اللہ کے ہو کر تو دیکھو۔۔۔

اس دنیا میں بعض شخصیات ایسی گزری ہیں کہ جن کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کے کارناموں ، قربانیوں اور ان کی کسی کام کے لیے کی گئی جدوجہد کو یاد رکھا جاتا ہے اورگاہے بگاہے اس کا تذکرۂ خیر بھی کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بڑی بڑی عظیم ہستیوں کو مبعوث فرمایا ہے ۔اگر میں ان کے ناموں کواحاطہ تحریر میں لانا چاہوں تومیرے ہاتھ لکھتے لکھتے بے بس ہو جائیں ،میرا قلم ان عظیم ہستیوں کے نام لکھنے سے عاجز آجائے۔الغرض میں شمار کرنا چاہوں تو شمار کرنا ناممکن ہے۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے جس ہستی اور شخصیت کا آج میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں،وہ ہستی جن کو جدّالانبیاء،معمار بیت اللہ، پدر ذبیح اللہ،مقتداء وپیشوا،صدیقانبیا،خلیل اللہ،ترجمان توحید اور حلیم وکریم جیسے القابات سے پکارا جاتاہے اور ان کا نام سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے ۔ آپ کانام بچپن میں ’’ابرام‘‘ تھا جو عبرانی زبان کالفظ ہے جس کا معنی ’’قوموں کا باپ ‘‘ہے ، جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ’’ابراہیم ‘‘ بن گیا۔
سیدناحضرت ابراہیم ؑ کے والد کا نام ’’تارخ‘‘ تھا، یہ بہت بڑا بت تراش اور بت بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ اس نے شاہی خاندان کے لئے سونے ،چاندی اور قیمتی دھاتوں سے ایک بت بنایا اور اسے بادشاہ نمرودکی خدمت میں پیش کیا جس کی بنا پر بادشاہ کی طرف سے اُسے بہت زیادہ مال و دولت ملا۔اس بت کا نام انہوں نے ’’آزر‘‘رکھا۔یہ بت صرف شاہی خاندان کے لئے تھا ان کے علاوہ کوئی بھی اس کے سامنے اپنی التجائیں اور حاجتیں وغیرہ نہیں کر سکتا تھا،اس’’ آزر‘‘ نامی بت کی اتنی مشہوری ہوئی کہ لوگوں نے یہ بت بنانے والے کانام ہی’’ آزر ‘‘ رکھ دیا،جس کی وجہ سے سیدنا ابراہیم ؑ کے والد کا نام تارخ سے’’ آزر‘‘ پڑ گیا ۔سیدنا ابراہیم ؑ جب پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالا تو وہاں کے لوگ بتوں اور چاند ستاروں وغیرہ کی پوجا کرتے تھے، آپؑ انہیں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور قوم میں جوبھی خرافات تھی اس کا جائزہ لے رہے تھے، دل ہی دل میں رنجیدہ اور توحید باری تعالیٰ کے پرچار کے لیے بے تاب رہتے تھے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا:
’’کہ ہم نے اسے یعنی (ابراہیم ؑ کو)دنیا میں منتخب فرما لیا۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نبوت سے سرفراز کر دیا تو آپؑ نے اپنے والد گرامی کو بڑے ہی احسن اندازمیں مخاطب ہو کر فرمایا :
’’اے میرے ابا جان ! میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے ،لہٰذاآپ میری بات مان لیں یعنی (بتوں کی پوجا پاٹ چھوڑدیں اوراللہ پر ایمان لے آئیں) میں آپ کی بالکل سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کروں گا۔اباجان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں (یعنی بتوں کی)شیطان تواللہ تعالیٰ کابڑا ہی نافرمان ہے۔ اے میرے اباجان! مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔‘‘(سورہ مریم)
سیدنا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے نبوت کے مقصد اور توحید الٰہی کے پرچار کے لیے اپنے گھر سے دعوت کا آغاز کردیا تو باپ نے آپ ؑ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور آپ ؑ کو دھمکی دیتے ہوئے فرمایا :
’’ کہ تو میرے معبودوں سے روگردانی کر رہاہے ،اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور میری نظروں سے ہمیشہ کے لئے دور ہو جاؤ۔‘‘
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کو گھر سے نکل جانے کا حکم تھا تو آپ ؑ نے گھر سے نکل جانے میں ہی اپنی اور اپنے دین و اعتقاد کی عافیت سمجھی۔سیدنا ابراہیم ؑ اتنے نرم دل اور اپنے والد گرامی کے خیرخواہ کہ جب نکال دیا گیا تو اپنے والد کو کہہ رہے ہیں:
’’اللہ آپ کو سلامت رکھے ،میں اپنے رب سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔‘‘
پھر آپؑ نے قوم کی طرف رخ کیا اور انہیں اللہ تعالی کا پیغام سنایاتو انہوں نے بھی آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا ۔
عراق کے مشہور شہر بابل میں قوم کا سالانہ میلہ لگتا تھا لوگ اس کی جانب رخ کرتے ہیں سب لوگ میلے میں مصروف ہیں ،صرف حضرت ابراہیم ؑ ہی میلے میں نہیں گئے آپ ؑ قوم کے بت کدے میں پہنچ کر ان کے خداؤں کے پاس چلے جاتے ہیں،بتوں کے سامنے ہر قسم کے کھانے موجود ہیں تو آپ ؑ ان سے پوچھتے ہیں کھاتے کیوں نہیں؟تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم بات تک نہیں کرتے ؟آپ ؑ نے ان بتوں سے یہی سوال کیے تھے اور جواب نہ ملنے پر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ۔قوم میلے سے واپس آتی ہے تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حشر کس نے کیا ہے ؟لوگ آپس میں کہنے لگے ہماری بستی میں ایک ہی نوجوان ہے جو ہمارے بتوں کو نہیں مانتا جسے ابراہیم کہتے ہیں ۔حضرت ابراہیم ؑ کو بادشاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا ،وہ کہنے لگے اے ابراہیم ! ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت تو نے کی ہے ؟آپ ؑ جواب میں فرماتے ہیں آپ اپنے خداؤں سے پوچھ لیتے اگر وہ بولتے ہیں تو ۔ سیدنا ابراہیم ؑ کا یہ کہنا ہی تھاکہ انہیں سمجھ آگئی کہ یہ نوجوان جو کہتا ہے آج اسی کا اقرار ہماری زبان سے ہونے والا ہے اور پھر کہتے ہیں اے ابراہیم ! تجھے تو پتہ ہے کہ یہ بول نہیں سکتے ۔اس موقع پر سیدنا ابراہیم ؑ کو توحید کی دعوت دینے کا موقع مل گیا ،آپ ؑ فرماتے ہیں پھر کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان ؟افسوس ہے تم پر اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو تم اتنی عقل بھی نہیں کرتے ؟۔قوم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا صرف یہی جواب تھا کہ اسے قتل کر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے ۔فیصلہ یہ ہوا کہ اسے جلا دیا جائے ،پھرایک بہت بڑا گڑھا کھودا گیا اس میں چالیس دن آگ جلائی گئی اور پھر سیدنا ابراہیم ؑ کو اس میں دور سے پھینکا گیا ،اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا :
اے آگ ! براہیم ؑ کے لئے سلامتی والی ٹھنڈی ہو جا۔
چنانچہ آگ کی فطرت ہی بدل گئی، اللہ نے اپنے پیغمبر کو بچا لیا اور دنیا کو یہ سبق سمجھا دیا کہ جو اللہ کا ہو جاتاہے اللہ اسے کبھی ضائع نہیں کرتا ۔اللہ ہمیں بھی سیدنا ابراہیم ؑ جیسا جذبہ اور استقامت نصیب فرمائے آمین۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں