حجاب —-نظام اخلاق کا پاسدار

حجاب محض ایک کپڑے کا ٹکرا نہیں بلکہ ایک پاکیزہ تہذیب و تمدن کا علمبردار ہے ۔ جو ایک ایسا نظام اخلاق پیش کرتی ہے جس کی پشت پر ایک بہت بڑا نظریہ اور فلسفہ موجود ہے۔ اسی لئے کپڑے کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا لبرل اور مغرب زدہ عناصر کے اعصاب پر سوار ہے۔

     اسلام پردہ و حجاب کے ضمن میں جس مقدس اور عفیف تہذیب کو نمایاں کرتا ہے اسکا پہلا حکم تو یہ ہے کہ مومن مرد و عورت دونوں نگاہوں کی حفاظت کریں کیونکہ نظر کی آوارگی کے بعد جنسی آوارگی سے بچا رہنا مشکل ہے ۔ حدیث میں ہے کہ” اللہ فرماتا ہے یقینا نگاہ ابلیس کے زہریلے نشتروں میں سے سی ایک نشتر ہے۔ جو شخص مجھ سے ڈر کر اسے چھوڑ دے گا میں اسے ایسا قیمتی ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا”(طبرانی)۔

      دوسرا حکم یہ ہے کہ زبان و لہجے کی حفاظت کی جائے کیوں کہ پاکیزہ اخلاقیات اسی پر منحصر ہے اور فحش گفتگو زبان کا زنا ہے ۔ تیسرا حکم یہ ہےکہ گھروں میں ٹک کر رہیں اور دور جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھریں ۔ یعنی ضرورت پڑنے پر تو گھر سے نکلنے کی اجازت ہے ۔ اپنے فرائض و مقاصد بخوبی پورے کئے جائیں لیکن تبّرج سے منع فرمایا گیا ہے ۔ ابو عبیدہ کی تفسیر کے مطابق تبّرج یہ ہے کہ “عورت اپنے جسم و لباس کے حسن کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اسکی طرف رغبت ہو ” یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ تیز خوشبو کا استعمال بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا “جو عورت خوشبو استعمال کرے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو “(ابوداؤد)

         چوتھا حکم یہ ہے کہ اختلاط مرد و زن سے گریز کیا جائے ۔ اگر چہ آج زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں مرد و خواتین کا ایک ساتھ عمل دخل لازم نہ کردیا ہو ۔ کاروباری و تعلیمی ادارے اس اختلاط کا مظہر ہیں۔ اسلام نے سختی سے اس کی ممانعت کی ہے اور مرد و عورت کے لئے علیحدہ دائرہ کار متعین کر کے فرائض کا تعین کیا ہے اور ذمہ داریاں ڈالی ہیں جو اپنے اندر توازن رکھتی ہیں اور اگر کبھی دونوں کو ایک ہی دائرہ کار میں کام کرنا پڑے تو آزادانہ بات چیت و ہنسی مذاق سے بچے رہنے کا اسلام سختی حکم دیتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے منع فرمایا ہےکہ ایک مرد ،عورتوں کے درمیان چلے۔(ابوداؤد) اسی طرح تنہائی میں ملنے کی ممانعت ہے کہ “جب دو نا محرم ہوں تو تیسرا ہمیشہ شیطان ہوتا ہے “۔

          پانچواں حکم یہ ہے کہ فحاشی کی اشاعت کی روک تھام کی جائے۔ ظاہر ہے جس سوسائٹی میں ادارے عفت و پاکبازی سے ناآشنا اور ذرائع ابلاغ بدکاری و فحاشی کے اعلانیہ مرتکب ہو رہے ہوں وہاں کیسے دامن عفت کی حفاظت ہو سکے گی لہذا حکم ہے کہ “جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے گروہ میں بے حیائی پھیلے وہ دنیا و آخرت میں سخت سزا کے مستحق ہیں”۔ (النور:۱۹)

    اسلام فرد کو جن حدود کا بھی پابند کرتا ہے وہ معاشرے پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ دنیا قوانین کے صدہا دفاتر تیار کر چکی لیکن انسان کو بے راہ روی اور بدچلنی سے باز نہ رکھ سکی۔ کیوں کہ اس کی تہہ میں یہ الہامی ہدایات موجود نہیں جو معاشرے کو عفت و پاکبازی کے ایسے رنگ میں رنگ دیتی ہیں جہاں بدکاریوں کو اختیار کرنا مشکل تر ہو جاتا ہے ۔ ایسا نظام اخلاق بلا شبہ پردہ وحجاب کے قوانین کے نفاذ سے مشروط ہے ۔  لہذا یہ پردہ و حجاب محض دو گز کا کپڑا نہیں بلکہ ایک ایسے نظام اخلاق کا نمائندہ ہے جس سے  وقت کی  ہرتہذیب محروم رہی ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں