سلیکشن 2018ء

مجھے امید ہے، کہ لوگ یہ دن یاد رکھیں گے۔ ہر موقع پر یاد رکھیں گے۔
یہ دن تب بھی یاد رکھیں گے جب اخلاقی پستی کا سڑکوں پر مظاہرہ ہوگا۔
جب تعلیمی ادارے طلبہ و طالبات سے خالی رہ جائیں گے۔
بھوک پیاس سے نڈھال جب لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔
جب انصاف کی تلاش میں ہر ایوان کے در سے ٹھکرائے جائیں گے۔
لوگ یہ دن تب بھی یاد رکھیں گے جب آستین کے سانپ ان کے اپنے گھروں میں پائے جائیں گے۔
جب برائے نام اسلامی ملک کو امریکہ جیسی ریاست بنا دیا جائے گا۔
یہ دن تب بھی یاد رکھیں گے جب خودکشی کی شرح بڑھے گی۔ مہنگائی کا دور آئے گا۔
جب قانون بدلے جائیں گے اور اسلامی اصطلاحات چْن چْن کر نکالی جائیں گی۔
یہ دن تب بھی یاد رکھیں گے جب ختمِ نبوت کا قانون چھیڑا جائے گا۔
جب ان فضاؤں میں، دشمن دندناتا ہوا آزاد پھرے گا۔
یہ دن ہر موقع پر یاد رکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسی اسکول میں رسہ کشی کا کھیل نہیں تھا، کہ جہاں طاقتور دیکھو، اسی طرف ہو جاؤ۔
یہ تو اپنے گھر کا سربراہ چننے کا سوال تھا۔ بہت کم لوگ اس سوال کو پہچان پائے۔ باقی تو سوال پڑھنے سے قاصر تھے۔ آنکھیں بند کر کے جس جواب پر انگلی آگئی، وہی ٹھیک سمجھ لیا۔ اور اب کہتے پھر رہے ہیں، نَصر مِّنَ اللّہِ وَفَتح قَریب۔
عوام کو اس سے کیا لینا دینا کہ ایوان میں کیا صورتِ حال ہو گی۔ ان سے کس نے اجازت لینی ہے اسلامی جمہوریت کو تبدیل کرنے کی۔ ان کو کیا فرق پڑتا ہے کہ جامعات، اسکول و کالج سے لے کر سڑکوں تک مرد و زن کا اختلاط ہو۔ عوام کو کیا غرض کہ صوم و صلاۃ کو انفرادی معاملہ قرار دے دیا جائے۔ ان کو کیا فکر کہ دین کو اپنے فتاویٰ اور اپنی خواہشاتِ نفس کے مطابق نئے رنگ میں ڈھال دیا جائے۔ فوج کو سلامی دینے والے کس قدر معصوم ہیں۔ یہ عوام نہیں جانتی کہ سرحدوں کے محافظ جب سرحد کے اندر ہی پہرہ دینے لگیں، تو تاریخ کا کون سا سیاہ باب پلٹتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا سستا سودا کیا ہے پیاری دھرتی کا۔ کل پاکستان کو ہر جگہ درد ہوا ہے۔ سانسیں اکھڑی ہیں میرے وطن کی۔ کٹے ہوئے بازو کا زخم پھر سے ہرا ہو گیا ہے۔ شہہ رگ میں خون کی گردش رک سی گئی ہے۔ چشمِ فلک نے ایک باب تاریخ بنانے والوں کا دیکھا اور اب تاریخ مٹانے والوں کا دیکھا ہے۔
کتنا سستا سودا کیا ہے دین و ایمان کا۔ سیاست کو دین سے الگ کر دینا کتنی بڑی کامیابی ہے۔ مدینہ جیسی ریاست بنانے کے چکر میں ملک کی ڈور ایسے لوگوں کے حوالے کر بیٹھے جو شاز و نادر جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جن کو شاید ہی کوئی سورۃ آتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم، جماعتِ اسلامی کے کارکنان، جمعیت کے کارکنان، الخدمت، آغوش، جے آئی یوتھ کے ذمہ داران۔ ہمارا کام نہیں بدلا۔ ہم نے تو پھر نکلنا ہے۔ اسی عوام کو سینے سے لگانا ہے۔ ہم تو رضاکار، بے لوث خدمت گار ہیں۔ ہم تو گہری تاریکی کے پیچھے چھپی امید کی کرن ہیں۔ فتح کی کرن ہیں۔ ہم تو ازل سے دلوں پر راج کرتے آئے ہیں۔ ہمیں تو اسی عوام کے حقوق کے لیے پھر سے نئی جنگ شروع کرنی ہے۔ جیتنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم انقلابی خاموش ہو جائیں گے۔ اب تو ہمارے الفاظ و افعال مزید مضبوط ہوں گے۔
کرسی جیتنے والوں کی کیا مجال کہ واپس نیچے اتر کر عوام کے برابر کھڑے ہوں۔ دکھ اسی بات کا ہے کہ انسانیت کے نفرت اور بے رحمی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ہار پہنا دیا گیا۔ غم اس حقیقت کا ہے کہ کرسی دلوانے کے بعد فوج کا اگلا قدم اس کرسی پر خود براجمان ہونا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم حکومت کے بگڑتے تیور بہت پہلے بھانپ چکے تھے۔ محافظوں کی چال سمجھ چکے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس شطرنج کے کھلاڑی کون ہیں اور تماشائی کون۔ یہ انسانوں کے بھیس میں خونخوار درندے ہیں۔ ان کے پنجے زمین میں اس قدر گہرے گاڑے گئے ہیں کہ آباؤاجداد کا خون رس رہا ہے۔ جل رہا ہے۔
وہ سارے وعدے، نوکریوں کے، مدینہ جیسی ریاست کے، روپیہ کی قیمت بڑھانے کے، عافیہ بہن کو واپس لانے کے، وہ سب تو کرسی حاصل کرنے کے لالچ میں دکھائے تھے۔ جو شخص اپنے ہی بندوں پر اعتماد کر کے ایک شوریٰ کا نظام نہیں بنا سکتا، وہ کیا خاک ملک چلانے کا اہل ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اقبال، تجھ سے شرمندہ ہوں۔ تیری قبر روئی ہے، تجھے تکلیف پہنچی ہے۔ تیری بنائی ہوئی تصویر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ایک بازو پہلے کٹا تھا، پھر شہہ رگ کا لہو جم گیا اور اب سارا بدن جل رہا ہے۔
اے اقبال، تیرے لکھے ہوئے شکوے آج حقیقت بن گئے۔ وہ ستاروں کی تنک تابی کا دور ابھی بہت دور ہے۔ ابھی تو تیرے نوجوانِ مسلم کو کرگس کی صحبت میں دے کر فکر و ذکرِ باطل میں مست رکھ دیا گیا ہے۔ تیرے شاہین کو مزاجِ خانقاہی میں پختہ تر کر دیا گیا ہے۔
اے اقبال، ابھی وہ صبح نہیں ابھری، ابھی چمن میں بہار نہیں آئی۔ ابھی خزاں کا دور ہے۔
مگر اے اقبال، تجھ سے وعدہ ہے۔ ایمان کی حرارت والے ابھی بیدار ہیں۔ شاہین ایک بازو پر ہی سہی، مگر بہت بلند پرواز کرے گا۔ اْفق سے آفتاب تبھی ابھرے گا، جب تیرے نوجوان سورج کی پہلی کرن بن کر ظلمت کا سینہ چیر کر رکھ دیں گے۔ ان شاء اللہ۔اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے، فزوں تر ہے وہ نظارا !

حصہ

1 تبصرہ

  1. انشاء اللہ، آپ کو اپنے لفظوں پر پشیمانی ہوگی، پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بن کر ابھرے گا۔ انشاء اللہ

جواب چھوڑ دیں