غریب کی تھالی میں پلاؤآگیا ہے

غریب کی تھالی میں پلاؤآگیا ہے
لگتا ہے شہر میں چناؤآگیا ہے

ابھی کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر اس شعر کا نظروں سے گزر ہوا تو پڑھ کہ لگا کہ اس شعر میں کس قدر مکمل طریقے سے چنا ؤ کو بیان کیا گیا ہے۔ چناؤ کا دور کسی بوڑھے کی جوانی کے دور کی طرح ہوتا ہے۔ بہت پر مسرت جوانی، پرآسائش جوانی ، پر جوش جوانی اور اس جوش میں کئے گئے جذباتی فیصلے اور پھر جوں ہی جوانی ڈھلتی ہے اور قدم بڑھاپے کی دہلیز پر پڑتے ہیں تو اپنے سب ہی فصلے یاد آنے لگتے ہیں اور پھر بوڑھا دماغ یہ سوچتا ہے کہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے کہ میں چکا چوندمیں آگیا اور چمکنے والی چیز کو سونا سمجھ بیٹھا۔
آج ہر غریب کی تھالی میں پلاؤ ہے، ہر چیز چمک رہی ہے، ہر ایک فرد معزز ہوگیا ہے۔ جس غریب کی حیثیت کسی ذرّے سے کم نہ تھی اب وہ ہی ذرّہ ریت پہ چمکتے سونے کی طرح ہوگیا ہے۔ یہاں جہاں انصاف کا بڑے دھوم سے جنازہ نکلتا رہا ہے وہاں اب انصاف کے دعوے ہو رہے ہیں۔ واہ رے چناؤتیرا پلاؤ بہت لذیذ ہے!
کیا فائدہ ایسی مٹھاس کا جس کا ذائقہ بدل کر زہر ہوجائے۔ چناؤ کا دور جوانی ہے، ڈھل جائے گا۔ اس کے بعد آئے گابڑھاپا اور یہ وہ چیز ہے جو نہ ڈھلتی ہے اور نہ ہی ٹلتی ہے۔ یہ تو انسان کی جان لے کر ہی جاتی ہے۔تو اس چند دن کی جوانی کے مکر و فریب میں آکر وہ فیصلہ نہ کرنا جس کا نہ ختم ہونے والے بڑھاپے میں شدید افسوس ہو۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں