرہ شخص کو ہونا پڑتا ہے۔
دوردرشن پر۰ ۹/کی دہائی میں آنے والے مشہور سیریل ’تارا‘کی مصنفہ اور تخلیق کار ونیتا نندا نے اداکار آلوک ناتھ پر تقریباً دو دہائی قبل آبروریزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جنہوں نے بالی ووڈ کی متعدد فلموں میں بابوجی کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ آلوک ناتھ پردے پر اپنی سنسکاری یعنی مہذب شبیہ کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ونیتا نندا نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا ہے کہ مَیں نے اِس لمحہ کے آنے کا ۱۹/سال انتظار کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ فلم اورٹی وی دنیا میں وہ سب سے سنسکاری شخص قرار دیئے جاتے ہیں۔ ونیتا نندا کی پوسٹ میں سنسکاری، اہم اداکار اور اس دہائی کا اسٹار جیسے الفاظ کا استعمال کیا جانا صاف طور سے اداکار آلوک ناتھ کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ اب بابوجی کو لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ اُنہوں نے فوراً صفائی دی۔ ابتدا میں می ٹو کا ہندوستان میں کوئی اثر نہیں ہوا تھا لیکن رفتہ رفتہ اِس مہم نے تیزی پکڑی ہے۔ ابھی یہ سامنے آنا باقی ہے کہ اِس کے اثرات کہاں تک جاتے ہیں اور کس کس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ٹائمس آف انڈیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور ڈی این اے کے بانی مدیر رہ چکے گوتم ادھیکاری پر بھی کئی خاتون صحافیوں نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ حال میں ادھیکاری سینٹر فار امریکن پروگریس میں سینئر فیلو تھے۔ الزامات کے بعد اُنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جنسی استحصال کا الزام لگنے کے بعد ہندوستان ٹائمس کے پالیٹیکل ایڈیٹر اور بیورو چیف پرشانت جھا نے بھی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ صحافی سندھیا مینن نے دو مدیروں پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا اور کئی دوسرے لوگوں کی روداد بھی بیان کی جنہوں نے اپنی تکلیف اُنہیں بتائی تھی۔ وویک اگنی ہوتری، اداکار رجت کپور، فلمساز اور شومین سبھاش گھئی کے علاوہ مکالمہ نویس پیوش مشرا، سدھارتھ کپور، گنیش آچاریہ، پروڈیوسر کریم مورانی، سبھاش کپور، ساجد خان کو بھی اِس میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ گلوکار کیلاش کھیر، رگھو دکشت، کامیڈین اُتسو چکرورتی، معروف بزنس مین سہیل سیٹھ اور خاتون اسٹینڈ اپ کامیڈین ادیتی متل، سری لنکن کرکٹر لستھ ملنگا، پرتگالی فٹ بال کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو سمیت کئی اہم نام می ٹو مہم کی زد میں آگئے ہیں۔ یہ فہرست یہیں تمام نہیں ہوتی بلکہ جنسی ہراسانی سے جڑے بڑے ناموں کے انکشاف کا سلسلہ جاری ہے۔
اِسی درمیان بالی وڈ اداکار ریتک روشن نے اپنی آنے والی فلم سپر تھرٹی کے ہدایتکار وکاس بہل پر ہراسانی کے الزام کی وجہ سے فلم چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُنہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میرے لئے نا ممکن سی بات ہے کہ مَیں ایسے شخص کے ساتھ کام کروں جو کسی طرح کی بد اخلاقی میں ملوث ہو، مَیں وکاس بہل سے درخواست کرچکا ہوں کہ وہ اِس معاملے پر حقیقت سامنے لائیں۔ ریتک نے یہ بھی لکھا کہ یہ معاملہ رفع دفع نہیں ہونا چاہئے بلکہ ذمہ داروں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ ریتک روشن کے جرأت مندانہ فیصلہ کی تائید کرتے ہوئے بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے گلشن کمار کی زندگی پر بننے والی فلم مغل کے ڈائریکٹر سبھاش کپور پر جنسی زیادتی کے الزام کا انکشاف ہونے کے بعد خود کو فلم سے علاحدہ کر لیا ہے۔ عامر اِس فلم سے بطور پروڈیوسر وابستہ تھے۔ ٹویٹ کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ اعلان کیا کہ عامر خان پروڈکشن میں ہمیشہ جنسی استحصال کے تئیں زیرو ٹولرینس پالیسی اپنائی جاتی ہے۔
ویسے ہندوستان میں می ٹو مہم کی شروعات ممبئی سے ہی ہوئی۔ جہاں تک بالی ووڈ کا تعلق ہے وہ بالکل الگ دنیا ہے جہاں مذہب، اخلاقیات، روایتی اقدار، شرافت، عورتوں کا احترام وغیرہ جیسی باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بالی ووڈ میں نئے فنکاروں کے جنسی استحصال کی باتیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ اِس لئے اگر فلمی دنیا کے بارے میں کوئی انکشاف ہوتا ہے تو اِس پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ لوگ جانتے ہیں کہ ’اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں۔‘ فی الوقت جو فلمی اداکارائیں اور دیگر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی الگ الگ صورتوں کے بارے میں می ٹو مہم کے تحت دردِ دل بیان کر رہی ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ عزت دار جگہوں پر ہونا اور تعلیم یافتہ نظر آنا کسی مرد کے مہذب ہونے کی ضمانت نہیں ہے۔
یہ مہم سینما، سیاست اور صحافت کے گلیاروں سے ہوتی ہوئی کھیل کے میدان تک پہنچ گئی ہے۔ ارجن ایوارڈ فاتح ہندوستانی بیڈ منٹن کھلاڑی جوالا گٹا نے ہمیشہ ہی عوامی طور پر اپنی بات کو بے خوف ہو کر سامنے رکھا ہے اور اب انہوں نے سلیکشن کے عمل پر ذہنی دباؤ کی بات کہی ہے۔ جبکہ اولمپک اور عالمی چمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے والی بیڈ منٹن اسٹار پی وی سندھو نے ہیش ٹیگ می ٹو مہم کی بحث سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایسے متعدد معاملات روشنی میں آتے رہتے ہیں اور یہ صرف بالی ووڈ تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاست، صحافت، کھیل، کارپورٹ سے لے کر دفاتر تک اور ملازمت کے حصول سے لے کر پرموشن تک عموماً ہم ہر طرح کی سودے بازی یا مفاہمت دیکھتے ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی یہ صورتحال افسوسناک ہی نہیں انتہائی شرمناک بھی ہے۔
ملک میں اب تک اِس قسم کے جتنے بھی معاملے سامنے آئے ہیں اُن میں سب سے سنگین معاملہ ایم جے اکبر کا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور سابق قدآور صحافی ایم جے اکبر پر ایک دو نہیں بلکہ اب تک تقریباً نو خواتین صحافی جنسی استحصال کا الزام لگا چکی ہیں۔ ایم جے اکبر پر پریہ رمانی سے لے کر غزالہ وہاب اور صبا نقوی جیسی معروف خاتون صحافیوں نے جو الزامات عائد کئے ہیں اُنہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ حیرت اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اور ویمن امپاورمینٹ کا نعرہ لگانے والی نیز خواتین سے انتہائی درجہ کی ہمدردی رکھنے والی موجودہ حکومت اِس موضوع پر بالکل خاموش ہے۔ ہر چند کہ یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ یہ خواتین اُس وقت کیوں خاموش رہیں جب اُن کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھیں؟ حالانکہ وہ خود صحافی تھیں اور بے باک صحافی تھیں۔ بڑے انتظار کے بعد ایم جے اکبر نے افریقہ دورے سے وطن لوٹتے ہی اپنی رہائش گاہ سے اِس موضوع پر ایک بیان جاری کیا۔ اُنہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے پر اُس میں زہر ضرور ہوتا ہے جو بے بنیاد طوفان کھڑا کر سکتا ہے۔ موصوف کے بیان میں کتنی سچائی ہے یہ تفتیش کا موضوع ہے۔ لیکن خاتون صحافیوں کے نہایت ہی سنگین الزامات کے سامنے اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ حکومت ہند کو بھی وضاحت کرنی چاہئے کیونکہ خاموشی کا مطلب یہی نکالا جائے گا کہ الزامات میں صداقت ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سزا کی پرانی تعریف اب بدل رہی ہے۔ خواتین ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں اور اِسی لئے وہ کھل کر بول رہی ہیں۔ می ٹو مہم کو لے کر ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے کہا ہے کہ جنسی استحصال کے مجرم پائے گئے کسی بھی شخص کو قانون کے حساب سے سزا دی جانی چاہئے۔ ملک میں پریس کی آزادی کیلئے غیر جانبدار، انصاف پسند اور محفوظ ماحول کام کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ایڈیٹرس گلڈ کے اِس بیان سے ہم پوری طرح متفق ہیں مگر ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ جنسی زیادتی کے موضوع پر صرف اُسی وقت بات نہ کریں جب یہ ٹرینڈ کر رہا ہو بلکہ اِس مسئلے پر ایک مسلسل اور سنجیدہ بحث ہونی چاہئے۔
جن لوگوں پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اُن کے خلاف کارروائی بھی ہو رہی ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے معافی بھی مانگی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ظلم کے خلاف کبھی بھی آواز بلند نہیں کی جا سکتی ہے لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر جن لوگوں پر دس یا بیس سال بعد جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اُن کی سچائی کا پتہ اب کیسے چلے گا؟ ایسا بھی ممکن ہے کہ اُس وقت خواتین کی کوئی مجبوری رہی ہو، اِس لئے وہ اب پردہ فاش کر رہی ہیں؟ مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اِس لئے لازمی ہے کہ جو خواتین ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنسی ہراسانی کا الزام عائد کر رہی ہیں اُن کے معاملوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قصوروار پائے جانے پر مجرم مرد کو سخت سزا دی جائے اور اگر معاملہ خاتون کے خلاف نکلتا ہے تو وہ بھی سزا کی مستحق ہے۔
(مصنف ممبئی،اِنڈیا میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صَحافی ہیں)

حصہ

5 تبصرے

جواب چھوڑ دیں