بٹوارے سے ٹکڑوں تک۔۔۔

۷۰ سال پہلے ہندوستان میں بسنے والی قوم دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ کی گئی، وجہ بہت معقول تھی کہ بر صغیر میں بسنے والی دو اکثریت کے نظریات بہت الگ تھے ۔ مسلمانوں کا مذہب دینِ اسلام جبکہ ہندو بت مت ۔مگر برّصغیر کی اس قوم کا ماننا تھا کہ وہ برسوں سے ایک سر زمین پر رہتے آئے ہیں لہٰذا اِن کے مذاہب بیشک الگ ہوں مگر وہ ایک ساتھ رہنے میں راضی ہیں۔پھر کانگریس سے مسلم لیگ تک کا سفر، محمد علی جناح کی سربراہی ، جلسوں کا جوش و خروش، شاعرِ مشرق کے جذبوں سے سرشار اشعاراور پھر اِن سب کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کو معلوم ہو گیا کہ چا ہے ہمارے رہن سہن میں خاص فرق نہ ہو، چاہے زبانوں کا فرق نہ ہو ، چاہے ہم نے آپس کی جتنی بھی رسومات اپنا لی ہوں، مگر ہم ہیں الگ۔ ہم دو قوم ہیں۔ بٹوارہ لازم ہے۔ دو قوموں میں بٹوارہ۔


یوں ۷۰ سال پہلے یہ ملک ہمیں مل گیا ۔ بے تہاشہ قربانیوں اور انتھک محنت کے بعد ہمیں ہمارا ملک پاکستان ملا۔ ایک الگ قوم ملی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ملا ۔ وہ ملک ملا جو بنا ہی اسلام کے نام پہ تھا اور اس ملک میں ایک ہی قوم تھی۔ مسلمان قوم۔ہمارے بزرگوں نے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ بٹوارے کا سلسلہ تو اب شروع ہوگا۔ مشرقی پاکستان سے آوازیں اٹھنا شروع ہو ئیں اور پھر بنگلا دیش الگ ہوگیا۔ کشمیر پہ قبضہ ہوا، بلوچستان کے مسئلے شروع ہوئے۔ پھر زبان کی بنیادپر نفرتیں سراٹھانے لگیں۔ مذہب کی بنیاد پہ یہ ملک تو بن گیا تھا،اب مذہب کے اندر دو نظریے پیدا کیے گئے ۔ شیعہ سنی کا ایسا نعرہ لگااور نفرت کی آگ اتنی پھیلی کہ چار سُو دھواں کر گئی ۔شیعہ سنّی فسادات بلندیوں کو پہنچ گئے۔ پھر اسی پر بس نہ ہوا، پھر سلسلہ شروع ہوا دیوبندی اور بریلوی کا۔پھر قوم اور بٹ گئی۔ پھر آئیں سیاسی جماعتیں اور پھر وہ بٹوارہ ہوا وہ بٹوارہ ہوا کہ جس نے ایک گھر میں ایک دسترخوان پہ کھانے والے خاندان کو آپس میں تُو تُو میں میں پہ اکسا دیا اور اب حال یہ ہو گیا ہے کہ دس لوگ آپس میں گھنٹوں خاموشی سے سفر گزار دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اس کا تو نظریہ ہی الگ ہے۔


صد افسوس کہ کہاں سے شروع کیا تھا ہم نے اپنا سفر اور کہاں آگئے۔حصوں میں ایسا بٹے کہ بہتے ہی چلے گئے۔آج ملک کے حالات دیکھ کر بچپن میں پڑھی ہوئی وہ کہانی یاد آگئی جس میں کچھ بھوک سے بے حال بلیوں کو جنگل میں ایک روٹی پڑی ہوئی ملتی ہے۔ بلّیاں خوش ہوکر جوں ہی اس روٹی کو کھانے لگتی ہیں تو سامنے سے ایک بندر آ جاتا ہے۔وہ بلّیوں کو اکساتا ہے کہ تم روٹی کے ٹکڑے کر دوتاکہ تم سب کو برابر ملے۔ بلیوں کو یہ بات مناسب لگتی ہے وہ روٹی کے ٹکڑے کر دیتی ہیں۔پھر بندر یہ کہہ کر کہ اس کا ٹکڑا بڑا ہے ایک نوالہ ایک کے ٹکڑے سے کھاتا پھر دوسرے کا نوالہ چھوٹا ہے کہہ کر اس کے حصے برابر کرتااور معصوم بلّیاں آپس کی جنگ میں اتنا مصروف رہیں کہ انہیں احساس ہی نہ ہوا کہ یہ خیر خواہ ہی انہیں بھوکا مروائے گا۔ بندر آپس میں صلح کرواتے کرواتے پوری روٹی ہضم کر گیا اور ہاتھ جھاڑ کر یہ جا وہ جا۔

بالکل یہی حال میرے وطنِِ عزیز کا ہے، بیرونی طاقتوں نے جی بھر کہ اس کے ٹکڑے کر دیئے ہیں اور اب اس ملک میں اتنے چھید ہو گئے ہیں کہ ملک چھلنی بن کہ رہ گیا ہے۔ اس میں اب کچھ بھی ڈالو چاہے آدھا پونا انصاف، چاہے خوشحالی یا پھر ترقی۔ اِن چھیدوں سے رس کے سب بہہ جاتا ہے۔اِن ٹکڑوں کو اگر یکجا نہیں کیا گیا تو بندر ہاتھ جھاڑ کہ چل دے گا اور ہمارے پاس سوائے بھوکا رہنے کے کوئی چارہ نہیں رہے گا۔


پاکستان اولڈ ہاؤس میں موجود وہ ماں ہے جسے اس کے بچے ماں کی پیدائیش کے دن ملنے جاتے ہیں اور ہاتھ اور ماتھا چوُم کے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حجت تمام کر دی اور پورے سال کی کسر پوری ہو گئی۔ بچہ اپنی ہی دُھن میں مگن ماں کی آنکھوں میں وہ تحریر نہیں پڑھ پاتاجو اُسے ایک ایک قربانی ایثار اور تکلیف کا بتا رہی ہوتی ہیں ۔ہر سال ۱۴ اگست کے دن پورا ملک جوش و خروش سے اِس ملک کی آزادی کا دن مناتا ہے۔ اِس خوشی میں وہ مقصد کہیں نظر نہیں آتا جس کی بِنا پہ اِس خطے کو الگ کیا گیا تھا۔ بٹوارے کااصل مقصد کہیں کھو گیا ہے۔ ہماری نئی نسل تو بٹوارے کا مقصد ہی نہیں جانتی۔ آج کی نسل کو معلوم ہی نہیں ہے کہ بٹوارہ تو صرف برِّ صغیر کا ہو ا تھا۔ اِ نہوں نے تو ملک کو ہی بٹتے دیکھا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹتے۔

وہ عظیم بزرگ اب گنتی کے ہی رہ گئے ہیں جنہوں نے یہ ملک اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا ہے۔ جنہوں نے لہو سے لپٹی لاشوں کو گلے سے لگا کر وہیں چھوڑا، جنہوں نے اپنے گھر اجڑتے دیکھے، جنہوں نے زخموں سے چور بچوں کو سسکیوں کہ ساتھ وہیں دم توڑتے دیکھا۔ کبھی بیٹھا کریں اُن بزرگوں کہ ساتھ اور ان کی آنکھوں دیکھی کو اپنی آنکھوں میں اتارنے کی کوشش کیا کریں۔ گو کہ اب ہم اپنے مقصد سے بہت دوُر نکل آئے ہیں مگر اب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ کچھ نہ سہی تو سال میں ایک بار اس ملک کی تاریخ کو پڑھا کریں اور اِس ملک کی تقسیم کا مقصد یاد رکھیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں