حجاب بنا میری پہچان

رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے مجھے پردہ کی توفیق دی اور اس کے باعث عزت ومقام عطا فرمایا۔میں نہیں جانتی پردہ کا شوق کب میرے دل میں پیدا ہوا۔شاید اللہ تعالی نے میری میموری چپ میں پردہ کا تصور بڑی تفصیل اور سی فرسٹ میں رکھ دیا تھا،ہاں اتنا یاد ہے کہ امی کا برقعہ مجھے اتنا بڑا تھا کہ ایک بالشت زمین پر رگڑتا ۔۔۔ ہم رات میں امی کا برقعہ پہن کر نقاب لگا کر گھر میں کھیلتے اور چھپ کر کہ امی نے برقعے کا ستیا ناس ہوتے دیکھا تو مار نہیں تو ڈانٹ تو یقینی ہے۔میرا تعلق جس عام سے مسلمان گھرانے سے ہے وہاں پردہ کا کوئی شرعی کونسپٹ نہیں …البتہ عام سا عبایا جو گھر کے باہر نکلتے وقت پہنا جاتا ہے وہی کافی سمجھا جاتا تھا۔
شرعی پردہ کی تو بہت حدود قیود ہیں دین نماز روزہ قرآن پر ختم لیکن اب ایسا بھی نہیں تھا کہ تمام حدود وقیود سے آزاد رہے ہوں۔بڑے ہوتے ہوتے پردہ اور برقعہ کا کھیل کہیں لاشعور میں چھپ کر جا بیٹھاکیونکہ بچیاں کب برقعہ پہنتیں کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ امی نانی نے بھی برقعہ کے بجائے بڑی چادریں لے لیں۔انٹر کے بعد جب میڈیکل میں ناہوسکنے کے بعد ہومیو کالج میں پہلی بار سفید برقعوں میں ملبوس لڑکیوں کو دیکھا تو برقعہ کا چھپا شوق آنکھ مچولی کھیلتے پھر سے آنکلا اور یوں پہلی بار 18سال کی عمر اپنے لئے سیاہ برقعہ کہہ کر سلوا لیا مگر بات ابھی شروع نہیں ہوئی۔
اسلامی جمعیت طالبات کی ساتھیوں سے رابطہ بعد میں ہوا پردہ پہلے کرلیا پھر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھی تواحساس ہوا برقعہ پہننا بہت آسان نہیں یہ محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں جو میرے چہرے سے پر لٹکا ہے،حجاب صرف چادر کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں ۔۔۔ بلکہ حیا دل ونظر میں ہو تو یہ گفتگو و عمل سے بھی دکھائی دیتی ہے۔حجاب میں انسان کی چال ڈھال، باتیں، خیالات اور ظاہری شخصیت شامل ہوتی ہے اور ان تمام معاملات میں حیا ہونی چاہیے اور یہ مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔شریعت نے ہمیں ہار سنگھار سجنے سنورنے سے منع نہیں کیا۔ صرف اتنا حکم ہے کہ فیشن کیا جائے مگر حد میں رہ کر کیا جائے۔ اپنی روایات اپنی شریعت کے اندر،اللہ رب العزت کے احکامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جائے۔
یہ رب العزت کا احسان ہے، کہ ہم پر حدیں مقرر کرکے ہمیں برباد ہونے سے بچالیااور یوں سوچ سمجھ کر شرعی پردہ اختیار کرلیا اور اس کے نتیجے میں جو لوگوں رویے طنز روکاوٹیں درپیش رہیں وہ الگ ۔ بس اہم یہ رہا کہ بہت سے محبت اور قلبی تعلق رشتے چھوڑنے پڑے لیکن الحمداللہ والدین کا ساتھ رہا کچھ جملے یاد رہ گئے ذہن میں،وہ میرے والد جیسے تھے بہت قریبی تعلق تھا ڈاکٹر تھے اکثر ان کی کلینک جانا ہوتا پہلی بار جب میں پردہ میں ان کے سامنے گئی تو نہیں پہچانے،خوشی خوشی تعارف کروایا تو حیران رہ گئے کہنے لگے بٹیا میں تو تمھارے والد جیسا ہوں،جی مگر میرے والد نہیں ہیں اور اللہ نے محرم کے سوا سب سے پردہ رکھا ہے پھر وہ ایسے نارض ہوئے کہ پھر ہمارے گھریلو تعلقات کم ہی ہوکر رہ گئے۔
ایسے ہی ایک قریبی عزیز نے پردہ میں دیکھ کہا پردہ تو دل اور نظر کا ہوتا ہے۔برجستہ انہیں جواب دیا تو لباس کی کیاضرورت ہے آپ کو پردہ ہے نا آپ کے دل اور آنکھوں میں۔۔۔ شاید جواب غلط تھا میرا … مگر ایک جنون تھا جو سر چڑھ کر بولااور پھرالحمداللہ محلے اور اطراف میں مثال بنادیا رب العزت نے ۔۔۔ کچھ طنز اور کچھ عزت سے مثال دیتے ۔۔۔خواہش تھی کہ شادی کے بعد بھی پردہ قائم رہے احباب واطراف عزیز سبھی پردہ سے ناواقف ۔۔۔خیر،صاحب سے شادی ہوئی وہ خود پردہ والی چاہتے تھے ۔۔۔ مگر خاندان پردہ سے بیزار اور یوں …ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کے مصداق ایک طویل جدوجہد پردہ قائم رکھنے کے حوالے سے رہی اپنا مقدمہ خود ہی لڑا۔
دعا رہتی ۔۔۔ اللہ میں نے پردہ آپ کے لئے آپ کی رضا کے لئے کیا میرے لئے آسانیاں عطا فرما استقامت دے مجھے ۔آج الحمداللہ اب وہ صورتحال نہیں رہی۔پھر مجھے دیکھ کر چھوٹی بہن اور ایک خالہ نے پردہ اختیار کرلیا ۔الحمداللہ
حجاب مسلم خواتین کونا صرف شناخت بلکہ اعتماد بھی بخشتا ہے اور گھر سے باہر کی مسموم فضا میں تحفط کا باعث بھی ہے ۔الحمداللہ اس پردہ نے مجھے وہ اعتماد عطا کیا کہ میری سوشل لائف کبھی متاثر نہیں ہوئی ۔۔۔حجاب یقیناً خوا تین کا وقار ہے اور اس کا تعلق براہ راست شرم وحیا سے ہے۔انسا ن کا حلیہ ہی اس کے ظاہر اور باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ حلیہ ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور بحیثیت ایک مسلمان ضروری کہ ہم ایک با وقارمسلم خا تون دکھا ئی دیں۔ پردہ عورت کا تحفظ ، اس کی عصمت ، اس کے وقار کا ضامن ہے ،یہی نہیں ہماری دنیاو آخرت کی کامیابی بھی اسی میں ہے کہ ہم شریعت کے حکم بجا لاتے ہوئے حجاب سے اپنی تقدیس کو قائم اور برقرار رکھیں اور سب سے بڑھ کر حکم کی تعمیل میں ہی رضائے الہی کا حصول ہے۔

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں