تحریر:علی ۔ایم شمسی (ممبئی )
اردو صحافت میں ایسے دردمند صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو عالم اسلام کی سیاست پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ قوم و ملت کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ جن کی تحریروں سے مطالعے کی خوشبو آتی ہو اور تحریر کی روانی کسی بہتے جھرنے سے مشابہ دکھائی دیتی ہو ۔اولاً تو عالم نقوی کی تحریریں پڑھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ایسے سنجیدہ اور فکر انگیز مضامین انہوں نے کسی روزنامے کے لیےکیسے قلم بند کر لیے! کیونکہ اردو روزناموں میں صحافیانہ انداز اور روا روی میں وقتی نوعیت کے مضامین شایع کر کے کسی طرح اخبار کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے ۔ایسے میں کوئی سر پھرا ،نہایت ذمہ داری سے قارئین کے شعور کی آبیاری کرنے لگ جائے ،اُنہیں قومی و ملی مسائل سے واقف کرائے اور عام قاری کو خواب غفلت سے جھنجوڑ کر بھولے ہوئے سبق یاد کرانے لگے تو ایسےدیوانے کو اس کی آشفتہ سری کی داد دینی ہی چاہیے ۔اچھا ہوا جو محنت اور دلسوزی سے لکھے ہوئے ان مضامین کو کتابی شکل میں ترتیب دے کر اردو قارئین کے لیے ایک دستاویز کے طور پر محفوط کر لیا گیا ورنہ ان فکری کاوشوں کا نہ جانے کیا حشر ہوتا ۔
ان کی کتاب ’بیسویں صدی کا مرثیہ ‘ ماحولیات پر اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں ماحولیات کے ضمن میں کی گئی ساری انسان دشمن پالیسیوں کا بھر پور تجزیہ ہے ۔اندھا دھند صنعتی ترقی ،ایٹمی اسلحے کی اندھی دوڑ کے نتیجے میں بنی نوع انسان کی بقا کے سنگین مسائل ،دفاعی اخراجات میں ہر سال اضافہ اور کرہ ارض پر بچی کھچی زمین جنگلوں ،تالابوں اور میدانوں کا انسانی ہوس کے ہاتھوں نیست و نابود ہونا ،بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی معاشی آمریت اور ماحولیات کی تباہی کی بدولت بے گھر ہونے والے کروڑہا پناہ گزینوں کی حالت ِزار ،یہ سب ایک عام انسان کی بے بسی اور لاچاری کا نوحہ ہے جو برسوں سے مردہ نظام کی لاش کو ڈھوتے ڈھوتے بری طرح ٹوٹ چکا ہے ۔ اور اب ہماری بے حسی، خاموشی اور بے عملی نے ہمیں ایسی نوع میں بدل ڈالا ہےکہ جو اپنی تباہی کی خود ذمہ دار ہوگی ۔
عالم نقوی کے لفظوں میں ’’فی لحال ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی مختصر فہرست میں اپنا نام درج کرالیں اور کل کی جواب دہی سے بچ جائیں ،ورنہ ترقی کا یہ عذاب تو سب کچھ، بلا مبالغہ ،سب کچھ مٹادینے کے درپے ہے ‘‘۔
اُن کی دوسری کتاب ’’اذان ‘‘ صہیونیت کی سازشوں کو بے نقاب کرتی ہے ۔ اسرائل کے قیام سے لے کر آج تک غاصب یہودیوں نے فلسطینیوں پر جو مظالم روا رکھے اور جس طرح اُنہیں اپنی ہی زمین سے بے دخل کر کے اُن کے پر اپنی غیر قانونی بستیاں آباد کیں اور امریکہ ،برطانیہ اور فرانس کے دجالی ٹولے نے جس طرح دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آج تک اپنی من مانی جاری رکھی ہے، اُس الم کہانی کا ایک ایک باب بڑی درد مندی سے تحریر کیا گیا ہے جس کے لیے قارئین کو عالم نقوی کا ممنون ہونا چاہیے ۔
۳۱۸ صفحات پر پھیلے ہوئے سو سے زیادہ مضامین فلسطینیوں کی جد و جہد ،صہیونی مقتدرہ کی ریشہ دوانیوں اور عالم اسلام کی بے حسی کی وہ داستان ہے جسے ہر حساس مسلمان کو یاد رکھنا چاہیے ۔ آج تاریخ کے اِن بھولے ہوئے اسباق کو دوہرانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ مستقبل میں ہماری رہنمائی ہو سکے ۔ ویسے بھی اسرائیل ارض مقدس کو سب سے بڑے قبرستان میں تبدیل کر چکا ہے ۔اقوام متحدہ کی آنکھیں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی دہشت گردی دیکھنے سے معذور ہیں ۔مسلم ممالک امریکی سامراج کو اخلاقی حمایت اور مالی امداد دینے میں عار نہیں محسوس کرتے ۔صہیونیت کا پروردہ مغربی میڈیا مسلمانوں کو دہشت گرد مشہور کر چکا ہے ۔ خود ہمارے ملک میں اسرائلی سفارت خانے کے قیام سے لے کر قائدین کی اسرائیل یاترائیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عام انسانوں کو نہ فلسطینیوں کے کاز سے دلچسپی ہے نہ امت مسلمہ کے درد کا احساس ہے وہ تو حزب اللہ اور اور حماس کی فتوحات تک فراموش کر چکے ہیں ،انہیں تو اپنے جائز حقوق کے لیے لڑنے والے نوجوانوں کی شہادت بھی یاد نہیں ۔ وہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کے دکھ سے بھی نا آشنا ہیں جو برسوں سے اپنے وطن واپسی کی آرزو میں زندہ ہیں ۔انہیں صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں کی دردناک بربادی بھی یاد نہیں ۔ایسے بے توفیق اور بے حوصلہ انسان ظلم و ستم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کا کیونکر سوچ سکتے ہیں ۔کاش وہ جان سکتے کہ فلسطین سے افغانستان تک اور بوسنیا سے گجرات تک کھیلا جانے والا کھیل صہیونی کھیل ہے ۔اور ہم ہیں کہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں ۔
اس کے باوجود عالم نقوی مایوس نہیں ہیں ۔
اس مؤذن کی طرح جو نہیں جانتا کہ اُس کی ’اذان ‘کا کیا نتیجہ نکلے گا ۔
’’اس آس پر کہ اگر ہم فتح یاب نہ ہوئے تو ہماری آندہ نسل یا اس کے بعد آنے والی نسل میں سے کوئی نہ کوئی نسل ضرور فاتح کہلائی گی ‘‘۔وہ دعاکیے جاتے ہیں ۔ ہم کم ازکم ان کی دعا میں تو شامل ہو ہی سکتے ہیں !
(مبصر سے رابطہ :+919820035329)
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
عالی جناب، عالم نقوی صاحب بیک نظر آپ کی تحریریں مومنانہ شان کی غماز بھی ہیں اور ایمانی جذ بے سے سرشار بھی
ماشاءاللہ عالم بھائی اک کہنہ مشق صحافی کے ساتھ ایک جرآت مندانسان بھی ہیں، انکی صدائے دل، دردِ دل رکھنے والے کے لیےجرسِ امیدہے۔۔۔
عادل نقوی، کراچی
پاکستان