کلام اور گفتگو انسان کا تعارف ہوتی ہے

’’مخفی‘‘ زیب النساء کا تخلص تھا۔ یہ عظیم مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی پہلی بیٹی تھی۔ عالمہ، فاضلہ اور حافظ قرآن تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ فارسی ادب میں ماہر اور شاعرہ تھی۔ مغلیہ دور حکومت کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھی۔ اس کا دیوان ’’دیوان مخفی‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
اس زمانے میں فارسی ادب کا دور دورہ تھا، بڑے بڑے اساطین ادب موجود تھے۔ ایران کے ایک شہزادے نے فارسی زبان میں ایک مصرعہ تیار کیا
در ابلق کسے کم دیدہ موجود
(ابلق موتی نایاب ہوتا ہے)
شہزادے نے دوسرے مصرعہ کے لیے منادی کرادی کہ جو شخص دوسرا مصرعہ پیش کرے گا، اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ ایران سے ہونے والی منادی کی گونج ہندوستان کے اصحاب ادب تک پہنچی۔ ممکن ہے ادباء و شعراء نے طبع آزمائی کی ہو لیکن گرہ کا حق ادا نا ہوا ہو۔
مصرعہ جوں کا توں رہا، کہ شہزادی زیب النساء تک پہنچ گیا، ’’مخفی‘‘ نے اس مصرعہ پر گرہ لگائی۔ گرہ کا مصرع یہ ہے
’’مگر اشکِ بتان سرمہ آلود‘‘
(مگر محبوب کی سرمگی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو)
شعر مکمل ہوگیا۔
درابلق کس کم دیدہ موجود
مگر اشکِ بتان سرمہ آلود
’’مخفی‘‘ کی گرہ نے شعر کا حسن دوبالا کردیا۔
شہزادے نے جب دیکھا تو شاعر کو دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ اس نے پیغام بھیجا کہ جس نے گرہ لگائی ہے اسے میرے پاس لایا جائے، میں اسے انعام و اکرام سے نوازنا چاہتا ہوں۔
بادشاہ وقت بھی یہ پیغام سن کر پریشان ہوگیا کہ باپردہ بیٹی کو غیر مرد کے سامنے کیسے بھیجوں۔
سمجھدار بیٹی نے اس کا حل بھی ایک مکمل شعر کی شکل میں پیش کردیا۔ اور کہا کہ میرا یہ شعر اس ایرانی شہزادے تک پہنچا دو وہ خود سمجھ جائے گا۔
زیب النساء نے شعر لکھا
درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
(میں اپنے کلام میں ایسے ہی پوشیدہ ہوں، جیسے پھول کی خوشبو اس کی پتیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
جو کوئی مجھے دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ میرا کلام پڑھ لے، مجھے دیکھ لے گا)
جب یہ شعر شہزادے تک پہنچا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی خاتون ہے۔
زیب النساء کے شعر کا پہلا مصرعہ(درسخن مخفی منم۔۔۔) شہرۂ آفاق حیثیت اختیار کر کے زبان زدعام ہوگیا۔ جہاں بھی گفتگو کی خوب صورتی کا پیغام دیا جاتا ہے وہاں یہ مصرعہ پڑھا جاتا ہے۔
اس میں ایک واضح پیغام ہے کہ گفتگو شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کلام اور گفتگو انسان کا تعارف ہوتی ہے۔ ہر انسان اپنی زبان کے پردے کے پیچھے چھپا ہے، اگر اسے پہچاننا ہے تو اسے بولنے کا موقع دیں جلد ہی اس کی شخصیت عیاں ہو جائے گی۔
گفتگو انسان کے اخلاق و کردار کی نمائندگی کرتی ہے۔ گفتگو شخصیت کی عکاس ہوتی ہے۔ آپ اپنی گفتگو سے دوسروں کے دل بھی جیت سکتے ہیں اور اسی گفتگو کی وجہ سے اپنی بنی بنائی ساکھ کو خاک میں بھی ملا سکتے ہیں۔
سقراط کے پاس ایک آدمی بڑے کروفر سے آیا اور بیٹھ گیا۔ سقراط نے کہا، ’’آپ کچھ بولیے تاکہ میں آپ کی شخصیت کا اندازہ لگا سکوں‘‘۔
اس لیے ہمیں گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہماری گفتگو ہمارا تعارف بن رہی ہے۔ ہم سنجیدہ اور برمحل گفتگو کریں گے تو یہ ہمارے متعلق اچھا تاثر چھوڑے گی۔ اگر گفتگو غیر سنجیدہ اور غیر ضروری ہوگی تو یہ ہماری شخصیت کا منفی تاثر چھوڑے گی۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ نجاۃ کس کام میں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اپنی زبان کی حفاظت کر‘‘۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک سفر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور کردے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیلی جواب دیا، جس میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد وغیرہ کا ذکر کیا اور آخر میں فرمایا، ’’ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتا دوں؟‘‘ حضرت معاذ فرماتے ہیں، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے نبی!
پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: ’’اسے اپنے قابو میں رکھو‘‘، میں نے کہا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کی کمائی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے؟‘‘۔
اس تناظر میں اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو نہایت افسوسناک صورتحال ہے۔ آج گفتگو میں احتیاط ناپید ہوتی جارہی ہے۔ چاہے روبرو گفتگو ہے یا میڈیا و سوشل میڈیا کے دبیز پردوں کے پیچھے کی جانے والی گفتگو ہے۔ ہم جانے انجانے میں گفتگو میں حددرجہ بیاحتیاطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جھوٹ، غیبت، الزام تراشی، طعن و تشنیع، عیب جوئی اور گالم گلوچ ہماری گفتگو کا لازمی جزو بنتا جا رہا ہے۔ اپنی انا اور ہوس کی تسکین کی خاطر صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح پیش کرنے کی روش، کسی کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنا، شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا ہمارا مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔ جو ایک طرف تو بہت بڑا گناہ ہے اور دوسری طرف ہمارا تعارف بھی ہے۔
بدزبانی اور بدکلامی سے بعض اوقات ایسے گہرے گھاؤ لگتے ہیں جن کی تکلیف عمر بھر کے لیے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتی ہے۔
عربی کا ایک شعر ہے
جِرَاحَاتُ السّنانِ لَھَا التِئامٌ
ولا یَلْتَامُ ما جَرحَ اللسانُ
ترجمہ: نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں، جو زخم زبان سے لگ جائیں وہ کبھی نہیں بھرتے۔
وطن عزیز میں انتخابات کا موسم چل رہا ہے۔ ایسے حالات میں عموماً حدود و قیود کا پاس نہیں رکھا جاتا۔ امیدوار ہوں یا ووٹرز۔۔۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشی، جھوٹے وعدے، بہتان، گالم گلوچ اور بدزبانی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جو انتہائی نامناسب بات ہے۔
ہار جیت کسی بھی مقابلے کا حصہ ہے۔ لیکن مقابلے میں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ووٹرز اور امیدوار سب کے ساتھ پہلا اور بنیادی تعلق گلی محلے کی سطح پر ہوتا ہے یا برادری اور رشتہ داری کی بنیاد پر ۔ کہیں مقابلہ جیتتے جیتتے ہم اپنوں کو نہ ہار جائیں۔
اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہماری شخصیت کا تعارف کس طرح کا ہونا چاہئے، ایک خوش اخلاق اور شیریں زباں یا بداخلاق اور بدزباں۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں