پہلی بار.ماں.کو روتے دیکھا۔۔۔

محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ، آپ میرے کیلئے نہایت قابل احترام ہیں۔ آپ اور آپ کی بیٹی جو امریکہ میں برسوں سے قید ہے، میرے پاس الفاظ نہیں جن کی ادائیگی کرکے میں اپنے جذبات کی عکاسی کرسکوں۔ امریکہ میں رہتے ہوئے اور اس کے ساتھ کچھ عرصہ ترکی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت رہائی کیلئے تگ و دو کرتارہا ہوں۔ پاکستان میں آکر یہاں کے شہریوں کو دیکھا ، ان سے ملاقاتیں کیں اس دوران متعدد سے جب بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات کرتاتو چہروں پر کچھ افسردگی سے نظر آتی۔ سوشل ورکرز جو برسوں سے آپ کی بیٹی کی رہائی کیلئے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کی جدوجہد اک روز ضرور کامیاب ہوگی۔


وطن عزیز کے شہر قائد میں صوفی ازم کے حوالے سے دو روزہ کانفرنس میں شرکت کیلئے امریکہ سے آئے ہوئے مسلمان اسکالر سائرس گولڈمارک اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کے درمیان ہونے والی یہ ساری گفتگو ناشتے کی میز پر جاری تھی۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے سائرس کو اپنے گھر ناشتے کی دعوت دی تھی جسے سائرس نے بڑی خوشی سے قبول کیا اور جس روز ناشتہ تھا اس دن کی صبح امریکی اسکالر جب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے گھر میں داخل ہوئے تو ان سمیت وہاں موجود سبھی کیلئے یہ عمل حیران کن تھا ۔ سائرس اپنے استقبال کیلئے آئے سب سے ملے اور تعارفی نشست کے بعد ناشتے کی میز پر وہ محترمہ عصمت صدیقی کے قریب تشریف فرما ہوئے۔ ناشتے کی میز سے پہلے اور بعد تک وہ والدہ ڈاکٹر عافیہ کو دیکھتے رہے ان سے مخاطب رہے ۔ عافیہ کے متعلق خود بھی سوالات کرتے اور اس کے ساتھ دیگر میزبان بھی انہیں اپنے تئیں نئی نئی باتیں بتاتے ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مہمان کیلئے ناشتے کا بھرپور اہتمام کیا ہوا تھا اور وہ باربار امریکی مہمان کو کھانے کی ترغیب دے رہی تھیں ۔ لیکن وہ مہمان کھانے کی انواع و اقسام اشیاء سے زیادہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کی جانب متوجہ رہے۔ ان کودیکھتے اور ان سے محو گفتگو رہے۔ عصمت صدیقی جنہیں عافیہ موومنٹ کے رضاکار نانی اماں کہہ کر پکارتے تھے، وہ سبھی اس بات سے باخبر تھے کہ کہ نانی اماں مہمان نوازی میں کس قدر آگے ہیں۔ لہذا وہ کوشاں رہے کہ نانی اماں کی ہدایت کے بغیر اشیاء ان کے سامنے رکھتے اور اسطرھ سے ناشتے کی محفل آگے کی جانب بڑھتی رہی۔
دوران گفتگو امریکی اسکالر سائرس نانی کو دیکھتے ہوئے قدرے خاموش اور پھر سوچوں میں گم ہوگئے اسی دوران نانی اماں نے انہیں مسکراتے ہوئے جگایا اور کہا کہ ناشتہ کریں ۔ ایک ڈش ان کے سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ ڈش عافیہ کو بہت پسند تھی۔ سائرس نے ڈش میں سے کچھ لیتے ہوئے نانی اماں کو دیکھا اور پھرمخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج میں آپ کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ میں اپنی ماں سے بہت محبت کرتاہوں اور ماں تو ماں ہوتی ہے جس سے سبھی محبت کرتے ہیں ۔ میں نے زندگی میں کھبی اپنی ماں کو آنسو بہاتے، جذباتی انداز میں نہیں دیکھا تھا لیکن اس روز وہ ہمارے سامنے روئیں اورجذباتی ہوئیں بالکل اس طرح جس سے ہمیں سخت تکلیف ہوئی ۔
میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا ہوا جس کے بعد انہوں سے پہلے تو منع کیا لیکن میرے اصرار پر انہوں نے کہا کہ کچھ دیر قبل جس عورت کا تم لوگ ذکر کررہے تھے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ، بس اس کی باتیں سن کر، اس کے حالات سن کر میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکی اور اس طرح سے میں آپ کے ساتھ جذباتی ہوگئی۔ سائرس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ میں نے کھبی اپنی زندگی میں کھبی والدہ کو اسطرح نہیں دیکھا تھا ، میری ماں میرے سامنے روتی ہے اور روئیں بھی اپنے کسی غم میں نہیں بلکہ امت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام پر ان کے ذکر پر روتی ہیں۔ اس دن جو بھی کچھ ہوا اس کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ اگر مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا تو میں آپ سے آپ کی بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے اور عافیہ کے بچوں سے اور ان ورکرز سے بھی خود ملونگا ۔ ان سے باتیں کرونگا اور ان کی ہمت کو حوصلے کو آگے کی جانب بڑھاؤنگا ۔
محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ ، میں نے اپنی زندگی میں اپنی ماں کو عافیہ کیلئے روتے دیکھا ، اس دن آج تک میں ان کے آنسوؤں کو بھول نہیں پایا ہوں اور تب سے امریکہ میں عافیہ کیلئے باعزت رہائی کی جدوجہد کرنے والے موری سالاخان کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیق کی رہائی کیلئے کوشاں ہوں۔
ناشتے کی میز پر موجود سبھی سائرس کی اس بات سے متاثر ہوئے، نانی اماں و ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سمیت سبھی خاموش ہوگئے تھے۔ اس وقت ناشتہ اختتام پذیر ہوا اور سبھی دعا کرکے ناشتے کی میز سے اٹھ آئے۔ امریکی اسکالر سے اس روز ملاقات کے بعد مقامی ہوٹل میں ان سے انٹرویو بھی لیا جاچکا ہے لیکن ان کی وہ باتیں تاحال دل و دماغ میں بسی ہوئی ہیں۔ انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آج تک اس حوالے سے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ۔ حکومت پاکستان اگر اپنے شہری کیلئے امریکی حکومت سے بات و مذکرات کرئے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ عافیہ کی رہائی کیلئے کاوشیں تو دنیا بھر میں جاری ہیں ۔ پاکستان میں،پاکستان سے باہر بھی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عافیہ کو رہائی ملے اور اس کے اپنے بچوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ بقیہ زندگی گذارنے دیا جائے۔ سائرس کا کہنا تھا کہ عصمت صدیقی سے ملاقات کے بعد جب بھی واپس جاؤنگا تو اپنی والدہ سے اس ملاقات کا ذکر ضرور کرونگا ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے حد خوش ہونگی اور اس سے بھی بڑھ کر انہیں خوشی اس روز ہوگی جب عافیہ جیل میں نہیں آزاد فضاؤں میں ہونگی۔
ماں تو ماں ہوتی ہے اور اک ماں ہی دوسری ماں کا درد سمجھ سکتی ہے۔ مریم نوازجو نواز شریف کی بیٹی ہے اور نواز شریف وہ سابق ناہل وزیر اعظم ہیں کہ جنہوں نے سو دنوں میں عافیہ کو لانے کا وعدہ کیا تھا ، عافیہ کی مریم کو اپنی مریم سے تشبیہ دی تھی لیکن ان کی ساری باتیں ماضی کا حصہ بن گئیں ۔ مریم نواز کی بھی ماں ہے جو کلثوم نواز کے نام سے موسوم ہیں انہوں نے تو آج تک عافیہ کی مریم کی، ان کی والدہ کی باتھ نہیں کی۔ ایک جانب امریکی اسکالر سائرس کی ماں ہے جو سائرس کے سامنے جذباتی ہوتی ہیں عافیہ صدیقی کے ذکر پر اور دوسری جانب مریم نواز کی ماں جس نے آج تلک ذکر تک نہیں کیا ۔ ایک وہی نہیں ایسی ہی ان گنت مائیں ہیں حکمرانوں کی، عہدیداروں کی لیکن شاید سب مدہوش ہیں ، بے زبان ہیں ، ناسمجھ ہیں، بے فکر ہیں اور بے حس بھی۔ ۔۔۔۔
جدوجہد عافیہ رہائی جاری ہے جاری رہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک عافیہ رہائی پاکر وطن عزیز نہیں آجاتیں ۔ ہمت مرداں مددخدا کے جملے کی عملی تفسیر اور تصویر عافیہ موومنٹ کے رضاکار ہیں اس ملک کے اندر بھی اور اس ملک سے باہر بھی اور سب سے بڑھ کر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی بھی ہیں جو آسمان کی جانب دیکھتی ہیں دعا کرتی ہیں اور ہمت و حوصلے کو تقویت دیتی ہوئی بارہا یہ کہا کرتی ہیں کہ عافیہ آئے گی ، ہاں اک روز عافیہ آئے گی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں