مطلب ختم تعلق ختم

اردو مختلف زبانوں کا مرکب بنتی چلی جا رہی ہے جس میں انگریزی لفظوں کی آمیزش اتنی بری طرح سے ہوگئی ہے کہ اردو میں معنی ہونے کے باوجود جب تک انگریزی میں نا لکھیں جائیں تو سمجھ سے بالا بالا ہی رہ جاتے ہیں۔ اپنے پچھلے مضمون کے عنوان میں مجھے لفظ پیشہ ور استعمال کرنا تھا لیکن اس لفظ کے معنی کوئی کیا سمجھے تو انگریزی کے لفظ پروفیشنل کا سہارا لینا پڑا ، جوکہ اپنی قومی زبان کیساتھ زیادتی کے مترادف ہے اور اپنے دل کے ساتھ بھی ۔ افسوس اور ندامت کی بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ جن کا شمار غیر تعلیم یافتہ قبیلے میں ہوتا ہے وہ بھی اسی روش کا شکار ہیں انہیں بھی پروفیشنل سے ہی سمجھ آیا ہوگا، انگریزی کے کچھ لفظوں نے یوں سمجھ لیجئے کہ اردو پر قبضہ کر لیا ہے ۔ بلکل ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ۔ ہم آج اپنی قومیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، ہم میں سے کتنے ہی ایسے پاکستانی ہونگے جنہیں پاکستان کے قومی لباس، پرندے، پھول ، وغیرہ کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔ ہم اس لاعلمی کو شرمندگی بھی نہیں سمجھ رہے ہاں البتہ پیشہ ور کا مطلب پروفیشنل کو بہت اچھی طرح سے سمجھ جاتے ہیں۔ موضوع پر آتے ہیں ،مطلب پرست دوست ، رشتہ دار اور کوئی بھی ہو بہت تکلیف دیتا ہے کیونکہ اس کا پتہ ہی مطلب نکل جانے کے بعد ہوتا ہے۔ انسان تجربات سے سبق سیکھتا ہے اور مطلب پرستی تو ادب کے رجحان میں اضافہ کرنے کا باعث بھی ہے یعنی انکے لئے شاعری بھی کی جاتی ہے افسانے بھی لکھے جاتے ہیں۔
بڑی قوم بننے کیلئے جن خصوصیا ت کی ضرورت ہوتی ہے وہ تمام قدرت نے پاکستان کو دے رکھی ہے یعنی قدرت نے اپنے حصے کا کام کر رکھا ہے اب رہا سہا کام پاکستانیوں اور پاکستان کے حکمرانوں کا ہے ۔ عنوان سے سب کو سمجھ تو آگیا ہوگا کہ کیا پڑھنے کو ملنے والا ہے، امریکہ کبھی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں رہا ۔ یہ اپنے مفادات کے دفاع کیلئے ہر ممکن حد تک جاتے رہے ہیں یہ امریکہ کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ امریکہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ابھی تک پاکستان انکے بنے جانے والے جالوں میں نہیں پھنس سکا ہے جیساکہ دوسرے ممالک پھنسے اور تباہ و برباد ہوکر رہ گئے ہیںیا پھر سال ہا سال سے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ یقیناًیہ امر امریکہ کے حکمت ساز اداروں اور ان میں بیٹھے حکمت سازوں جنہیں تھنک ٹینک بھی کہا جاتا ہے مسلسل ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔امریکہ کیلئے یہ بھی کسی معمہ سے کم نہیں کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے شائد ان کے تھنک ٹینک آج بھی سر جوڑے یہ سوچ رہے ہوں کہ آخر یہ کیسے ہوگیا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر معلوم نہیں امریکہ میں کتنے حکمت سازوں کو سزائیں بھی دی گئی ہوں۔ اب پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے کوئی نئے طریقے ڈھونڈنے ہونگے کیونکہ پاکستان اب کچھ محب وطن اور مخلص وطنوں کے ہاتھوں میں آچکا ہے پچھلے ستر سالوں سے جس کی تلاش تھی پاکستان اللہ کی طرف سے وہ گو ہر نایاب مل گیا ہے۔
امریکہ اگر یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ ہم پر قدغن لگا کر ہمیں گھٹنوں پر ٹیک دیگا تو یہ اسکی بھول ہے کیونکہ وہ بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے بائیس کڑوڑ پاکستانی جب وطن اور مذہب پر کوئی بات آتی ہے تو بے دریغ آگ میں کودنے سے بھی نہیں ڈرتااور امریکہ یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھتا ہے ۔ پاکستان امریکہ کی مطلب ختم تعلق ختم والی خصلت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہوشکا ہے ، عرب ممالک میں امریکہ نے جوکچھ کیا ہے یہ اس دلیل کیلئے منہ بولتا ثبوت ہے، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں اب بھی اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ امریکہ ایک مفاد پرست ریاست ہے اوروہاں کہ حکمران اپنے مفادات کی خاطر دنیا کے کسی بھی ملک کو نیست و نابود کرنے گریز نہیں کرتے خصوصی طور پر چھوٹے اور کمزور ممالک اس کی زد میں زیادہ آتے رہے ہیں۔ مفاد پرستوں کا زور زیادہ دیر چلتا نہیں ہے کیونکہ سامنے والے اس بات کو سمجھ جاتے ہیں اور پاکستان تو بہت پہلے سے ہی یہ بات سمجھے ہوئے ہے۔
ہماری حالیہ نئی حکومت کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ امریکہ مطلب ختم تعلق ختم والی حکمت عملی پر روابط قائم کرتا ہے ، اسے امریکہ کی بد قسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے مطلب ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ ہر روز بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ اس مطلب کا اصل آغاز افغانستان پرسوویت یونین کے قبضے سے شروع ہوا تھا اور بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ چکا ہے ۔ اب ہماری نئی اور باضابطہ خارجہ پالیسی کا کمال ہوگا کہ وہ کس طرح سے اس مطلب کے دوست کو مطلب میں الجھائے رکھتی ہے ۔ گوکہ حالا ت کی کشیدگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ امریکہ ، ایران کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے اور آجکل اس میں بہت زیادہ کشیدگی بڑھ چکی ہے اس کی ایک وجہ پاکستان کو آنکھیں دیکھانے کے مترادف بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ لیکن مطلب پرست اتنی آسانی سے اپنے مطلب کو چھوڑتے ہیں۔ امریکہ، پاکستان کو ڈرانے کی ہر ممکن کوشش کرتا چلا آرہا ہے کبھی افغانستان میں اپنی کاروائیاں بڑھا کہ ، کبھی انڈیا کو تھپکیاں دے کر تو کبھی ایران پر پابندیوں کی دھمکیاں لگا کراور کبھی دہشت گردی کیخلاف جنگ کو تیز کرنے کا نعرہ لگا کر، لیکن اب پاکستان مطلب پرستوں سے نمٹنے کا ہنر سیکھ چکا ہے اور ایسے دوستوں کو خوب پہچان بھی چکا ہے۔
ہم سے کچھ اپنوں نے شکوہ کیا ہے کہ ہمارا قلم خان صاحب کی مدح سرائی کئے جا رہا ہے ، توان کچھ اپنوں کیلئے اتنا لکھتا چلوں کے ستر سالوں کاجو بدبو دار ، سڑا ہوا گندصاف کرنے کی کم از کم بات کرنے والا تو آگیا ہے اور آپ خود بتائیں کیا اس سے پہلے کوئی ایسا شخص جو پاکستان کے بنیادی مسائل حل کرنے کی بات کررہاہو،گزرا ہے ۔ پاکستان جو مرکز یت کی اہمیت کھوتا چلا جا رہا تھا اور انفرادیت کی ڈگر پر چلایا جا رہا تھا اب مرکزیت کی جانب پھر سے پیش قدمی شروع کر چکا ہے ، لسانیت اور فرقہ واریت کے بڑے بڑے شہتیر زمین بوس ہوگئے ، توبتائیں جس ملک کی ستر سال جگ ہنسائی ہوئی ہے اب وقت آگیا ہے کہ دنیا سے ہم پاکستان کی مداح سرائی تب ہی کرواسکتے ہیں جب ہم خود یہ کام کریں گے۔مثال کے طور پر اپنے پڑوسی ملک کو لے لیجئے مداح سرائی کی بنیاد پر ساری دنیا میں دھوم مچارکھی جب کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے کہ اقلیتوں اور عورتوں کا ہمارے پڑوسی ملک میں کیا حال ہے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں