ترکستان کی سیاہ رات ۔۔7

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

(۷)

اس کے علی الرغم کہ ہمارا چھوٹا سا ملک چین اور روس کی عظیم الشان ریاستوں کے سامنے دم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا، بدیہی طور پر یہ سوال موجود ہے کہ کیا چھوٹا ملک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنے دروازے جنگجوؤں کے لئے کھول دیں، اور اﷲ کی عنایت کردہ قیمتی اشیاء کو پامال ہونے دیں؟ تاکہ جنگ جاری رہے .. مہینہ بھر .. دو مہینے .. سال بھر ..اور جب تک اﷲ کی مشیت چاہے جنگ کا بگل بجتا رہے اور کیا ہمارا مقدر یہ ہے کہ ہم تمام عمر لڑتے رہیں اور اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہیں، خوجہ نیاز نے گردوپیش کا جائزہ لیا اور بولے:
’’جنگ نے سب کچھ برباد کر ڈالا ہے ‘‘
فولاد صفت جنرال شریف یوں بولے جیسے اﷲ نے انہیں لڑنے ہی کے لئے پیدا کیا ہو:
’’اہم یہ ہے کہ جنگ ہمارا اﷲ پر ایمان اور اپنی ذات پر بھروسہ قائم رکھے ‘‘
’’ہر طرف بھوک اگ رہی ہے .. ‘‘
’’آقا اس کی بھاری قیمت تو چکانی پڑے گی‘‘
’’اضطراب ہر جگہ اپنا رنگ دکھا رہا ہے‘‘
’’پھر ہمیں کیا کرنا ہو گا؟؟‘‘
جنرال شریف ان کی جانب جھک کر بولے:
’’میں کچھ سوچ رہا ہوں .. ہم اورومجی میں داخل ہو جائیں، اور اس اضطراب کی فضا سے بھڑ جائیں .. ‘‘
’’ہمیں یہی کرنا چاہیے .. ‘‘
’’یا تو ہم مر جائیں گے یا پھر اورومجی اور پورے ایلی پر ہمارا پھریرا لہرا رہا ہو گا‘‘
ان دنوں جین شورین اور روس کے درمیان کئی معاہدے ہو رہے تھا تاکہ مشترکہ حکمتِ عملی اپنا کر مسلمانوں کو کچلا جائے، اور بعض معاملات میں روس کو جین شورین پر اعتماد نہیں تھا. اسی لئے وہ تیزی سے آگے بڑھے، اور چینی قائدِ لشکر ’’شین سی تسائی‘‘ کے انقلاب کے عمل میں شریک ہو گئے، جو کٹرکیمونسٹ تھا، اور وہ اس جدوجہد میں کامران ٹھہرے۔ جین شورین شکست کا سامنا نہ کر سکا اور چین بھاگ گیا، یوں شین سی تسائی اور اسکے ساتھی بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹنے لگے، وہ مصلحت اور اصول کو پسِ پشت ڈال کراس کے حلیف بن گئے، شین سی تسائی اور روس کے مابین نیا پیمان طے پایا، جس کے تحت کیمونسٹ چینی قائد نے ترکستان سے خام مال روس بھیجنے کا وعدہ کر لیا، لوگوں اور اسلحے کا حصار توڑ دیا گیا، اور نئی جمھوریہ کی بنیاد پڑ گئی، اور دسمبر ۱۹۳۳ء میں اور تین روسی بٹالین جو تیس ہوائی جہازوں، اور بیس ٹینکوں اور پچاس بکتر بند گاڑیوں پر مشتمل تھی ایلی اور تشوشک پر اپنے جھنڈے گاڑ چکی تھی، بڑی بری خبریں آرہی تھی، لوگ دم سادھے ہوئے تھے، روس کے بڑھتے ہوئے تسلط کو اچانک روک دینا ہمارے بس میں نہ تھا، خوجہ نیاز بولے:
’’کل ہم لڑ رہے تھے‘‘
انکی مراد سمجھتے ہوئے جنرال شریف بولے:
’’اور آج .. ‘‘
’’ہماری جنگ محض خطرات سے کھیلنا ہے‘‘
پھر وہ جنرال کی طرف متوجہ ہو کر بولے:
’’اور اے جنرال دوست اس سب کے باوجود کیا جنگ کا متبادل ہے ہمارے پاس؟؟ ‘‘
’’میں سیاست نام کی چڑیا سے واقف نہیں، میں نے تجربے سے سیکھا ہے کہ ہمارا ایک ہی معروف طریقہ ہے، اور دشمن نے ہمارے موقف کو اسکے سوا تسلیم نہیں کیا الا کہ ہم نے میدانِ جنگ میں اسے ناکوں چنے چبوا دیے .. ‘‘
خوجہ نیاز ان روسی طیاروں کو دیکھتے ہوئے بولے جو جنگجوؤں کی کھیپ لا رہے تھے:
’’پھر آخری جانثار تک لڑنے کے لئے تیار رہو .. ‘‘
اس دوران، روس نے عسکری، تجارتی اور سیاسی طالع آزما بھیجنا شروع کر دیے، اور ’’مالینکوف‘‘ جسے بعد ازاں حکومت اتحاد سوفیتی کا صدر بنایا گیا ، وہ نئے چینی حاکم شین سی تسائی کے دو اہم مشیروں میں سے ایک تھا. مالینکوف بہت مکار اور خبیث تھا، اور اسے اتنی اہمیت حاصل تھی کہ اسکے پلان اور مشورے نظر انداز نہ کئے جاتے وہ حاکمِ چین سے ملا اور کہنے لگا:
’’میرے ذہن میں معرکے کا ایک اور پلان ہے، اگر ہم اسکا تجربہ کریں تو کایا پلٹ سکتی ہے ‘‘
’’کیسے؟؟‘‘
’’شرقی ترکستان کے کئی طلبا کی روس میں تربیت ہوئی ہے جنہیں کیمونزم کے اصول راسخ کرائے گئے ہیں، وہ وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھے ہیں، ہمیں ان پر کامل بھروسہ ہے، اور ان سے تعاون حاصل کرنا ممکن بھی ہے، ہم انہیں اداروں کے سربراہ بنائیں گے، اور حاکم کے لشکر میں نمایاں عہدے دیں گے .. پھر میدان گرم ہو گا اور جنگ ایک ہی خمیر سے اٹھے دو محارب گروہوں میں ہو گی یعنی خوجہ نیاز اور اسکے لشکر ، اور جدیدیت کی علامت ھاشم حاجی اور سید حاجی وغیرہ کے درمیان .. ‘‘
شین اس منصوبے پر کھل اٹھا، اسی وقت کیمونسٹ رفقاء سے مشورہ کیا گیا جو ترکستانی الاصل تھے، اور السید حاجی کو خفیہ ادارے کی سربراہی سونپی گئی، جو جرمن خفیہ ادارے گسٹاپو کی طرز پر قائم کیا گیا تھا، جو ہم وطنوں سے انتقام کی بدترین مثال تھا اور ان سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کے لئے گھناؤنے تشدد کا مرکز .. اس خفیہ ادارے کی شاخیں مختلف علاقوں میں قائم کر کے سیٹ اپ مکمل کر دیا گیا ..
ہم اﷲ کا نام لیکر اپنی قوت آزمانے لگے، جنگ اتنی خون آشام تھی کہ الفاظ اسکی تعبیر سے قاصرتھے، جنگ صرف گولیوں، آگ برساتے جنگی جہازوں، ٹینکوں،اور بکتر بند گاڑیوں تک ہی محدود نہ رہی جو ہمارے شہداء کی فصل کاٹ رہی تھی، بلکہ ایک اور نہایت گھٹیا جنگ کا آغاز ہو چکا تھا، جس میں کیمونسٹ بہت مہارت سے اپنا کردار ادا کر رہے تھے، جب کیمونسٹوں نے خفیہ اداروں میں کاروائی شروع کی ہم نے اورومجی سے نکلنا شروع کر دیا، وہاں عجیب و غریب داستانیں گردش میں تھیں، انھوں نے میرے دوست منصور درغا کو قابو کر لیا، وہ نہ جانے کیسے انکی قید سے فرار ہوا، وہ خفیہ ادارے کی عمارت ’’ج . ب . أو ‘‘کے پر ہول قصے بیان کرتا جہاں اسے رکھا گیا تھا .. منصور نے وہاں جو کچھ دیکھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا .. منصور دھاڑیں مار کر رونے لگا:
’’میں کوہستانی آدمی ہوں مجھے جنگ کے بارے میں زیادہ علم نہیں، اور نہ ہی کاغذ قلم سے شناسائی رہی ہے، حملہ آوروں نے میری بکریاں اور جانور چھین لئے اور مجھے چھوڑ گئے، پھر تم مجھے مل گئے .. میں اس سے بری ہوں، مجھے نہیں معلوم جنگ کیا ہوتی ہے‘‘
ٹارچر سیل کسی جہنم سے کم نہیں اور خفیہ کا سربراہ السید حاجی تمام احکامات خود صادر کرتا ہے اور انکی نگرانی بھی کرتا ہے. وہ بکتا رہتا ہے:
’’اے خائن سپاہیو، تم رجعت پسند غدار خوجہ نیاز کی صفوں میں کیسے لڑتے رہے .. تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کس طرح تمہارے اموال غبن کئے، اور لاکھوں کے گھپلے کئے؟؟ تمہیں کیا خبر کہ وہ تمہیں دھوکہ دے کر کیا تجارتیں کر رہا ہے، اسکے پاس مال و دولت کے انبار ہیں اور عورتیں اور سونا؟؟ ذرا دیکھو اسکے کارنامے .. ‘‘
وہ انکے سامنے بعض جھوٹی خبریں پیش کرتے، اور خود ساختہ اعداد، اور مہارت سے بنائی گئی تصویریں، جو انکا تأثر بگاڑ دیتیں، ایسے ہی الزامات اور انکے ثبوت جنرال شریف خان اور دوسری اعلی قیادت کے بارے میں پیش کئے جاتے، اور السید حاجی کی ان مذموم کوششوں سے ان اصحاب کی روحانی حیثیت اور پیشوائی کو چکنا چور کرنے کے بعد تعذیب کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا .. دوزخی آلات حرکت میں آ جاتے نت نئے طریقے آزمائے جاتے، شکنجے میں پھنسے ہوئے مسکین چلاتے، آہیں بھرتے یا چپ چاپ موت کو گلے لگا لیتے۔ ہلکے پھلکے اعترافات بھی بے گناہوں کو قہر میں مبتلا کر دیتے، انکے اعترافات کو جلی حروف میں بد نام چینی مدیر ’’وان باؤ‘‘ اپنے جریدے ’’سینکیانگ‘‘ میں شائع کرتا، اس نے اپنے اخبار کا ایک مستقل کالم خائنوں کے لئے وقف کر رکھا تھا، جسے گسٹاپو کے تلامذہ مرتب کرتے اور اپنے ترکستانی ناموں سے دستخط کرتے، جنگ مشکل مرحلے میں داخل ہو گئی، اسکے دائرے پھیلتے چلے گئے اور جنگجو موت تک لڑنے کے پیمان پر قائم رہے ..
اور پھر وہ دن آن پہنچا جس کو میں تمام عمر نہیں بھلا سکتا .. کاش میں یہ دن دیکھنے کو زندہ نہ رہتا، جولائی ۱۹۳۴ء میں، وہ معرکہ برپا ہوا جس میں روس اور چین کے شانہ بشانہ خائن مارکسی عملاً بھی شریک ہوئے، وہ ہر علاقے میں در آئے، یہ معرکہ بڑا ظالمانہ تھا .. خوجہ نیاز اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے:
’’بھائیو ہمارے سامنے شہادت کے سوا کچھ نہیں .. ‘‘
جنرال شریف پوری طرح معرکے میں منہمک تھے، انکے چہرے پر تناؤ تھا۔ ہوائی جہازوں کی گھن گرج اور آگ اگلتے ٹینک انکی پریشانی میں اضافہ کر رہے تھے، شہداء کے لاشے بے گورو کفن شاہراہوں پر پڑے تھے، فضا میں خون کی بساند تھی، شریف خان آہ بھر کر بولے:
’’ایسا لگتا ہے اس راؤنڈ میں ہمارے حصے میں خسارہ ہی ہے .. ‘‘
خوجہ نیاز کہنے لگے:
’’ضروری ہے کہ ہم دوسرے مرحلے میں جنگ کے لئے اسوقت معرکے سے نکل جائیں .. ‘‘
دشمن کی جمعیت بڑھتی چلی گئی، ہم عددی پیمانے پر غیر متناسب جنگ کے ان پر ہول مناظر میں غیر منظم پسپائی پر مجبور ہو گئے، میں بھاگتا ہوا ایک پتھریلے ٹیلے پر چڑھنے لگا، مجھے محسوس ہی نہ ہوا کہ کتنے کانٹے میرے پیروں اور ہاتھوں میں پیوست ہو چکے تھے، میں ایک اونچے پتھر پر چڑھ گیا اور سانس درست کرنے لگا، میں نے دور تک دیکھا .. یا الہی خوجہ نیاز، جنرال شریف وغیرہ گرفتار ہو چکے تھے، اور انہیں خفیہ کے مرکز (ج. ب. أو) میں دھکیلا جا رہا تھا ۔۔اب تو محض آرزوئیں زندہ تھیں .. گرد و پیش میں ہر چیز مر رہی تھی .. محبت .. امید .. کامرانی .. جیسا کہ کل نجمۃ اللیل میرے دل میں دفن ہو گئی تھی … جدو جہد دم توڑ چکی تھی اور محض اسکی یادیں ہی باقی بچی تھیں .. منصور درغا کی طرح جو نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا، اپنی یادیں چھوڑ کر اور اب مجھے اسکی کچھ خبر نہ تھی .. مجھے اپنے ان ترکستانیوں کا غم کھائے جارہا تھا جو بچپن سے کیمونزم کے سائے میں پروان چڑھے، اور ان غاصبوں کے ہمراہ آکر ظلم، قساوت اور عبودیت اور تمسخر کا بازار گرم کر دیا .. اور اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ مناظر وہ تھے جب میں انہیں اپنے ہی بھائیوں کو برہنہ جسم گھسیٹتے ہو ئے دیکھتا، انکی آنکھیں تمسخر اڑاتیں، وہ آوازے کستے، وہ انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح گھسیٹتے .. اور ان سے جانوروں کا سا سلوک کرتے ..
ایک طویل زمانے تک کسی کو معلوم نہ تھا کہ خوجہ نیاز اور جنرال شریف کے ساتھ کیا بیتا، انہیں اور کئی دوسرے رہنماؤں کو نامعلوم مقام پر رکھا گیا .. ایسی سرزمین پر جسکے بارے میں کسی کو خبر نہیں .. ٹارچر سیل میں خوجہ نیاز کے کپڑے تار تار تھے، اور چہرہ زخم زخم .. پہلو میں جنرال شریف کھڑے تھے، اور سخت تفتیشی مراحل سے گزر رہے تھے،ان پر مقدمہ چل رہا تھا، جس کی نگرانی کے لئے روس سے ’’مالینکوف‘‘، ’’فیڈین‘‘، ’’زخاروف‘‘، اور ’’ایفانوف‘‘ اور ڈاکٹر ’’جورافلیوف‘‘ خاص طور پر بلائے گئے اور چینی حاکم براہ راست اس کاروائی میں شریک ہوا اور ’’جان مین فان‘‘ اور مجلہ ’’سینکیانگ‘‘ کا مدیر تحریر ’’وان باوشین‘‘ اور ’’فان بایفان‘‘ بھی شریک ہوا، جو بعد میں خوتن کے علاقے کا حاکم بنا ..
خوجہ نیاز عاجزی سے کھڑے تھے انکی آنکھیں سرخ تھیں، اور خفیہ کا سربراہ السید حاجی ان پر چلا رہا تھا:
’’کیا میں تمہاری خیانتوں کی داستان سناؤں؟؟‘‘
خوجہ نیاز ہنسے اور نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا، جن سے لہو ٹپکنے کو تھا:
’’اور تم؟؟‘‘
’’میں کیا؟؟‘‘
’’اے سید حاجی .. خائن میں ہوں یا تو؟؟‘‘
اور ٹارچر سیل کے افسر نے جمہوریہ کے حاکم کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا، خوجہ نیاز نے اپنے ہتھکڑی لگے ہاتھوں کو نا امیدی اور ساخرانہ انداز سے جھٹکا اور بولے:
’’تم اپنے ناک کی مکھی بھی اپنی مرضی سے نہیں اڑا سکتے .. ‘‘
’’حقیقت کی زبان میں بات کرو .. ‘‘
خوجہ نیاز ہنس دیے:
’’حقیقت واضح ہے .. جن لوگوں نے اپنی آزادی اور شرف کی جنگ لڑی وہ زنجیروں میں ہیں اور خائن اور نجس لوگ معاملات چلا رہے ہیں، کوڑا تھام کر .. اور بڑے قید خانے کی چابیاں ہاتھ میں لیکر .. اور ایک دوسری حقیقت جس سے میں اچھی طرح باخبر ہوں یہ کہ مجھے عنقریب مار دیا جائے گا .. میں تھوکتا ہوں تم پر .. ‘‘
السید حاجی نے انھیں آتشیں نظروں سے گھورا اور چیخا:
’’تم کتے کی موت مرو گے اور کسی کو تمہاری لاش بھی نہ ملے گی .. ‘‘
خوجہ نیاز کے چہرے پر چمک آگئی بولے:
’’اور میری لاش کی کیا قیمت ہے .. یہ روح ان بلند پہاڑوں پر محوِ پرواز رہے گی .. کیونکہ روح مرتی نہیں .. ‘‘
مدیرِ مجلہ کاغذ قلم تھامے اندر آگیا اور پوچھنے لگا:
’’خوجہ نیاز روح کے کیا معنی ہیں؟‘‘
خوجہ نیاز اسے جانتے تھے نظر اٹھا کر بولے:
’’کیا تم اپنے رسالے میں بوذا اور کنفوشیوس کی تعلمات شائع نہیں کرتے؟؟‘‘
’’میں نے آپ سے پوچھا ہے‘‘
’’اچھا .. روح میرے رب کا امر ہے .. ‘‘
’’اور رب کے کیا معنی ہیں‘‘
’’خالق .. ‘‘
’’کون سا خالق؟؟‘‘
’’جسکے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں جس نے تمہیں اور مالینکوف کو تخلیق کیا اور شین سی تسائی کو .. جو تنہا خالق ہے‘‘
مالینکوف ساخرانہ انداز میں گویا ہوا:
’’قدرت .. ‘‘
خوجہ نیاز کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری:
’’چلو مجھے اپنے حصے کا سوال پوچھ لینے دو، قدرت کیا ہے؟؟‘‘
’’آفاق اور اس میں پھیلی ہوئی کائنات .. ‘‘
’’قدرت کس کے حکم کے تابع ہے .. اور کس کی تخلیق ہے؟؟‘‘
خفیہ کا انچارج السید حاجی خاموش نہ رہ سکا بولا:
’’یہ دقیانوسیوں کی تنگ نظری کا شاخسانہ ہے ‘‘
نیاز مسکرائے اور جواباً قرآن کی آیات سنائیں:
’’پہلے کافروں نے بھی یہی کہا: وما یھلکنا الا الدھر … ‘‘ (ہمیں زمانے کی گردش ہلاک کرتی ہے)
السید حاجی نے سرگوشی کی:
’’تمہیں مان لینا چاہیے کہ تم نے قوم کو گمراہ کیا ہے ….. ‘‘
’’تمہیں بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ تم نے ان عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے جنھوں نے مجھے اس مملکت کی امانت تفویض کی تھی، اور جنکے شرف کی آزادی کے لئے میں لڑتا رہا .. ‘‘
’’اور ان اموال کا بھی اعتراف کر لر جو تم نے غبن کئے .. ‘‘
’’میرے پاس کوئی خصوصی مال نہ تھا .. میں ان بہادروں کے درمیان رہتا اور انکے ساتھ کھاتا پیتا اور سوتا .. ‘‘
’’اور اب تمہارے ساتھ جنگی مجرم کا سا برتاؤ ہو گا‘‘
’’یہ میرا شرف ہے کہ میں جلا وطن غازیوں کی خاطر لڑ رہا ہوں، میں جنگی مجرم نہیں اﷲ کی راہ کا مجاہد ہوں .. ‘‘
مالینکوف نے جھک کر چینی حاکم شین کے کان میں سرگوشی کی:
’’پہلی ترجیح اسلام کا خاتمہ کرنا ہے .. تبھی مقابل تتربتر کئے جا سکتے ہیں .. ‘‘
’’بالکل .. ‘‘
السید حاجی اوراق جمع کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’ہمیں تمہارے اعترافات کی ضرورت نہیں، ہم نے تمہیں میدانِ جنگ سے رنگے ہاتھوں پکڑاہے .. ‘‘
’’ان کاغذات میں لکھ لو کہ میں پورے فخر سے کہتا ہوں کہ اپنی روش نہیں بدلوں گا ..اور مجھے شہادت کی موت کی تمنا ہے .. ‘‘
جنرال شریف نے بیچ میں دخل دیا اور دانت پیستے ہوئے السید حاجی سے بولے:
’’اگر تو میرے مقابل لشکر میں آتا تو میں کیڑے کی طرح تجھے اپنے قدموں تلے مسل دیتا .. ‘‘
خفیہ کا انچارج شعلہ اگلتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا:
’’تمہارے لئے صرف موت کافی نہیں .. دیکھنا میں کیسے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مارتا ہوں.. اور تیرے گوشت کا قیمہ بناتا ہوں .. ‘‘
منصور درغا بھی اسی ٹارچر سیل میں قید تھا، یہ سب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسے بھی اسی طرح ذلت اور عذاب کا جام پینا پڑا، مگر وہ معجزاتی طور پر بچ گیا، اگست کے مہینے میں اس ٹاچر سیل کے قریب اچانک رات کو دھماکہ ہوا، ہر طرف چیخم دھاڑ مچ گئی، اور یوں تین قیدیوں کو فرار کا موفع مل گیا، ان پر عقب سے گولیاں برسائی گئیں، تین میں سے دو شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے اور منصور درغا بھاگ نکلا .. منصور درغا اس واقعے کے ایک سال بعد مجھے ملا، وہ لاٹھی ٹیکتا خانہ بدوشوں کا بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھا، اور ان چیتھڑے لگے کپڑوں میں وہ پاگل لگ رہا تھا ..
ان سنگین دنوں میں، روس نوعِ انسانی اور شہروں کے امن سے خوب کھل کھیلا، اور ہر مقدس اور قیمتی چیز کو قدموں تلے روند گیا، منصور درغا کا پیمانہء صبر لبریز ہو گیا:
’’ذرا سوچو .. روسی مادہ جانور تک ہانک کر ترکستان سے روس لے گئے تاکہ وہ انکی نسل کشی کر دیں .. ‘‘
میں تلخی سے بولا:
بالکل اسی طرح جیسے کل چینی ہماری عورتوں پر قابض ہو گئے تھے .. ‘‘
تہمتوں کے انبار لگتے رہے، کسی بھی معصوم پر تہمت لگا دی جاتی اور اسکے اپنے ہی اقربا اس ناکردہ گناہ پر اسے چھلنی کر ڈالتے، لوگوں کو اتنا دبا دیا گیا تھا کہ درد ناک خبریں علاقے سے باہر نہ نکل پاتیں۔ دہشت کا راج ہو گیا، خوف اتنا بڑھ گیا کہ محب وطن شخص اپنی اولاد سے بھی اپنے جزبات کا تبادلہ کرتے ہوئے ڈرنے لگا۔ روس آدھے ترکستانیوں کے گھروں میں جاسوس مقرر کرنے میں کامیاب ہو گیا، پڑوسی کا پڑوسی سے اعتماد اٹھ گیا اور ریاست کے تین چوتھائی ملازمین جاسوس بن گئے، اور آدھے فوجی سپاہی اور طلبا، کسان اور مزدور براہِ راست خفیہ اداروں سے مشاہرہ پانے لگے۔ بعض اس ڈر سے جاسوس بن گئے کہ کوئی دوسرا انکی جاسوسی کر کے انہیں ٹارچر سیل میں نہ پہنچا دے، یا اس کے بیٹے غائب نہ ہو جائیں، یا اسکی بیٹیاں چھین نہ لی جائیں، سب سے خطرناک الزام یہ تھا کہ کوئی طالب علم انقلاب برپا کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے، اسے بلا توقف تعذیب خانے میں پہنچا دیا جاتا تاکہ اسکی آراء امن کو تباہ نہ کر دیں، اس پر غیر ملک سے مالی مدد کا اضافی الزام چسپاں کر دیا جاتا .. یا الہی .. میں جب بھی ان خوفناک دنوں کو یاد کرتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ یہ محض ایک بھیانک خواب تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں .. اور میں کیسے یقین کر لوں کہ ایک ملین لوگوں کو مختلف طریقوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اور چوتھائی ملین کو عقوبت خانوں میں سڑنے کے لئے چھوڑ دیا گیا اور علمائے دین کو تڑپا تڑپا کر مار دیا گیا، اور دینی اور سنہری تاریخ کے اوراق پھاڑ ڈالے گئے۔ مسجدوں کو اسلحہ خانے اور تھیٹروں میں تبدیل کر دیا گیا .. نئی پود اپنی ہی تاریخ کو برباد کرنے کے لئے جھپٹ پڑی اور اپنی شخصیت کو مسخ کرنے لگی تاکہ پرانے اصولوں کو پردہء غیب میں پہنچانے والے سرخ انقلاب کے طوفان میں جذب ہو جائے ..
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہت زبردست کاوش اپنی تاریخ سے یہ امت اگر سبق سیکھے تو ۔۔۔۔۔۔۔

جواب چھوڑ دیں