رزان کا نہیں یہ امت کاجنازہ ہے؟

یہ کیسابے شرمی کا اندھا گڑھا ہے کہ بھر کر ہی نہیں دے رہا ۔ شام ، کشمیر اور فلسطین مسلمانوں کی مقتل گاہیں بنی ہوئی ہیں لیکن امت کی غیرت سماجی میڈیا سے باہر ہی نہیں نکل رہی ۔ یہ پیغام آگے بڑھا دو اس پر پسند کا بٹن دبا دو اور اسے آگے بڑھا دوپھر منہ تک چادر تان کر سو جاؤ، آج لوگ اس طرح سے اپنی ملی ذمہ داری نباہنے کی کوششوں میں مصروف ہیں یا پھر ہم جیسے لکھنے والے نوحے لکھے جا رہے ہیں لیکن امت کواکھٹا کرنے اور جگانے کیلئے کچھ بھی نہیں کر پا رہے ۔ آخر ایسا کر بھی کیسے سکتے ہیں یہاں تو سب ہی اپنے اپنے محلوں میں بیٹھے اپنی بادشاہت کو دوام دینے کیلئے کی جانے والی سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ تو صرف اور صرف ان لوگوں کو خوش کرنا پسند کرتے ہیں جو انہیں دنیاوی حفاظت کا یقین دلاتے ہیں اور دوست کے روپ میں خطرناک دشمن بن کرانجام کی طرف گھسیٹے جا رہے ہیںیعنی آستینوں میں سانپ ہیں۔ کہیں داخلی مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں، ہمیں اقتدار کی ہوس کسی اور جانب دیکھنے نہیں دیتی۔
اب یہ باتیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی بھی بھارتی ہٹ دھرمیں سے قطعی مختلف نہیں ہے یادونوں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی تگ و دو میں مشغول ہیں، کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ دونوں ہی امریکہ کے ایما ء پر فلسطین اور کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ دنیا کو حق کیلئے آواز اٹھانے کاکبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ، جس کی تازہ ترین مثال گزشتہ ہفتے بیشتر ممالک نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مذمتی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی جسے امریکہ نے ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اسے رد کردیا، معلوم نہیں کیوں پھر بھی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
رزان النجر ایک انسانیت کی خدمت پر معمور۲۱ سالہ فلسطینی لڑکی کا نام ہے (یقیناً یہ نام آج شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہوگا )،جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم میں بطور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی تھی۔ یہ لڑکی یقیناً اپنے معمول کے فرض کی ادائیگی میں مصروف تھی جس کا کام زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا تھااور وہ پیشہ ورطبی خدمات فراہم کرنے والوں کی نشاندہی کرنے والا سفید کوٹ بھی پہنے ہوئے تھی ، یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ جنیوا کنونشن کیمطابق طبی سہولیات فراہم کرنے والوں پر حملہ جنگی جرائم کی مد میں آتا ہے، اپنے فرائض کے دوران ایک گولی تاک کر اس کے سینے پر ماری گئی اور وہ نازک اندام اپنے خالق حقیقی سے جا ملی اور شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہوگئی۔ رزان کسی گمنام گولی کا نشانہ نہیں بنی اسے اس کے فرائض کی ادائیگی کی سزا کے طور پر ایک اسرائیلی نشانہ باز نے گولی مار کر شھید کے رتبے پر فائز کیا۔ اس نڈر اور بہادر لڑکی نے اپنے سینے پر گولی کھائی اور دشمن کے دل میں اپنا اور اپنی قوم کی ہر بیٹی کی بہادری کا خوف واضح کر دیا۔
کشمیر اور فلسطین کی سڑکوں پر نوجوان لڑکوں کے لاشے کاندھوں پر اٹھائے لوگ نکلا کرتے تھے مگر اکیسویں صدی چل رہی ہے عورت نے مرد کی برابری کا علم اٹھایا ہوا ہے اور اس برابری کا علم خواتین کے ہاتھوں میں تھمانے والے دراصل عورت کی عصمت کے سوداگر ہیں، لیکن ذرا غور کریں اور دھیان دیں کہ دخترِ کشمیر و فلسطین اپنی نسوانیت اپنی خوبصورتی اپنے وطن کی آزادی کی خاطر کس طرح سے خاک میں ملانے گھر سے نکلی ہیں جو اپنے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کروالیتی ہیں جو خود کش بن کر دشمن کو دہلا دیتی ہیں لیکن اپنی عزتوں پر آنچ نہیں آنے دیتیں۔ وہ مائیں تو عظیم ہیں کہ جن کے لخت جگر مادر وطن کی خاطر جانوں نذرانہ بے دریغ دئیے جا رہے ہیں لیکن ان ماؤں کے عزم اور حوصلے کو نام دینے کیلئے لفظ نہیں ہیں جو اپنی بیٹیوں کو بھی راہ حق کے شہیدوں کی صف میں کھڑا کرنے سے گریز نہیں کررہی ہیں۔
رزان ایک عام لڑکی نہیں تھی اورکوئی بھی کشمیری اور فلسطینی لڑکی عام نہیں ہے، دراصل یہ امت کی وہ صدائیں ہیں جو دنیا میں گونج رہی ہیں اور کسی محمد بن قاسم نامی شخص کی سماعتوں سے ٹکرانا چاہتی ہیں جوکہ ان کی مدد کیلئے کھڑا ہو اور انہیں دشمن کے چنگل سے آزاد کروائے بلکہ انہیں ان کی سرزمین بھی دلوائے، لیکن افسوس کہ ہم تمام کانوں میں آسائشوں کا مدھر رس گھولتا ساز انڈیلے ہوئے ہیں ہم سراپا مادہ پرست اور تعیش پرست ہوچکے ہیں ، ہم اسوقت تک مصیبت کو مصیبت نہیں کہتے جب تک وہ ہم پر پل پڑے۔
کشمیر ، شام اور فلسطین میں جو جنازے اٹھائے جا رہے ہیں انہیں من کی آنکھوں سے دیکھیں انہیں ایمان کی آنکھوں سے دیکھیں توکیا ہر جنازہ امت کا جناز نہیں لگتا، جسے پل بھر کیلئے غمزدہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ کیسابے شرمی کا اندھا گڑھا ہے کہ بھر کر ہی نہیں دے رہا ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں