انسان بنانا ہے ۔۔

ملک اور دنیا کے موجودہ نظام سیاست و  معیشت و حکومت اور حالات حاضرہ پر جب بھی کچھ لکھنا چاہتے ہیں الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔’مابعد جدیدیت ‘نے لفظوں سے اُن کے مفاہیم تک چھین لیے ہیں اور معروف اصطلاحوں کے غلط استعمال نے اُن کے صحیح استعمال کو بے معنی بنا دیا ہے ۔لیکن کیا کریں کہ لکھنا ہماری مجبوری ہے ۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم وقتی طور  پر اور تھوڑی دیر ہی کے لیے  سہی  ’تشفی جذبات‘ (کیتھارسس) تو ہو ہی جاتی ہے اور ’انفجار جذبات ‘سے تحفظ کے ساتھ ساتھ شاید کچھ ’فریضہ بندگی ‘اور’ فرض منصبی ‘بھی ادا ہو جاتا ہو ۔

شاد عظیم آبادی کا یہ شعر تو زباں زد عام و خاص ہے کہ :

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی ۔۔جو بڑھ کے خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے !

اور اقبال کے اس شعر کی بنیاد پر تو انہیں مارکسیت کا علم بردار تک قرار دے ڈالا گیا تھا کہ :

جس کھیت سے دہقاں کو مئیسر نہ ہو روٹی ۔۔اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

 اور یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر تو  شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ :

خواہ پیالہ ہو یا نوالہ ہو ۔۔بن پڑے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگ

 لیکن اصل معاملہ ، بس وہ ہے جسے نعیم صدیقی نے اس طرح شعر کی زبان دے دی ہے کہ:

دانش کے پجاری کو ،خواہش کے جواری کو ۔۔دولت کے پجاری کو انسان بنانا ہے

چند سال پہلے کنڑ زبان کے شاعر ’کو وِمؔپُو ‘(KOVeMPU1904.1994) کو بعد از مرگ  کنڑ زبان و ادب کا گیان پیٹھ ایوارڈ ملا تھا۔انہیں بعض اسکالر کنڑ زبان کا اقبال مانتے ہیں ۔ ۱۴ مارچ ۲۰۱۸ کے  ہفت روزہ  ہماری زبان  دلی میں نوائے ادب ممبئی اپریل ۔ستمبر ۲۰۱۶ کے حوالے سے کو وِمؔپُوکی ایک مشہور  آزاد نظم’لا مکاں ‘ (اَنی کیتنا )’آفاقی انسان کا نغمہ ‘ پڑھی ۔اُس کے کچھ منتخب مصرعے ملاحظہ  ہوں کہ :

’’اے مری آتما ۔تو ہے لامکاں ۔جہاں صرف حق سر اَفراز ہے ۔اے مری آتما ۔تو ہے لامکاں ۔تو راہ شوق کی مسافر ہے ۔منزل جاناں ہی تیرا مسکن ہے ۔عرصہ راہ میں کہیں رکنا نہیں ۔کہ جہد مسلسل ہی تیرا کام ہے ۔اے مری آتما ۔تو ہے لا مکاں ۔تیری حد کی کوئی انتہا ہی نہیں ۔ بے کراں منزلیں ۔اے مری آتما ۔تو ہے لا مکاں ‘‘

عصر حاضر کے آدمی کو انسان بنانا ہی آج سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ایک Matureبالغ نظر اور پختہ ذہن انسان ۔اقبال کا مرد مؤمن ،شاہین صفت ،لیکن صرف اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جینے والا مثالی انسان ! ایک   مرد حکیم و دانا کے بقول ’انگریزی کا مقولہ ہے ’’ہم دیتے ہیں ،تبھی ہم پاتے ہیں ‘‘۔یہاں جو دیتا ہے وہی پاتا ہے ۔درخت کو دیکھیے ۔زمین سے پانی اور معدنیات لیتا ہے ،ہوا سے نائٹروجن اور سورج سے حرارت ۔لیکن اس کے بعد اس کا پورا وجود دوسروں کے لیے وقف ہوجاتا ہےت ۔وہ دوسروں کو اور وہ بھی بلا امتیاز ۔۔سایہ دیتا ہے ،لکڑی دیتا ہے ،پھول اور پھل دیتا ہے ۔وہ ساری عمر اسی طرح اپنے آپ کو دوسروں کے لیے وقف رکھتا ہے ۔یہاں تک کہ ختم ہو جاتا ہے ۔آج  زمین پر فساد اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ انسانوں کی اکثریت خود غرض ہو گئی ہے ۔ہم  دوسروں کو کچھ دیے بغیر ’لینے ‘ اور دوسروں کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ہم اگر حالات کو بدلنا چاہتے ہیں تو الٰہی اسکیم سے خود کو ہم آہنگ کریں اور دینے والی دنیا میں خود بھی دینے والے بن کر رہیں ،صرف لینے والے نہیں !درخت اپنے وجود کے نصف حصے کو ایک’سر سبز و شاداب حقیقت ‘ کے طور پر صرف اسی وقت کھڑا کر پاتا ہے جب وہ اپنے وجود کے بقیہ نصف حصے کو زمین کے نیچے دفن کرنے کے لیے تیار ہوجائے ۔درخت کا یہ نمونہ انسانی زندگی کے لیے اللہ کا سبق ہے ۔وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں ’داخلی استحکام ‘کے بغیر ’خارجی ترقی ‘ ممکن نہیں !جس قوم کے افراد کا یہ حال ہوجائے کہ وہ صرف اپنے کو جانیں اور دوسرے کو نہ جانیں وہ کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔جس سماج کا حال یہ ہو کہ اس کے افراد اپنا انسانی کردار کھو دیں وہاں صرف انتشار اور بد امنی ہوگی ،امن و استحکام نہیں ۔اس دنیا میں اتحاد صرف ان لوگوں کے درمیان قائم ہو سکتا ہے جو اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا فن جانتے ہوں ۔دوسروں کی عزت اور دوسروں کا احترام کرنے کی روایت  توڑنے کا مزج اگر ایک بار پیدا ہوجائے تو پھر وہ کسی حد پر نہیں رکتا ۔دوسروں کو بے عزت کرنے والے بالآخر اپنوں کو بھی بے عزت کر کے چھوڑتے ہیں ۔  (راز حیات۔۳۱۔۹۸)

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں