آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے

یوں تو ہم بچپن ہی سے شریر ہیں اور ہمیں خاندان اور محلے کے تمام شریر بچوں کا قائد تصور کیا جاتا تھا اور تمام بچے شرارت کرنے کے نت نئے طریقے اور دیگر معاملات میں ہم سے رہنمائی طلب کرتے اور ہم یہ کام بخوبی سر انجام دیتے اور اپنی جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید کرتے۔ہماری امی جان صبح سویرے نہایت خلوص اور محبت اور اپنے مخصوص انداز کے ساتھ ہمیں نیند سے بیدار کرتیں تو سارے محلے کو اطلاع ہو جاتی کہ صاحب بیدار ہو چکے ہیں۔ہمارے اٹھتے ہی گھر کے پرسکون ماحول میں یکسر تبدیلی آجاتی اور گھر کے در و دیوار ہمارے اسکول نہ جانے کے مطالبے سے گونج اٹھتے۔ محلے کی خواتین جب کبھی ہماری امی جان سے ملاقات کے لیے آتیں تو ہمارے بارے میں گلہ کرنا نہ بھولتیں، بچاری امی جان اْن سے درخواست کرتیں کے وہ دعا کریں کے اللہ صاحبزادے کے حال پر رحم کرے۔شام ہوتی تو ہم محلے کے بچوں کے ساتھ گلی میں کھیلتے سائیکل چلانا،چھپن چھپائی اور کھوکھو، ہمارے مشاغل میں سے تھے جنہیں کھیل کر ہم خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔
تھورے بڑے ہوئے تو کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا اور یوں سمجھیں کہ کرکٹ سے ہمیں عشق ہوگیا۔ ہمارے ہی شاٹ کی وجہ سے گھروں کی کھڑکیاں اور گاڑیوں کی لائٹ ٹوٹ جاتی اور ہمیں اکثر اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔
اکبر آلہ آبادی نے کیا خوب کہا
“اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو۔۔۔
سنتے ہیں یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا۔۔۔”
سارا سال ہمیں گرمیوں کی تعطیلات کا بے چینی سے انتظار رہتا کہ کب وہ شروع ہوں اور ہم اپنی نانی جان کے گھر میں اپنا ڈیرہ جمائیں۔ہمارے خالہ زاد اور ماموں زاد بہن بھائی بھی بڑی بے صبری کے ساتھ ہمارے منتظر رہتے کہ “ملیر” سے صاحب تشریف لائیں گے اور اپنے ساتھ شرارتوں کے نت نئے طریقے لے کر آئیں گے۔نانی جان کے گھر کی چھت پر ہماری دوپہر و شام گزرتی اور غرض ہم وہ سارے کھیل بھی کھیلتے جو عام طور پر لڑکیوں میں زیادہ مقبول سمجھے جاتے تھے اور ہم یہ کھیل اس مہارت کے ساتھ کھیلتے کے اکثر ہمارے ساتھ کھیلنے والی بچیاں بھی دنگ رہ جاتیں تھیں۔
مگر آج جب میں اپنے سے چھوٹوں کو دیکھتا ہوں کہ ان کے بچپن کو بھی اس ٹیکنالوجی نے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ہم سب ہی اس ٹیکنالوجی کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ہم سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد سب سے پہلے اپنا موبائل فون چیک کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کے ہمیں کن لوگوں کے پیغامات موصول ہوئے ہیں اور ہماری پوسٹ کو کتنے لوگوں نے یہ عزت بخشی کے اْسے پسند فرمایا اور اس پر نظرِ کم کرتے ہوئیکمنٹ بھی کردیا۔۔۔
آج کاش !!!کہ ہم اپنی روایات،اقداراور تہذیب کی طرف واپس لوٹ آئیں اور اپنے سے چھوٹوں کو وہ ہی بھرپور پچپن کا مزہ فراہم کریں جیسا کے ہم نے گزارا۔۔ اور جس بچپن کو آج بھی ہم یاد کرتے ہیں اور بزرگوں سے اپنے قصے سن کر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں