رشتوں کی ٹوٹتی ہوئی ڈور

وہ شدت سے رو رہی تھی۔اُس کی کانپتی آواز اور سسکیاں میری روح کو چھلنی کر رہی تھی۔میں باوجود اپنی پوری کوشش کہ اُسے مطمئن کرنے میں ناکام تھی۔بات ہی کچھ ایسی تھی جس نے اُس کی زندگی تباہ کردی تھی۔محض ذاتی انا اور ایک فیصلے نے اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے پورے خاندان کو بھی اذیت کا شکار کردیا تھا۔کافی کوشش کہ بعد اُسے چپ کرایا اور دعائیں اور تسلیاں دینے کے بعد جلد ملنے کا وعدہ بھی کیا۔فون رکھنے کے ساتھ ہی ایک تلاطم تھا جو میرے اندر ہچکولے کھا رہا تھا۔میں نے تاسف سے اپنے سر کو جھٹکا کیونکہ گوری رنگت اورمناسب قد کاٹھ نہ ہونے کے سبب رشتوں سے ٹھکرائے جانے والی لڑکیوں میں ایک اور سزا یافتہ لڑکی کا اضافہ ہوگیا تھا۔

پہلی بار میرا قلم مجھے بہت بھاری معلوم ہورہا ہے اور دماغ میں ایک طوفان سا چل رہا ہے۔ ان معصوم ٹوٹے پھوٹے چہروں اور روحوں کے بارے میں سوچتے ہوۓ دل کانپ جاتا ہے۔ نہ جانے کب ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ جو زخم آج ہم ان کو دے رہے ہیں وہ کل ہماری چوکھٹ پر ہمارا منتظر ہوگا۔ مسترد کیے جانے کا زخم، کبھی گوری رنگت نہ ہونے کی وجہ سے تو کبھی چھوٹے قد کی وجہ سے۔ کبھی موٹے جسم کی وجہ سے تو کبھی اعلیٰ معیار زندگی سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے۔ مگر مسترد کرنے والوں نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ سب تو انسان کے بس میں کبھی تھا ہی نہیں! اس صورتحال نے ہمارے معاشرے کو ایک عجیب دوڑ کا حصہ بنا دیا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم حصہ جس کو ہماری کل کی نسل کو پروان چڑھانا ہے، وہ سب کچھ بھول کر نت نئے فلٹرز اور بیوٹی کریمز کی نظر ہو گئ ہیں۔

ان حالات کے دو پہلو ہیں۔ ایک طرف تو نہ صرف ہماری بیٹیوں سے خود اعتمادی اور خود اطمینانی چھینی گئ بلکہ بار بار مسترد ہونے سے ان کی عزت نفس بری طرح مجروح ہو کر رہ گئی ہے۔ اپنے بیٹے کے لئے لڑکی کی تلاش میں ہر دوسرے گھر کا رُخ کرنا ماؤں کا معمول بن چکا ہے ۔ لڑکی کے ہاتھوں سے تیار کردہ انواع و اقسام کے کھانوں سے مہکتے گھر اور اس میں بسنے والے پر امید لوگوں میں سو کیڑے نکالنا۔ اور اگلے دن کسی اور کے احساسات کا قتل کرنے پہنچ جانا۔ اس تکلیف کو ایک لڑکی اور اُس کے گھر والوں سے زیادہ کون جان سکتا ہے جنہوں نے اس روز لڑکے والوں کی نظر میں ایک مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔

خوبصورتی کے معیار پر پورا اترنے والی بہو کی تلاش نے ماؤں کو یہ بات بھلا دی ہے کہ اس عظیم رشتہ کی بنیاد یہ تو تھی ہی نہیں!! آج سے کچھ عرصہ قبل خواتین کے لیے اپنی بہو کی تعلیم و تربیت سب سے زیادہ اہم تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ تربیت وہ واحد چیز ہے جس سے ان کے بیٹے کا مکان “گھر” کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ تربیت کو زیور سمجھنے والی ماؤں کے گھر ہمیشہ جنت کا عملی نمونہ رہے۔آج کل چار دن گزرتے نہیں ہیں اور ساس کو اس خوبصورت نقوش والی لڑکی کی تربیت میں ہزار نقص نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ چند دن مزید گزرتے ہیں اور کچھ ننھی جانیں اس دنیا میں قدم رکھتی ہیں۔جب ان کی تربیت کا وقت آتا ہے تو وہی دادی سر پکڑے بیٹھی ہوتی ہیں کہ بہو محترمہ سواۓ ادائیں دکھانے کے اور کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں ۔ اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لڑکیاں جو سب کچھ کرنے کی اہلیت رکھتی تھیں، عقل و شعور کی پیکر تھیں، حیا کا دامن تھامے ہوئے تھیں مگر خوبصورتی کے اس معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں جو آپ کو مطلوب تھا ۔ ان کو مسترد کرنے والا کون تھا؟؟؟

ان کی خوبیوں کو انہی کی نظر میں ایک سوالیہ نشان بنانے والا کون تھا؟؟؟

ان کے احساسات کو روندنے والا کون تھا؟؟؟

ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے والا کون تھا؟؟؟

اس سب تماشے کو مہمیز دینے کیلئے ہمارے ڈرامے اور مارننگ شوز اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ روز صبح ایک نیا تماشہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں ایک میک اپ آرٹسٹ ایک محترمہ کے نقوش “اپنے تئیں” بہتر کرنے کی یا سنوارنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں لمبی تان کر سوتی نظر آتی ہیں۔ اس وقت کسی کو اس معصوم ذہن کا خیال نہیں آتا جس کی ذہن سازی یہ سب دیکھ کر ہو رہی ہے۔ جو شادی شدہ زندگی کو اسی زاویے سے دیکھنا شروع کر دے گی جو اسے ان ڈراموں اور scripted مورننگ شوز میں دکھایا جاتا ہے۔

ہمارے ڈرامے جنہیں ہماری معاشرتی و ثقافتی اقدار و روایات کا پیش خیمہ ہونے چاہیے تھے، آج سواۓ ہر رشتے کے عزت و وقار کی دھجیاں بکھیرنے کے علاؤہ کچھ خاص کرتے نظر نہیں آتے۔ کبھی کوئی ایک امیر لڑکا ایک متوسط طبقے کی لڑکی کے حسن میں دیوانہ ہو کر اپنا گھر بار سب کچھ ہارنے کے لئے تیار دکھائی دیتا ہے تو کبھی ایک معصوم لڑکی کسی کے پیار میں گرفتار ہو کے اپنا سب کچھ ہارتی دکھائی دیتی ہے۔یہ ساری بے راہ روی معاشرے کو ایک ایسی جانب لے کے جارہی ہے جہاں رشتوں کے تقدس پامال ہورہے ہیں۔معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی عمارت لرزہ براندام ہوتی جارہی ہے۔

ابھی بھی وقت باقی ہے کہ ہم اپنے رویوں کی اصلاح کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں خاندانی نظام مضبوط ہو۔جہاں دلوں میں محبت کی بنیاد اخلاص پہ مبنی تعلقات ہوں۔جہاں تربیت کو ہر چیز پہ فوقیت دے کر نفسیاتی امراض اور لڑائی جھگڑوں سے ایک دوسرے کو محفوظ کیا جائے۔ذرا سی بد احتیاطی سے اچھے اچھے خاندان بکھر جاتے ہیں۔زندگیوں کے سکون کی جگہ صرف بے آرامی رہ جاتی ہے۔آئیے ایک ایسے معاشرے کو جنم دیں جہاں ہم ڈرامائی زندگیوں سے باہر نکل کے حقیقی دنیا کو خوبصورت بنانے کے لئے اپنی طرف سے محبت کے رنگوں کا اضافہ کریں۔

حصہ

4 تبصرے

  1. کمال لکھا ہے ماشاءاللہ۔معاشرے کی اصلاح کے لیے اچھی کاوش ہے۔

  2. اسلامو علیکم! بہت عمدہ تحریر ہے ۔۔۔۔ معاششرے کے انتہائی نازک اور سنجیدہ پہلو پر خوبصورت اور پر اثر انداز سے قلم اٹھایا ہے۔۔۔۔اللہ آپ کے ہنر میں اضافہ کرے اور آپ معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیتی رہیں۔۔۔۔۔!!

  3. . …….. Assalamu alikum buht umda tehrer h…mashry ky intihai nazuk aur sanjeda pehlo pr buht khubsurat aur pur asr andaz sy qalm uthaya h…ALLAH app ky hunr me izafa kry aur app mashry ki islah ka kam injam deti rahn..

جواب چھوڑ دیں