روداد۔۔موبائل جنرلزم ورکشاپ

صحافت کا آغاز 1665 میں آکسفورڈ گزٹ کی اشاعت کے ساتھ ہو گیا تھا. پرنٹ کے بعد الیکٹرانک اور پھر آن لائن صحافت نے بہت تیزی سے اپنی جگہ بنائی اور اب موبائل جرنلزم کے حوالے سے کام کا آغاز ہوچکا ہے.
اسی سلسلے کو لوگوں تک پہنچانے اور اس پر کام کرنے کی تربیت دینے کے لئے موجو /موبائل جرنلزم کے حوالے سے بروز اتوار 24 جون 2018 کو  ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا.
راہ ٹی وی پر لگائی گئی پوسٹ پر موجود لنک سے فارم جھٹ پر کر دیا،  فارم پر کرنے پر جو خودکار میل موصول ہوئی، اسی پر خوش ہو کر صرف دلچسپی کے خانے کو چھوا کہ اتوار کے دن وہ بھی صبح دس بجے! ارادہ تو ہے نہ، اب آگے کیا ہو گا اسی دن معلوم ہوگا.ہاں ہفتہ کی شب ایڈریس تبدیلی کی میل موصول ہوئی.
خیر اتوار کا دن بھی آ پہنچا، اور پھر مطلوبہ جگہ بھی پہنچ گئے، پروگرام کچھ تاخیر سے اس لئے شروع ہوا کیونکہ ورکشاپ کا مقام تبدیل ہوا تھا. اور دوسری وجہ؛ اتوار کو تو پوری دنیا کی اکثریت تھوڑا، زیادہ دیر تک سوتی ہے، ہم تو پھر کراچی والے ہیں!
اسی اثناء میں تعارف کے مرحلے کا آغاز کیا گیا. سلمان شیخ (سی ای او، راہ ٹی وی) نے اپنا اور ورک شاپ کنڈیکٹر غلام مصطفیٰ (وائس آف ساوتھ ایشیا)  کے تعارف سے آغاز کیا. فرداً فرداً سب کے تعارف سے اندازہ ہوا کہ سیکھنے کے لئے عمر سے زیادہ سیکھنے کی لگن ضروری ہے کیونکہ ورکشاپ میں 14 سال سے 75 سال تک کے افراد موجود تھے اس کے بعد ورک شاپ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا.
اس میں موجو ہے کیا؟ الیکٹرانک میڈیا سے موجو کی طرف لوگوں کی تیزی سے منتقلی کی بناء پر اس پر کام کرنے کے طریقے بتائے گئے.
یہ اسمارٹ فون/آئی فون کسی بھی باشعور، حساس مخلص فرد/صحافی /لکھاری کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی سی حیثیت رکھتا ہے. اس میں موجود ایپلیکیشنز کو کس طرح استعمال کرنا ہے؟ کون سی اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کی جائیں کہ مزید بہتر کام کرے. کون سے ٹولز استعمال کرنے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے یہ سب اس ورکشاپ میں بتایا گیا.
کس طرح پیکچ(ایک ویڈیو رپورٹ) تیار جاسکتی ہے؟ تیاری میں کیا شامل ہو؟کتنے شاٹس ہوں؟ کیا اہمیت ہے؟ اور کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ اور بہت کچھ سیکھایا گیا موجو کی ورک شاپ میں! وقتاً فوقتاً سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے.
راہ ٹی وی، ووسا اور بلال ایسوسی ایٹ کے اشتراک سے  موجو کی اس فری ورکشاپ کا اختتام تمام شرکاء میں سرٹیفکیٹ تقسیم  کرنے سے ہوا اور آخر میں سنیکز  سے تواضع کی گئی. اور اتوار کے دن کو بے حد کارآمد بنا گئی.

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہترین صحافتی اقدار کو اپنا کر ہی صحافی معاشرے کی بہترین اصلاح کر سکتا ہے ۔۔۔سیکھنا تو انسان کی سرشت میں شامل ہے کہ وہ تب بھی سیکھ رہاہوتا ہے جب وہ پیدا ہوا تھا اور تب بھی جب وہ دنیا سے جا رہا ہوتا ہے ۔۔۔تمام صحافیوں کو چایٸے کہ وہ اپنے پیشے سے مخلص ہو کر اپنی قلمی مزدوری جاری رکھیں اور اپنے قلم سے ایک بہترین معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں
    محمد آصف اعوان روز نامہ شمال ایبٹ آباد

جواب چھوڑ دیں