ہاں!!! میرا بیٹا ہے

وہ میری داہنی جانب والی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھ جواں سال بیٹا یا پوتا تھا۔ گاڑی چلتی، جھٹکا لگتا، جمپ پر سے اچھلتی تو وہ ڈر کر سہم جاتیں اور کلمہ طیبہ فوراً زبان پر طاری ہو جاتا۔ نحیف و نزار، جھریوں بھرے چہرے پر خوف کا تاثر نمایاں ہوتا۔ وہ فوراً بیٹے کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر ،ڈ ر سے کچھ بڑبڑاتیں، اور تسبیح والے ہاتھ سے سامنے لگے پائپ کو کسی قدر مضبوطی سے تھام لیتی تھیں۔ جب جب گاڑی آہستہ، تیز، یا جمپ کرتی وہ ڈر جاتیں تھیں۔ عمر کا تقاضا تھا شاید، یا کچھ ڈر تھا جو ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور وہ اس کے زیر اثر تھیں۔ جس سے چہرے پر وحشت ہوتی جس کا اظہار بلاجھجھک کرتیں تھیں۔جب وہ ڈر کر، بڑبڑاتے ہوئے بیٹے کا گھٹنا تھامتیں، اس کے چہرے پر بے زاری اور مردنی کیفیت چھا مکڑی کے جالے کی طرح تن جاتی اور اسے اپنی بے عزتی محسوس ہوتی۔ جس کا اندازہ اس کے چہرے بشرے سے لگایا جاسکتا تھا۔ شاید وہ سوچتا تھا، میں ، پڑھا لکھا، سوٹڈ بوٹڈ، بابو آدمی، لوگ میرے ساتھ اس بوڑھی گنوار، دیہاتی عورت کو دیکھ کر کیا سوچیں گے؟ جسے گاڑی میں بیٹھنے تک کا سلیقہ نہیں معلوم۔ جاہل عورت ہے جو گاڑی کے تیز چلنے سے ڈگمگائے جارہی ہے کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ جیسے پہلی بار گاڑی میں سفر کر رہی ہو۔
کیوں کہ اماں گاڑی کے تیز چلنے کے جھٹکے سے ڈرکر اس کا گھٹنا تھام لیتی اور بآواز بلند اپنے ڈر کا اظہار کرتی جس پر وہ، بجائے احترام، محبت، عزت، اپنائیت، پیار کے ایسے جھاڑ کر ان کا ہاتھ جھٹکتا، کہ وہ سہم کر رہ جاتی تھی۔ کلمے کی آواز قدرے بلند ہو جاتی اور تسبیح کے دانے تیزی سے گرتے اور لفظِ اللہ کی نحیف گونج بھی کان کے پردوں سے ٹکراتی۔ وہ جوان لڑکا اپنی بوڑھی اماں سے اس قدر بیزار، تنگ، دِکھ رہا تھا جیسے اس کا بس نہ چلتا ہو کہ چلتی گاڑی سے اٹھا کر نیچے پٹخ دے اور پھر کہے: اب کرو چخ چخ، اب بڑبڑاؤ، اب کانپو، اب ڈر نہیں لگے گا۔ اور پھر نک ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرکے اور لمبا سانس لے کر پاؤں پسار کر بیٹھ جائے۔ میرا اس نوجوان کے رویے پر خون کھول رہا تھا کبھی چِلانے کو من کرتا تھا۔ کہ میں چیخ کر سب کے کان کے پردے پھاڑ دوں مگر اس وقت میری حالت ، جھونپڑے کے کونے میں جلتے، مٹی کے اس دیے جیسی تھی جو اپنی کمزور روشنی پر آنسو بہا رہا ہو۔ اس کے یوں چپکے چپکے جھڑکنے پر مجھے حیرت ہوتی، کہ بھلا!! اپنی اماں کے ساتھ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اسی کی کوکھ سے جنم لے کر اسی پر دھونس جما رہا ہے؟ کیوں خود کو ایسا توانا جوان سمجھتا ہے،کہ کبھی اس پر یہ وقت نہیں آئے گا؟ کس زعم میں مبتلا ہے؟
حالاں کہ ہے تو اسی گندے قطرے سے پیداوار ،جس سے گھن آتی ہے۔ جو اگر کپڑوں پر لگے تو کپڑے ناپاک اور اگر جسم سے نکلے تو جسم ناپاک۔ جب جب اماں ڈر کر رونی صورت بناتیں، کلمے کا ورد تیز کرتیں، تسبیح والے ہاتھ کی گرفت مظبوط کرتیں ؛تب تب اس نوجوان کے چہرے بشرے پر بیزاری ایسے چپکتی دکھائی دیتی جیسے ڈاک خانے کے لفافے پر ٹکٹ چپکا ہوتا ہے۔ وہ اپنی اماں کو جھڑکتا، پھر آنکھ کی پتلیاں گھما کر، ٹیڑھی آنکھ سے پچھلی نشست کی طرف بھی دیکھتا، جہاں کالج کی لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ اماں کے ڈر کو نظر انداز کر کے اپنی پتلون کی جیب سے انڈرائیڈ فون نکال کر اپنا انگھوٹا سکرین پر پھیرتا۔ اماں کے قریب ہو کر، غصے سے کچھ بڑبڑاتا۔ ساتھ ہی آنکھ کے کونے سے پیچھے بیٹھی لڑکی کو دیکھتا پھر، ذرا اوپر ہوکر، موبائل جیب میں ٹھونس لیتا۔
میں یہ سب دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ ہم اپنے بڑوں سے کیوں اس قدر بیزار ہو گئے ہیں؟ وہ وہی بیٹا ہے جس کی پیدائش سے پہلے اس کی ماں نے ہزاروں جتن کیے۔ جس کی دنیا میں بخیریت آمد کے لیے منتیں مانیں۔ زیارتوں پر چڑھاوے چڑھائے،پیروں، فقیروں، باباؤں،بزرگوں کے پاس گئیں۔ دعائیں کروائیں، دھاگے باندھے، تعویذ کروائے۔ حکماء کے دروازے کھٹکھٹائے۔ اطباء سے نسخے لیے۔ ڈاکٹروں سے مشورے کیے۔ جس کی پیدائش کے لیے بیت اللہ جانے والے سے وہاں دعائیں کروائیں۔ جب خود جانے کاموقع ملا تو کعبے کا غلاف پکڑ پکڑ کر گڑگڑا کر دعائیں مانگیں۔ حضور کے طفیل سجدوں میں سر رکھ رکھ کر رو رو کر مانگا۔ کیا کچھ جتن کیے۔جب محنت کا پھل ملا، خدا تعالیٰ نے جھولی بھری تو یہ ملا جو، اب اسی ماں سے نفرت کر رہا ہے۔ اسے خود سے کمتر، حقیر، سمجھ رہا ہے۔
میں انہی سوچوں میں مستغرق تھا کہ گاڑی اپنے اسٹینڈ پر رک گئی۔ سب سواریاں اترنے لگیں۔ اماں نے، نم آنکھوں، کلمہ شکر سے لبریز لب، کانپتے جسم، الحمدللہ کی بوڑھی آواز کے ساتھ، آہستہ قدموں گاڑی سے باہر نکل کر قدم رکھا۔ ان کا وہ بیٹا انہی لڑکیوں کو تاڑتا جارہا تھا جن سے گاڑی میں آنکھ مچولی کھیلتا رہا تھا۔ جب اماں گاڑی سے باہر آ گئیں، تو اس نے انہیں انتہائی کڑوے لہجے میں وہاں لگی کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کو کہا۔ ”وہاں بیٹھو، میں ٹکٹ لے کے آتا ہوں” ساتھ ہی بھنبھناتا ہوا ان لڑکیوں کے پیچھے پیچھے دوسرے اسٹینڈ کی طرف بڑھ گیا۔اماں اس کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر نمنماتی صورت لیے بینچ کی طرف بڑھیں۔ وہ ایسے نظر آرہی تھیں جیسے خاموشی کے لبادے میں گھات کھا رہی ہوں۔ اس وقت ان کی حالت جاں بلب مریض کی سی تھی۔غالبا آنکھوں میں آنسوؤں کے موٹے قطرے راستے کو دھندلا رہے تھے۔
میں نے انہیں لرزتے دیکھا تو جلدی سے اماں کو تھاما، بٹھایا، پانی پلایا۔ وہ روپڑیں، دعاؤں بھلاؤں کے ساتھ میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ماتھا چوما، میں ان کا بیگ اٹھانے گاڑی کے پاس گیا جب واپس مڑا تو وہ، تیوری چڑھائے اپنے آپ کو گھور رہی تھیں۔ جیسے اپنے آپ پر تلملا رہی ہوں۔ گھن کھا رہی ہوں۔ میں نے ان کا بیگ قریب رکھا۔ اور ان سے پوچھا وہ آپ کا بیٹا ہے کیا؟ ان کے ہونٹوں پر زہرخند پھیل گیا۔ دور فضاؤں میں دیکھتے ہوئے آہ بھری ”بیٹا!!؟” وہ کھسیانی ہنسی، ہنسیں۔ ان کی آنکھوں میں حزن و ملال کی گھٹائیں ابھریں اور دل سے ہاں میرا بیٹا ہے کی آواز ابھری۔’’ ہاں ! میرا بیٹاہے ‘‘ یہ الفاظ انہوں نے تھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے ۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی۔ ایک تند دھواں سا میرے سینے میں کروٹیں لے رہا تھا۔میں دل تھامے رنج و الم سے انہیں دیکھتا رہا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں