میں آپ کا ” ممنون” ہوں ۔۔!

70 اور 80 کی دہائی میں میں سیاست دان کارل مارکس، ماؤزے تنگ، کی کتابیں پڑھ کر اور ذولفقار علی بھٹو, باچا خان اور مولانا مودودی کی تصنیفات کی روشنی میں عوام سے خطاب کیا کرتے تھے، تعلیمی اداروں میں مناظرے منعقد ہوتے، جہاں سوشلسٹ، کمیونسٹ اور اسلامی نظریات رکھنے والے طلبہ اپنے اپنے دلائل کی بنیاد پر بات کیا کرتے تھے، مگر آج صورتحال بالکل مختلف ہوچکی ہے، نہ اب دلائل سے بات کی جاتی ہے اور نہ ہی نظریاتی کشمکش ہے ۔

اب یہ ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے کے اب ہم صرف اس ٹالک شو کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جس میں سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہوں یا ذاتیات پر بات کرتے ہوں،  اگر کسی پروگرام میں فیاض الحسن چوہان، عابد شیر علی یا پنڈی بوائے شیخ رشید بیٹھے ہوں تو اس شو کی ریٹنگ میں اضافہ ہونا تو لازمی سی بات ہے، یا پھر اس وقت تو ریٹنگ کے تمام ریکارڈ ہی ٹوٹ جاتے ہیں جب معروف اینکر، تجزیہ نگار، اداکار، سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی جناب عامر لیاقت حسین صاحب مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہوں یا پھر سادہ الفاظ میں “آم کھلا رہے ہوں” گویا ہمیں اب وہ ہی لیڈر پسند آتا ہے جو مخالفین کو تگڑا جواب دیتا ہو یا لفاظی اچھی کرتا ہو، ایک نظریاتی، ایماندار، اور شائستہ انداز میں گفتگو کرنے والا سیاست دان ہمیں پسند نہیں ہے۔

اس ضمن میں آپ سابق صدر ممنون حسین صاحب کی مثال لے لیں پورے پانچ سال سوشل میڈیا پر ان کا مذاق بنایا گیا، لطیفے بنائے گئے ان کی سادگی اور کم گوئی پر طنز کیے گئے گویا ان کی شخصیت کو اس طرح پیش کیا گیا کے وہ ایک ناکارہ شخص ہیں جس نے زندگی میں کچھ نہ کیا  اور عمر کے اس حصے میں “ڈمی” کے طور پر ان کو صدارت کے منصب پر بٹھا دیا گیا ہو ، مگر حقیقت کچھ اور ہے جس سے اکثریت ناواقف ہے ۔

ممنون حسین ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں وہ 23 دسمبر 1940 کو آگرہ میں پیدا ہوئے، 1947 میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آیا اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔

ممنون حسین نے 1963 میں کراچی یونیورسٹی سے B. COM کیا، 1965 میں انہوں نے IBA سے MBA کیا جہاں سے آج کے دور میں ہر باصلاحیت طالب علم تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھتا ہے، ممنون حسین 1968 مسلم لیگ سے  اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، ابتداء میں وہ بطور کارکن مسلم لیگ میں کام کرتے رہے بعد ازاں انہوں نے پارٹی کے مختلف عہدوں پر بھی ذمہ داریاں ادا کیں، کاروبار میں دلچسپی اور اعلی صلاحیت کی بدولت وہ 1997 سے 1999 تک کراچی چیمبر آف کامرس کے منتخب صدر بھی رہے، 1999 میں میاں محمد نوازشریف نے انہیں گورنر سندھ تعینات کیا، مگر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کی وجہ سے انہیں چند ہی مہینوں بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا، 9 ستمبر 2013 کو انہوں نے پاکستان کے 12 ویں صدر کا حلف اٹھایا اور پانچ سال تک صدارت کی ذمہ داری نبھانے کے بعد وہ بالآخر 4 ستمبر 2018 کو اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے ۔

اس پورے سفر میں ممنون حسین پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، ان کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، وہ نظریاتی فرد ہیں، صدر پاکستان بنے سے پہلے( ادارہ نورِ حق) میں میرے والد نے پھٹے ہوئے موزوں کے ساتھ ممنون حسین کو نماز پڑھتے دیکھا، میں ممنون حسین صاحب کا بے حد ممنون ہوں جو سیاست میں شرافت اور تہذیب کی زندہ مثال ہیں، جو مخالفین کو اوئے کہہ کر نہیں بلکہ  جناب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، اب ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر منتخب ہوچکے ہیں، وہ ایک نفیس اور پڑھے لکھے شخص ہیں۔ میری دعا کے یہ قوم انہیں عزت دے، کیونکہ وہ اب ساری دنیا کے سامنے ہمارے نمائندے ہیں مگر ایک بات یہاں بتانا بہت ضروری ہے کے ایک نجی ٹی وی چینل نے آج ہی عارف علوی کی مسکراہٹ پر ایک پیکج کی صورت میں ان کا مذاق بنایا ہے جو کے انتہائی قابلِ مذمت ہے  ۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں