پانی نہیں آرہا ، تنخواہ نہیں بڑھ رہی ، نوکری نہیں مل رہی ، بجلی نہیں ہے ، گھر سے باہر نکلتے ہیں تو سڑکیں ٹوٹی ہو ئی ہیں ، گٹر ابل رہے ہیں ، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں ، نہ تعلیم اچھی مل رہی ہے نہ ہی صحت کی بہتر سہولتیں موجود ہیں ۔۔مگر پھر بھی ووٹ اپنے لیڈر کو ہی دینا ہے ۔۔ اقتدار میں اپنی پارٹی کو ہی لانا ہے ۔۔ ہمیں منزل نہیں رہنما ہی چاہیے ۔۔ بھٹو کے نام کو زندہ رکھنا ہے ۔۔ شیر کو آگے لانا ہے ۔۔ نیا پاکستان بنا نا ہے ۔۔۔ وہ تو سب ٹھیک ہے مگر یہ تو بتائو ان سب نعروں کے ذریعے کیا تمھارے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکے ہیں ۔۔ کیا علاج کی بہتر سہولتیں مل رہی ہیں ۔۔ کیا تمھاری گلیاں صاف ہوگئی ہیں ۔۔ کیا نلکو ں میں پانی آرہا ہے ۔۔ کیا بجلی ہر وقت موجود ہے ۔۔ کیا معاشرے سے جرائم ختم ہو گئے ہیں ۔۔ کیا مظلوموں کو انصاف مل گیا ہے ۔۔
اگر ان سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو پھر اپنی پارٹی اور اپنا لیڈر کیوں کرتے ہو ۔۔ انتخاب سے پہلے احتساب کیوں نہیں کرتے ۔۔ کیوں اسلام سے پہلے کے دور کی یادیں تازہ کراتے ہو کہ اگر ایک صادق اور امین دعوت دے رہا ہے تو اس پر ایمان نہیں لا ئیں گے ۔۔ جو ا، بھی کھیلیں گے لڑکیوں کو قتل بھی کریں گے ۔۔ غریبوں کا مال بھی ہڑپ کر جائیں گے ۔۔ مگر ساتھ ابو جہل کا ہی دیں گے ۔۔۔
جن مکانوں کو خریدنے کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ان کوٹھیوں اور بنگلوں کی قیمتیں یہ لوگ 120 گز کے مکان کی قیمت سے بھی کم بتا تے ہیں ۔۔ کیا تم جانتے ہو ان لوگوں کی اوطاقوں میں لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے ،کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں کو مکمل معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ۔ گائوں دیہاتوں میں رہنے والے تمھارے جیسے سادہ لوح لوگوں کو پڑھنے بھی نہیں دیا جاتا ، ان کے ہاں سوال نہیں کیا جا سکتا ،صرف حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ۔ کسی وڈیرے جاگیردار کے کھیتوں کی طرف جانے والے ندی نالوں سے پانی نکالنے والوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ ۔لوگوں کی جوان لڑکیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے ۔۔ مگر تم یقین نہیں کروگے کہ ان لوگوں کو انصاف ملنا دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے ۔۔ مگر کبھی پورا نہیں ہوسکتا ۔۔
کیا کبھی تم نے سوچا کہ تمھارے ووٹوں سے اقتدار میں جانے والوں کے اثاثے کتنے ہیں ۔۔۔ کیا کبھی سوچا کہ ان سیاستدانوں کے بچے کہاں پڑھتے ہیں ۔۔۔ کیا کبھی سوچا کہ ان کے بچے چھٹیاں منانے کے لیے یورپ امریکا جاتے ہیں ۔۔ کیا کبھی سوچا کہ اگر یہ لوگ بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے لندن امریکا کیوں جاتے ہیں ۔۔۔۔اگر نہیں سوچا تو پھر آج سوچ لیجئے کہ ایسا کیوں ہے ۔۔ کیا ہم سب ذہنی غلام ہیں ۔۔ کیا ہم دور جاہلیت میں جی رہے ہیں ۔۔۔ کیا ہمارے بچوں کو جینے کا حق نہیں ہے ۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمھاری سڑکیں بھی کشادہ ہوں اور تمھارے گھروں کے باہر صفائی کے انتظامات بھی بہتر ہوں ۔۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارے بچے بھی اعلی اور معیاری تعلیم حاصل کرسکیں ۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ملک میں بھی بہترین اسپتال ہوں ۔۔
اگر یہ سب چاہتے ہو تو پھر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا سیکھو ۔۔ انتخاب سے پہلے احتساب کرنا سیکھو ۔۔ فیصلہ کرلو کہ کون ہمارے حق میں بہتر ہے اور کون نہیں ۔۔۔ کو ن ہے جو ہمارے لیے لڑنا چاہتا ہے ۔۔ کون ہے جو ہمارے لیے جینا چاہتا ہے ۔۔ کیا تم چا ہتے ہو کہ تم میں سے کوئی ایسا شخص تم پر حکومت کرے ، جو تمہارے جیسا ہو ۔۔ جس کے بچے بھی تمھارے بچوں کی طرح گلیوں میں کھیلتے کودتے ہوں ۔۔ جس کے بچے بھی تمہارے بچوں کے جیسے اسکولوں میں پڑھتے ہوں ۔۔ جو اپنے علاج کے لیے لندن امریکا جانے کے بجائے اسی ملک میں علاج کرانے کو ترجیح دیتا ہو ۔۔
اگر چاہتے ہو کہ ملک کا نظام بدلے تو پھر اٹھو اپنے حق کے لیے ۔۔ اور جیو اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ۔۔ پھر سوچنا کیسا کر دو فیصلہ ۔۔ بدل دو نظام کو ۔۔ اپنے ووٹ کے صحیح استعمال سے بدل ڈالو اپنا کل ۔۔۔اگر ووٹ کا استعمال صحیح نہیں کرتے تو پھر سوال کرو اور اس کا جواب خود تلاش کرو۔۔ کیا ہم دور جاہلیت میں جی رہے ہیں ۔۔۔؟
ملک کی تعمیر وترقی کے لیے ہمیشہ دیانت دار قیادت کو ترجیح دیں ۔۔تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہوسکے ۔۔۔