اللہ تعالی نے جب انسان کو تخلیق کیا تو نوری مخلوق سے سجدہ کروا کے بہترین مخلوق ہونے کا اعزاز بخشا۔ سیدنا آدم علیہ السلام جب اس دنیا میں تشریف لائے، بابا آدم اور اماں حوا علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کا سلسلہ آگے بڑھا تو پہچان کا معاملہ شدت اختیار کر گیا کہ کون کس کی اولاد ہے؟ اس لیے مختلف قبائل وجود پا گئے تاکہ ایک دوسرے کی پہچان میں کوئی دشواری نہ ہو ۔ لیکن
قدیم زمانے سے انسانوں نے انسانیت کو چھوڑ کر اپنے اردگرد دائرے کھینچے ہیں جن میں ان کے اندر بسنے والوں کو اپنا جبکہ باہر والوں کو بیگانہ سمجھا گیا ہے۔ یہ دائرے اخلاقی یا عقلی اعتبار سے نہیں بلکہ نسلی اعتبار سے کھینچے گئے ہیں۔ مثلاً ایک خاندان میں پیدا ہونا، کسی خاص خطے میں پیدا ہونا، کسی خاص رنگ یا نسل سے تعلق رکھنا وغیرہ۔ اگر تو ان دائروں کے اندر بسنے والوں سے ہمدری یا محبت ہوتی تو کچھ برا نہ تھا لیکن باہر والے دیگر لوگوں کو حقیر جاننا، ان کی توہین کرنا یہ ظلم ہے۔ ذات پات کا نظام تو اس لیے بنایا گیا کہ پہچان بن سکے لیکن عوام الناس نے اس نظریے کو بالکل بدل کر اعلی و ارفع خاندان اور ادنیٰ خاندان میں اسکی تقسیم کردی۔ اگر دوسرے مذاہب میں یہ تصورات پائے جاتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ یہ ان کے باطل نظریات کا قصور ہے لیکن اگر وہی تصورات مسلمانوں میں پائے جائیں تو یہ کس کا قصور ہے؟ جبکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :یآیھا الناس ألا ان ربکم واحد، وان أباکم واحد، ألا لا فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولا أحمر علی أسود، ولا أسود علی أحمر، الا بالتقوی۔
لوگو تمہارا رب ایک ہے، تمھارا باپ(آدم) ایک ہے۔ سنو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے، نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ کوئی گورا کسی کالے سے بہتر ہے، فضیلت صرف اور صرف تقوی کے سبب ہے۔
اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات پر اگر کوئی عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ کسی اور کو اپنے سے کم تر نہیں سمجھے گا۔ جبکہ آج کے دور میں اسلامی تعلیمات اور موجودہ رائج نظام بالکل ایک دوسرے کے برعکس مناظر پیش کرتے ہیں۔
لیکن حیرت ہے ان مسلمانوں پر جو دین اسلام کی تعلیمات کو جاننے کے بعد بھی نسلی تفاخر میں مبتلا ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر شادی بیاہ کا معاملہ آ جائے تو ایک ضد بن جاتی ہے کہ خاندان سے، ذات سے، قبیلے سے باہر شادی نہیں کرنی۔ لوگ کیا کہیں گے۔ قبائلی انانیت کی وجہ سے ایسے ایسے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو کہ انسانیت میں نفرت پھیلانے کا باعث بنتے ہیں ذات اور قبائل کا نظام اس لیے بنایا گیا تاکہ پہچان قائم ہوسکے لیکن اس کا غلط استعمال کر کے نسلی تفاوت کو اختیار کر کے جو قبائل کے مابین لکیر کھینچی گئی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ ذات کی، خاندان کی بنیاد پر غرور و تکبر کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ چونکہ کسی انسان کا کسی خاندان میں ، کسی قبیلے میں پیدا ہونا انسان کے اختیار میں نہیں تو کیوں ہم اس فطری عمل میں مداخلت کرکے اللہ کے غضب کو دیں۔ ذاتوں کا موازنہ دین سے دوری کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ برصغیر میں ایک ایسی الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں رہ کر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاسکے۔ ان تعلیمات میں ذات پات اور قبائلی نظام قابل ذکر ہے کہ جب مکہ کے لوگ مسلمان ہوتے گئے اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انکا آپس میں ایسا رشتہ قائم ہوگیا جس میں حسب و نسب کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا صرف اور صرف کلمۂ توحید کو بنیاد بنا کر اخوت اور بھائی چارہ کی مثال جو مدینہ منورہ میں ملی اسکی نظیر اور کہیں نہیں ملتی ۔ لہذا رشتہ داری قائم کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ دوسروں کی اسلام اور نبی مکرم رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ وابستگی کتنی ہے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:ان اکرمکم عند اللہ اتقکم۔ یعنی اللہ کے نزدیک عزت والا بندہ وہ ہے جو تقوی والا ہے۔
اب ہم نے الگ ریاست حاصل کر لی ہے اور اگر ہم ابھی بھی جاہلیت کی رسموں کو اپنائیں اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیں تو مدینہ ثانی حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہوا ؟
اس سلسلے میں اسلامی نظام معاشرت میں کفو کا حکم دیا گیا ہے جس سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ کچھ قبائل شریف اور کچھ رذیل ہوتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط ہے۔ دین اسلام میں اگر ایک مسلمان عورت کا نکاح مسلمان مرد کے ساتھ ان احکام کی بنا پر کر دیا جائے جو شریعت نے لاگو کیے ہیں تو کوئی قباحت نہیں۔ البتہ میاں بیوی میں تعلیم، عمر، شکل و شباہت دیکھنا لازم ہے۔ یعنی اگر ایک فرد پڑھا لکھا ہے اور اسکا نکاح کسی ایسے سے کیا جائے جو بالکل تعلیم سے ناواقف ہے، یہ ظلم اور نا انصافی ہے۔ لہذا ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے بصورتِ دیگر زوجین کا نبھا مشکل ہو سکتا ہے۔
قارئین کرام! اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام نے نا صرف فطری تقاضوں کی تکمیل کی ہے بلکہ غیر فطری عناصر کا بھی سدباب کیا ہے۔ نسلی و قومی امتیاز کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ کسی کو بھی اپنی ذات کو،خاندان کو، نسل کودوسری نسل سے فوقیت نہیں دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرے اور ایسا اخوت کا رشتہ قائم کرے جیسا مدینۃ الرسول میں قائم ہوا تھا۔آمین