عثمانی امیر البحر یا بحری قزاق
ہمارے کرۂ ارض کا تین چوتھائی حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے اور صرف ایک چوتھائی حصہ خشکی سے۔یعنی اس زمین کا پچھتر فیصد رقبہ پانی پر مشتمل ہے جو مختلف سمندروں، دریاؤں ، جھیلوں وغیرہ پر محیط ہے۔ اس طرح آبی ذرائع نقل و حمل اور آمدو رفت کی اہمیت ابتدائے آفرینش سے ہی مسلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے لے کر دور جدید تک عسکری اعتبار سے ایک مضبوط اور طاقتور بحری فوج ہر دور میں کسی بھی مستحکم سلطنت کا لازمی جزو سمجھی گئی ہے۔ (علاوہ ا س کے کہ اس سلطنت کی حدود میں سمندر نہ ہو۔)
مسلم عسکری جہاز ر انی کی ابتداء:
جہاز رانی سے مسلمانوں کو شروع ہی سے دلچسپی رہی ہے اور اس فن میں انہوں نے صدیوں تک دوسری قوموں بالخصوص یورپی اقوام کی رہنمائی کی ہے۔ ان کے جہاز خلیج فارس سے لے کر بحریہ ہند سے ہوتے ہوئے چین اور جاپان تک سفر کرتے تھے۔
مسلم جہاز ران ہندوستان اور مشرق بعید سے مصالحہ جات اور دیگر تجارتی سامان لاتے اور انہیں یورپی ساحلوں پر اچھی قیمتوں پر فروخت کرتے تھے۔ اس دوران یورپی جہاز رانوں نے بحریہ روم میں مسلمانوں کے تجارتی جہاز لوٹنے شروع کردیے تو اپنے دفاع کیلئے مسلمانوں نے باقاعدہ بحری جنگی جہازوں کی صورت میں مسلح بیڑے تجارتی قافلوں کے ساتھ کردیے۔ یہ جنگی جہاز دفاع کے ساتھ ساتھ بعض اوقات جارحانہ اقدامات بھی کرتے اور آگے بڑھ کر یورپی جہازوں پر بھی حملہ آور ہوجاتے۔ اسی کو یورپی تاریخ دان ’’مسلم بحری قذاقی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مسلم ’’بحری جہاز رانوں‘‘ یا ’’بحری قذاقوں‘‘ کا دفاع کرنا ہمارا موضوع بحث نہیں ، اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
مسلمانوں کی سائنسی ترقی اور بحری سفر میںاس کا استعمال:
مسلمانوں نے جب سائنسی طور پر اقوام عالم میں عروج حاصل کیا تو اس کا اثر دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ بحری سفر پر بھی آیا۔ مسلمانوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بحری سفر کو آسان اور نسبتاً محفوظ بنالیا۔ مسلم جہاز ران شہاب الدین احمد ابن ماجہ کا نام اس ضمن میں سر فہرست ہے۔ مورخین کے مطابق ابن ماجہ کی تصانیف تقریباً اڑتیس ہیں جن میں سے اکثر بحری علوم سے متعلق ہیں۔ ان میں مشہور ترین کتاب ’’الفوائد‘‘ ہے۔ ابن ماجہ نے مقناطیسی قطب نما میں ترمیم کرکے اسے جدید تر بنایا۔ ابن موسیٰ کی ایجاد ’’اصطرلاب‘‘نے بحری سفر میں ستاروں سے رہنمائی آسان بنادی۔ جب بحری جہاز رانی منظم ہوگئی تو مسلم حکومتوں نے باقاعدہ بحری دستے قائم کرنا شروع کردیے اور ان کا سربراہ ’’امیر البحر‘‘ کہلائے جانے لگا۔Admiral یا ایڈمرل اسی لفظ کی ترمیم شدہ شکل ہے۔
آج ہمارا موضوع سلطنت عثمانیہ کا عظیم امیر البحر ’’خیرالدین پاشا بار بروسہ‘‘ ہے۔
خیر الدین پاشا بار بروسہ:
مسلم عسکری بحری فوج کے پہلے امیر حضرت امیر معاویہؓ ہیں۔ آپؓ نے رومی بحری فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے حضرت عمرؓ سے بحری بیڑے کی تشکیل کی اجازت طلب کی جو رَد کردی گئی۔ بالآخر طویل سوچ بچار کے بعد حضرت عثمانؓ کے دور میں پہلا مسلم بحری بیڑا تشکیل دیا گیا اور پہلا بحری حملہ قبر ص کے جزیرے پر کیا گیا۔
(اس مہم میں حضرت عبادہ بن صامتؓ اپنی اہلیہ اُم حرامؓ کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ام حرامؓ کی شہادت کی پیش گوئی آپ ﷺ نے اسی مہم کے لیے تھی جو پوری ہوئی۔)
حضرت امیر معاویہؓ کے بعد اسلامی جہاز رانی میں ایک نمایاں نام بزرگ بن شہریارکا ہے، جن کا سفرنامہ ’’عجائب الہند‘‘چوتھی صدی ہجری کے عالم اسلام کے اکثر حالات بیان کرتا ہے۔ پھر شمالی افریقہ کے حکمران امیر البحر ابو الاغلب، مسلم چین یا ترکستان کے امیر البحر چنگ ہو المعروف سید حاجی جہاں، مصر کے فاطمی خلیفہ امیر البحر عبید اللہ المہدی اور عثمانی سلطان محمد الفاتح وہ نمایاں نام ہیں جو مسلم عسکری بحری تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں۔
سولہویں صدی عیسوی میں ایک اور نام اس فہرست میں شامل ہوتا ہے جو عثمانی سلطان سلیمان عالیشان کے امیر البحر کی حیثیت سے بحریہ روم میں اپنی طاقت کے دھاک بٹھاتے ہوئے عثمانی سلطان سلیمان کو وہ مرتبہ اور شان و شوکت دلوانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے کہ جس کے باعث آج بھی مورخ اسے سلیمان عالیشان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ نام ہے ’’ امیر البحر خیر الدین پاشا بار بروسہ!‘‘
یورپ کو جن مسلم سالاروں نے ناکوں چنے چبوائے ان میں سے ایک خیر الدین باربروسہ ہے۔ اس نے کئی دفعہ مشترکہ یورپی افواج کو شکست سے دو چار کیا اور ایک ایسی بحریہ کی داغ بیل ڈالی جو آنے والی کئی صدیوں تک بحریہ روم میں اپنی طاقت منواتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ باربروسہ کو عثمانی امیر البحر سے زیادہ یورپی مورخ ایک بحری قذاق کی حیثیت سے پیش کرتے رہے ہیں۔
Pirates of Caribbean:
اس مضمون کے تحریر کرنے کی وجہ بالی ووڈ کی مشہور زمانہ فلم ساز کمپنی Walt Disney Picture کی فلم سیریز Pirates of Caribbean ہے۔ اس سیریز کی پہلی فلم 2003 ء میں ریلیز کی گئی اور پانچویں فلم گزشتہ سال آئی۔ اس پوری سیریز کی کہانی بحری قذاقی کے گرد گھومتی ہے، فلم کا ولن ایک بحری جہاز کا کپتان ہے جو مختلف بحری جہازوں کو لوٹتا ہے اور دیگر جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے جن کا تعلق بحری سفر سے ہے اور ولن کا نام ہے کیپٹن ہیکٹر بار بوسہ
Captain Hector Barbosa!
اگرچہ اس کردار کو مسلمان نہیں دکھایا گیا مگر ’’بار بروسہ‘‘کا نام استعمال کرکے فلم سازوں نے روایتی مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عظیم مسلمان جہاز ران کو ایک خونخوار بحری قذاق کے کردار کے ساتھ نام کی مشابہت دیتے ہوئے تاریخی جانبداری کا ثبوت دیا۔ حالانکہ باربروسہ نام تاریخ میں بہت کمیاب ہے اور خیر الدین باربروسہ کے علاوہ اور کسی مشہور تاریخی شخصیت کا یہ نام کم از کم راقم کی نظروں سے تو نہیں گزرا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فلم سیریز کے کئی کردار پانچوں فلموں میں مختلف ہیں مگر کیپٹن ہیکٹر بار بوسہ یا باربروسہ کا کردار پانچوں فلموں میں موجود ہے۔ آئیے باربروسہ کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ محض ایک بحری قذاق تھا یا کچھ اور !
خیر الدین پاشا باربروسہ کی ابتدائی زندگی:
1475 ء میں یونان کے جزیرے میڈلی میں ایک ترک سپاہی یعقوب آغا کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام خضر رکھا گیا۔ خضر کے تین بھائی تھے‘ الیاس، عروج اور اسحق۔ خضر اور اس کے بھائیوں نے اس دور کے مطابق جہاز رانی میں قدم رکھا اور بحری تجارت اور قذاقی سے تعلق جوڑ لیا۔ ابتدائی طور پر یورپی جہاز رانوں سے چھوٹی موٹی جھڑپیں چلتی رہیں اور آہستہ آہستہ ان بھائیوں نے بحریہ روم کے کئی جزیروں پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ بحریہ روم کے یہ قذاق علامتی طور پر کسی نہ کسی بڑی حکومت کی بالادستی قبول کرلیتے اور اس کے پرچم تلے سمندر میں مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرتے۔ خضر کے بڑے بھائی عروج نے اسی طرح مصر کے مملوک سلطان سے عیسائی ریاستوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بحری جہاز حاصل کیے اور ایک مضبوط بیڑا قائم کرلیا۔ بحری قذاقی کے ساتھ ساتھ ہسپانیہ سے سقوطِ غرناطہ کے بعد مسلم مہاجرین کو شمالی افریقہ تک پہنچانے کا کام بھی ان بھائیوں نے اپنے ذمہ لے لیا۔ عروج نے مسلم مہاجرین کے کئی جہاز ہسپانیہ سے شمالی افریقہ کے ساحل تک پہنچائے۔ اسی وجہ سے اسے بڑی شہرت حاصل ہوگئی اور اس کا نام احتراماً بابا عروج بار بروسہ پڑگیا۔ بار بروسہ کے معنی سرخ داڑھی والے کے ہیں۔ خضر اور بابا عروج دونوں کی داڑھی سرخ تھی اسی وجہ سے دونوں بھائیوں کا نام بار بروسہ پڑگیا۔(قارئین اگر یاد داشت پر زور ڈالیں تو Pirates of Caribbeanکے علاوہ کئی ہالی وڈ کی فلمیں یاد آجائیں گی جن میں سرخ داڑھی والے بحری قذاق دکھائے گئے ہیں ۔)
اسی دوران بابا عروج نے بحریہ روم کے ایک جزیرے ’’الجزیرہ‘‘پر اپنا قبضہ مستحکم کرتے ہوئے عثمانی سلطان سلیم دوم کی بالادستی قبول کرلی۔ سلطان سلیم نے بابا عروج کو امیر الجزیرہ نامزد کردیا۔ الجزیرہ پر یورپی جہاز دانوں کے حملے کے دوران بابا عروج اور اس کا بھائی اسحق ہلاک ہوگئے جبکہ خضر کا تیسرا بھائی الیاس پہلے ہی کسی معرکہ آرائی میں مارا جاچکا تھا۔ اب خضر اکیلا الجزیرہ کا حکمران تھا۔ الجزیرہ پر حملہ آور یورپی جہازوں کو کئی دفعہ خضر نے تن تنہا شکست دی۔ اس کی بہادری اور تجربہ کاری کی شہرت استنبول میں سلطان سلیمان تک پہنچ گئی جو اپنی بحری فوج کو مضبوط تر کرنے اور اس کی تشکیل نو کی فکر میں تھا۔ سلطان سلیمان نے خضر کو جواب بھی ہسپانیہ کے مہاجرین کی آبادکاری میں مصروف تھا اور اپنے بڑے بھائی بابا عروج کا لقب باربروسہ اختیار کرچکا تھا اسے استنبول طلب کیا۔ سلطان سلیمان نے خضر کو عثمانی بحری افواج کا سربراہ ’’امیر البحر‘‘ مقرر کیا اور اسے ’’بیلربے‘‘ کا لقب عنایت کیا۔ بیلربے عثمانی سلطنت کا ایک بڑا عزاز تھا جو موجودہ دور میں ’’گورنر جنرل‘‘ یا ’’وائسرائے‘‘ کے برابر ہے۔ اب خضر نے ’’خیر الدین پاشا بار بروسہ‘‘ کے نام سے سلطان سلیمان کے امیر البحر کا عہدہ سنبھال لیا۔
امیر البحر خیر الدین پاشا بار بروسہ کی عسکری خدمات:
سلطان سلیمان کے امیر البحر کی حیثیت سے خیر الدین پاشا خضر بار بروسہ کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس نے عثمانی بحریہ میں نئے جنگی جہاز شامل کیے اور ملاحوں کی تربیت اور بھرتی کا عمل اپنی نگرانی میں انجام دیا۔ عثمانی بحری افواج کو لے کر سب سے پہلے اس نے اٹلی کی مقبوضات پر حملے کیے اور کئی جزیرے عثمانی حدود میں شامل کرائے۔ 1534 ء میں اس نے تیونس پر قبضہ کرلیا اور وہاں کا حکمران مولائے حسن فرار ہوگیا۔ 1535 ء میں یورپ کا شہنشاہ چارلس پنجم جو چارلس اول کے نام سے ہسپانیہ کا بادشاہ تھا پاپ پال سوم کی ہدایت پر مشہور یورپی امیر البحر اینڈریو ڈوریا کو ساتھ لے کر تیونس پر حملہ آور ہوگیا۔ یہ حملہ ایک ماہ تک چلا۔ بار بروسہ کو یہاں شکست ہوگئی اور تیونس کا حکمران دوبارہ مولائے حسن بن گیا، مگر اس دفعہ وہ چارلس کا باجگزار تھا۔
تیونس کی شکست کے بعد خیر الدین بار بروسہ نے عثمانی بحریہ کو مزید طاقتور کیا اور جدید جہازوں کے ساتھ وینس کے جزائر پر حملہ آور ہوگیا۔ یہاں زبردست کامیابی اس کا مقدر بنی اور وینس کی حکومت جو سلطنت عثمانیہ کیلئے مستقل درد سر بنی رہتی تھی اپنی اکثر مقبوضات گنوا بیٹھی۔
جنگِ پرپویزا 1538 ء :
بطور عثمانی امیر البحر جنگ پر یویزا خیر الدین بار بروسہ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ 1538 ء میں پاپ پال سوم نے ایک دفعہ پھر عیسائی اتحاد تشکیل دیا جس میں ہسپانیہ یا اسپین، رومی سلطنت ، وینس، مالٹا اور کئی دوسرے عیسائی جہاز ران شامل تھے۔جن کی قیادت اینڈریو ڈوریا کر رہا تھا عثمانی مقبوضات پر حملہ آور ہوگیا۔ اس مشترکہ یورپی افواج کا خیرالدین پاشا بار بروسہ کی قیادت میں عثمانی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عیسائی افواج کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ جنگ پریویزا عثمانی فتوحات میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بعد سلیمان عالیشان ایک عظیم حکمران کے طور پر سامنے آیا جس کی بالا دستی بحریہ روم میں مکمل طور پر قائم ہوگئی تھی۔ جنگ پریویزا خیر الدین باربروسہ کے سنہری کارناموں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔
جنگ پریویزا کے بعد پار بروسہ نے وینس کے مزید علاقوں کا رُخ کیا۔ یہ دیکھ کر وینس کا بادشاہ گھبرا گیا اور 1540 ء میں شاہ وینس اور سلطان سلیمان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا۔ 1544 ء میں بار بروسہ نے اسپین اور اٹلی کے مشترکہ بیڑے کو دوبارہ شکست دی۔ یہاں تک کہ اس سال چارلس پنجم جو یورپ کا مشترکہ شہنشاہ تھا سلطان سلیمان سے صلح کے معاہدے پر مجبور ہوگیا۔
(دراصل یورپی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک علامتی شہنشاہیت تشکیل دی تھی۔ جس کا سربراہ یورپ کا علامتی شہنشاہ تصور کیا جاتا تھا اور اس کا انتخاب ایک کونسل کرتی تھی۔ بار بروسہ کے وقت یہ شہنشاہ چارلس پنجم تھا جو اصل میں اسپین کے حکمران فرینڈیڈ اور ازابیلہ کا نواسہ تھا اور اسپین کے تخت پر چارلس اول کے لقب سے براجمان تھا۔)
اس طرح چارلس پنجم کا سلطان سلیمان سے امن معاہدے پر مجبور ہوجانا سلطان سلمان کو دیگر عثمانی سلاطین سے نمایاں مقام عطا کرتا ہے اور اسی وجہ سے سلطان سلیمان کو سلیمان عالیشان یا Suleman The Magnificient کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مقام کو حاصل کرنے میں سلطان کے امیر البحر خیر الدین پاشا بار بروسہ کا بھی کردار ہے۔
خیر الدین پاشا بار بروسہ کا اسپین پر حملہ:
سقوط غرناطہ کے بعد اسپین کے مسلمانوں کا دردناک انداز سے انخلا ایک المناک داستان ہے۔ اس انخلا میں باربروسہ نے براہِ راست حصہ لیا تھا اور اپنے جہازوں میں مہاجرین کی المناک داستانیں سنی تھیں۔ اس بات پر وہ دلگرفتہ تھا اور طاقت حاصل ہونے کے بعد اس نے اسپین پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اسے دوبارہ اسلامی سلطنت کا حصہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طارق بن زیاد کے آٹھ سو سال اور سقوطِ غرناطہ کے پچاس سال بعد دوبارہ مسلمانوں کی فوج جبل الطارق یا جبرالٹر کے ساحل پر اتری تھی اور اسپین پر حملہ آور ہوئی تھی۔ مگر اسپین پر یہ حملہ ناکام ہوااور خیر الدین پاشا بار بروسہ کو واپس استنبول جانا پڑا۔
وفات:
1544 ء میں مشترکہ یورپی افواج کو شکست دینے اور جبل الطارق پر ناکام حملے کے بعد خیر الدین پاشا بار بروسہ بطور امیر البحر سبکدوش ہوگیا۔ اس سے پہلے وہ اپنے کئی شاگردوں کو عثمانی بحریہ کے لیے تیار کرچکا تھا جن میں سرفہرست اس کا نائب حسن آغا تھا جو اس کے بعد امیر البحر نامزد ہوا۔ حسن آغا کے علاوہ بار بروسہ کے نمایاں شاگردوں میں سدی علی رئیس، پیری رئیس اور پیالے پاشا شامل ہیں۔
مختصر یہ کہ بار بروسہ اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک طویل فہرست چھوڑگیا اور ایک ایسی بحریہ قائم کرگیا کہ جس کے باعث صدیوں تک عثمانی جھنڈا بحریہ روم کے پانیوں میں لہراتا رہا۔
1546 ء میں بار بروسہ کا انتقال استنبول میں ہوا اور آبنائے باسفورس کے کنارے اس کا مقبرہ قائم کیا گیا۔ آج بھی ترک بحریہ کا ہر جہاز آبنائے باسفورس سے گزرتے وقت امیر البحر خیر الدین پاشا بار بروسہ کے مزار کی طرف سلامی دیتا ہوا گزرتا ہے۔
واہ عدیل بھائی ایک تاریخ کے بھولے بستے گوشے اور دوسرے آپکا انداز ۔۔ماشاء اللہ ۔۔
خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔
ھمیشہ کی طرح بہت اعلی تحریر
Maashallah
Is Ke alawa rukn Ul din bibras ki history b send karey
شکریہ
it’s a very intersting history
…….👍🏻well Adeel Bhai
اعجاز صاحب!
سلطان رکن الدین بیبرس کی تاریخ جسارت بلاگ کی اسی ویب سائٹ پر موجود ہے