مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہونے والے

ایک مجسمہ ساز سے کسی نے پوچھا کہ کس طرح سے ان آڑے ترچھے پتھروں کو تراش کراتنے خوبصورت مجسمے بنالیتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ مجھے پتھروں میں صورتیں دیکھائی دیتی ہیں اور میں مجسمے سے غیر ضروری پتھر ہٹا دیتا ہوں تو وہ پوشیدہ صورت سب کو نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہم بھی ایک انتہائی منظم قوم تھے جس کا ثبوت یہ کہ بے تحاشہ مسائل کے باوجود پاکستان کی سرزمین تک پہنچنے کیلئے سفر کو جاری رکھاجبکہ اس سفر میں انگنت جان لیوا رکاوٹیں بھی تھیں۔پھر وقت اور حالات کی نذر ہوکر ہم بھی آڑی ترچھی قوم ہوتے چلے گئے۔پاکستانی قوم بھی ایک مدت سے کسی ایسے مجسمہ ساز کی منتظر تھی کہ جو اس قوم میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال کر ایک قوم کا حقیقی تصور پیش کرے اور امت کی تشکیل کی بنیاد ڈالے۔ عمران خان پاکستان کیلئے ایک ایسا مجسمہ ساز سمجھے جا رہے ہیں جو کہ آڑا ترچھا پن ختم کردینگے ۔ایک تھکا دینے والی بائیس سالہ جدو جہد کا ثمر تحریکِ انصاف کو مل گیا ہے ، بطور پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے حلف اٹھا لیا ہے ۔ اب تحریک کے عزم اور جدوجہد کا نیا امتحان شروع ہونے جا رہا ہے۔ جن باتوں پر تنقید کی ، جن باتوں پر شور مچایا، جن باتوں پر عوام کوسردی، بارش اور دھوپ میں بٹھائے رکھااب وہ وقت آن پہنچا جب ان باتوں پر عمل کرنا ہے ۔
سنسان سڑک پر گاڑی چلانے کا مزا نہیں آتا اور ناہی گاڑی چلانے والے کی اہلیت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان تمام امور کو پرکھنے کیلئے سڑک پر بھرپور ٹریفک کا ہونا بہت ضروری ہے ، مخالف جماعتیں اور میڈیا بھرپور ٹریفک کا کردار ادا کرینگے تو حکومتی چال چلن کا اندازہ لگایا جائے گااور یقین کی صورتحال ترتیب پائے جانے کا قوی امکان ہے ۔ خان صاحب نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی کی جانے والی تقریر میں اپنی حکمت عملی بھرپور انداز میں واضح کردی ہے، گوکہ اس تقریر کو حکومتی امور سے نا شناسائی اور ناتجربہ کاری کے زمرے میں رکھا ہے ۔دراصل سال ہا سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے مافیا کیلئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے جنہوں نے اقتدار سے کبھی نا جدا ہونے کا سوچ رکھا تھا اور انکا اقتدار صرف اپنے دوستوں اور ا حباب و رفقاء کے غلط کاموں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے تھا۔
بظاہر مشکل نظر آنے والے کاموں میں عملی طور پر کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، مشکل ہے تو صرف اور صرف یہ کہ لوگوں کو محمود و ایاز یاد کرانے کی اور عملی طور پر کر کے دکھانے کی ضرورت ہے۔نظام موجود ہیں صرف ان پر سے مٹی دھول جھاڑنے کی ضرورت ہے ۔ شیخ رشید صاحب نے حسب سابق ریلوے کی وزارت سنبھال لی ہے اور ایک بہت ہی اعلی پائے کا نعرہ ریلوے ملازمین کو دیا ہے کہ آرام حرام ہے ۔ یہ وہ نعرہ ہے جو قائداعظم نے لگایا نہیں تھا لیکن عملی طور پر کرکے دیکھایا تھا۔ ہمیں اپنے ہر ادارے کے مین دروازوں پر جگہ جگہ اس نعرے کو نصب کروا دینا چاہئے۔
جب کوئی سچا ہوتا ہے تو جھوٹے اس سچے آدمی کے سائے سے بھی خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ بھی الٹا سیدھا بولنا شروع کردیتے ہیں (جیسا کہ ایک بہت ہی معزز و قابل احترام سیاست دان خان صاحب کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے ہیں)۔ اب وقت آچکا ہے کہ آنے والے وقتوں میں جو کچھ ہونے والا ہے اس سے اس کا ازالہ کیا جائے۔پاکستانی قوم کسی حد تک جذباتی ثابت ہوئی ہے اور عمومی طور پر اجتماعی طور پر انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتی ، جسکی سب سے بڑی وجہ بد امنی اور بے سکونی ہے ۔قوم نے جس طرح سے عمران خان اور ان کی ٹیم پر بھروسہ کیا ہے اور انہیں ملک کی بہتری کیلئے چنا ہے تو اب قوم کو عمران خان پر ایک احسان اور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ قوم انفرادی طور پر اپنی عملی کارگردگی میں بہتری لائے اور جو جہاں پر ہے وہ وہیں رہتے ہوئے اپنے اندر موجود چھوٹی موٹی خامیوں کو درست کرنے کی کوشش کرے۔
پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھرپور قربانیاں دیں اورایک نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کئے جانے والے عزم اور حوصلے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہوئے اور نا ہونگے۔پاکستانی قوم نے ایسے بہت سارے محاظوں پر اپنا لوہا منوایا ہے اور دنیا کو حیران و پریشان کررکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہماری افواج بھی ہیں کہ قوم ان کی جفاکشی اور انتھک لگن و محنت سے بیحد متاثر بھی ہے اور فخر بھی کرتی ہے۔
آج پاکستان کو پھر ایک ایسے محاذ کا سامنا ہے کہ جب حالات بدلنے کو ہیں لیکن ہر پاکستانی کا طبعی حصہ ڈالے بغیر یہ ناممکن ہے ۔ پاکستان کو بد عنوانوں سے اتنی پریشانی نہیں ہے جتنی کہ بدعنوان نظام سے ہے اس نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے ہمیں ایک ہونا پڑے گا اگر ہم واقعی صاف ستھرا اور بدعنوانی سے پاک پاکستان چاہتے ہیں یا یوں سمجھ لیجئے کہ پاکستان کو اس کے حقیقی معنوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑے گا ہمیں اپنی باہمی رنجشیں اور عارضی جھگڑوں کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا۔
قوم نے عمران خان کا بہت برے وقت میں بھرپور ساتھ دیا ہے لیکن آج ساتھ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اب عمران خان کو ہر طرف سے خطرہ ہی خطرہ ہے اور ہر خطرے کو ہم اپنی قومی یکجہتی سے شکست دے سکتے ہیں اور دشمن کو خان لیاقت علی خان کا مکا دکھا کر کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان اپنے پیروں پر کھڑے ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان بیساکھیاں پھینکنے والا ہے ۔ تھوڑا سا صبر آزما کام ہے اور یہ قوم کے صبر کا امتحان بھی ہے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں