انتخابات کے قریب آتے ہیں ایک طرف تو انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں نے بھی کارروائیاں تیز کردیں ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور اتحاد اپنے اپنے منشور کے ساتھ جلسوں اور جلوسوں میں بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ ان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سب سے زیادہ پرجوش اور فتح کی امید کے نشے میں سرشار نظر آتے ہیں اور اس نشے میں وہ اپنی زبان سے کیا بول جاتے ہیں شاید انہیں بھی خبر نہیں ہوتی۔ دوسروں پر تنقید ان کا حق ہے لیکن بدکلامی اور بد تہذیبی کا حق انہیں نہیں دیا گیا۔ وہ جوش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایسے الفاظ کس کے خلاف استعمال کر رہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ لیکن انہیں جس کامیابی کا یقین دلایا گیا ہے یا ہو چلا ہے وہ اس خوش فہمی میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔
ایک ایسا شخص جو فیصلہ سازی کی قوت سے محروم ہو اورایک صوبے کی وزارت اعلی کا فیصلہ نہ کرپائے، جو جوش خطابت میں ہوش میں نہ رہے، جو بد اخلاقی میں تمام حدیں عبور کر جائے کیا ایسے شخص کو پاکستان جیسے حساس ملک کی قیادت سونپی جاسکتی ہے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر اس سنجیدہ شخص کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں جو پاکستان کے حالات اور مستقبل پر نظر رکھتا ہو۔ لیکن جو لوگ عمران کے جنونی انداز اور دعووں کے سحر میں کھو گئے ہیں ان کا بھی حال اپنے قائد سے مختلف نہیں۔ سوشل میڈیا پر بدتہذیب پوسٹ کو سرعام کرنے میں تحریک انصاف کے حامیوں کا جنتا حصہ ہے شاید اس کار خیر میں ان کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ بات تو ماننی پڑے گی اگر ان شرمناک پوسٹ پر توجہ دلائی جائے توانصافین اس پر غصے میں لال پیلا ہو کر اور بھی بری پوسٹ لگانا شروع کردیتے ہیں اور توجہ دلانے والے پر ایسی لعن طعن کریں گے کہ جیسے اس نے اس صدی کا بہت بڑا جرم کردیا ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ انتخابات کے قریب آتے ہی اور بھی زور پکڑ گیا ہے اور تحریک انصاف کے یہ شاہین اخلاق سے گری اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والی پوسٹ کر کے اس پرداد و تحسین کے خوب ڈونگرے بھی بجاتے ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مخالفین کی کرتوتوں سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔ ایسی قیادت اور ایسے فالوورز کو لوگ ووٹ کیوں دیں؟پی پی پی اور مسلم لیگ کے بعد کیا ان سے بہتر کوئی اور آپشن عوام کے پاس نہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بھی لوگوں کھے ذہن کی آبیاری اسی طرح کر رہا ہے کہ عمران کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں جو ان پارٹیوں کی جگہ لے لے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مالی کرپشن میں ملوث ان پارٹیوں کے رہنماوں کے بے نقاب ہونے کے بعد اخلاقی کرپشن میں ملوث شخص کو عوام کے سروں پر کیوں مسلط کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے؟
یہ اس سے بہتر آپشن ہے اور وہ ہے متحدہ مجلس عمل۔ لوگوں کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ یہ لوگ ایماندار بھی ہیں اور باصلاحیت بھی لیکن انہوں نے جیتنا تو ہے نہیں پھر انہیں ووٹ کیوں دیں۔ تو جناب اگر ہر ووٹر فیصلہ کرلے کہ وہ ووٹ دے گا تو ان کے امیدوار کیوں نہیں جیتیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑے ٹی وی چینل بھی عوام میں یہی تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ اصل مقابلہ تو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کا ہے اسی لیے وہ جب کسی بھی حلقے کا ذکر کرتے ہیں تو انہی تین پارٹیوں کے امیدواروں کو ان کے انتخابی نشان کے ساتھ نمایاں کرکے دکھاتے ہیں جس سے لوگوں کے ذہنوں میں کسی اور پارٹی خیال تک بھی نہیں آتا۔ الیکشن کمیشن کے مساوی کوریج کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور ساری کوریج ان تین پارٹیوں کے گرد گھوم رہی ہے جبکہ ان پارٹیوں کے اشتہارات بھی بار بار دکھائے جارہے ہیں ظاہر ہے ملک کی ہر قسم کے مافیا انہی پارٹیوں کی چھتریوں تلے پناہ لیے ہوئے ہے، اس لیے ان کے دولت کی بھی کمی نہیں۔
ایسے ماحول میں جہاں میڈیا انہیں پارٹیوں کے گن گا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر ایک تماشا بدتمیزی برپا ہو متحدہ مجلس عمل کا مہم چلانا ہی بڑی کامیابی ہے۔ وسائل کی کمی اور میڈیا کوریج کی کمی کے باوجود ایم ایم اے کیا پیغام لوگوں کے ذہنوں کو اپیل کر رہا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں اپنی تقدیر کی کنجی کس کے ہاتھ میں دینی ہے۔ ان الیکٹیبلز کے ہاتھ میں جو لوٹے بن کرعمران کی چھتری کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں یا پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں جن کا دامن ہر کرپشن سے پاک ہے اور جنہوں نے ہرمشکل گھڑی میں وطن کی آبیاری اپنے خون سے کی ہے۔ جن کو جب بھی موقع ملا تو انہوں نے ملک میں ایمانداری اور دیانتداری کے شاندار مثال قائم کی۔ لوگوں کے مسائل کو حل کیا۔
مجھے خدشہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت آگئی تو ملک اخلاقی کرپشن کا شکار ہوجائے گا جہاں نہ کسی کی عزت کی ہوگی اور نہ کسی کا احترام سب اخلاقی پستی کے اس سونامی میں بہہ جائے گا۔ ملک مالی کرپشن تو 70 سال سے برداشت کر رہا تھا لیکن اخلاقی کرپشن کو شاید ایک سال بھی برداشت نہ کرسکے اس لیے کہ اللہ تعالی حضرت نوحؑ کی قوم سے لیکرجتنی بھی قومیں تباہ کیں ان میں سے زیادہ تر کی تباہی کی وجہ اخلاقی پستی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیکر ہم اس مرض کو ملک پر مسلط کرنے کا باعث بن جائیں۔