’’پھولوں کی حفاظت کریں‘‘

انسان عموماََ چار مراحل سے گزرتا ہے۔اور ان ہی چار مراحل کا نام زندگی ہے۔یہ فطرت کے مظاہر میں سے ہے کہ انسان قدرت کے ان مراحل کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔اور نہ ہی زندگی کی گھڑی کو ان چار مرا حل سے قبل روک سکتا ہے۔انسانی زندگی بالترتیب آنے کا نا م ہے۔مگر لوٹنے میں یہ کسی ترتیب کی محتاج نہیں۔ان چار مراحل میں سے جوانی ایسا پُل ہے، جسے سب سے زیادہ بوجھ سہنا ہوتا ہے۔ایک ایسا پُل کہ جو ابھی تیار ہو کر امور بجا لانے کے لیے پَر تول رہا ہوتا ہے۔جس پر سے بھاری بھر کم مصائب وآلام کی گاڑیوں نے گزنا ہوتا ہے۔اور یہ ناتواں اپنے دفاع کی جنگ لڑنے کے لیے ترکیبیں سوچتا ہے۔ایسے میں کہ جب یہ جوانی کا مرحلہ نشونما کی کونپلوں سے نکل کرعملی اظہار کی طرف قدم بڑھاتا ہے،اسے ہر طوفان کا سامنا اپنے تازہ و تندرست جسم کے ساتھ کرنا ہوتا ہے ۔جوبات اسے سب سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرتی ہے ،اسے روحانی و جسمانی طور پرکمزور کرتی ہے وہ ہے اولاد کی نافرمانی ۔
کیا کبھی غور فرمایا کہ بچوں کی تربیت میں جسمانی آرائش کے ساتھ اورکیا عوامل ہیں جن کی بچوں کی تربیت کے لیے اشد ضرورت ہے ۔یا کبھی غور کرنا گوارا کیا، کہ شعور کی جو منازل ہم طے کرنا چاہتے ہیں ،یا پانے بچوں کو طے کروانا چاہتے ہیں،ناجانے ہم اس راستے بچوں کو کن بلاؤوں کے منہ میں لے کر جارہے ہیں۔بچوں کی نافرمانی،زبان درازی کی و الدین کے ساتھ ساتھ جب رشتہ داروں ،پڑوسیوں تک سے شکایات ملتی ہیں، تو پھر جوانی قبل از وقت اپنے چوتھے مر حلے یعنی بوڑھاپے میں داخل ہونے لگتی ہے۔والدین اگر بچوں پر جسمانی طور توجہ یتے ہیں ،تو ضروری ہے کہ روحانی تربیت پر بھی توجہ دیں ۔اور یہ بچے کا حق ہے جس سے والدین غفلت برتتے ہیں۔اور یہ کوتاہی ونافرمانی بچوں سمیت آنے والی کئی نسلوں کی تباہی کا باعث بنے گی۔اللہ پاک کا ارشاد ہے :’’ اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جھنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ ماں باپ اولاد کے جسمانی و روحانی مربی ہوتے ہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ والدین تربیت میں غیر موزوں کو تو اہمیت دیتے ہیں ،لیکن جس چیز پر محنت کی ضرورت ہوتی ہے، اسے غیر اہم جان کر دقیانوسی سمجھ لیتے ہیں۔اسے ترقی کی راہ کا کانٹا گردانتے ہیں۔
اسکول میں ساتویں جماعت کا بچہ سگریٹ پیتے ہوئے پکڑا گیا ۔پرنسپل صاحب نے شفقت سے سگریٹ پینے کی وجہ پوچھی تو ہم پر حیرت کا کوہ ہمالیہ آں پڑا ۔اور ہم بت بن کر رہ گئے۔بچہ بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ میرے چاچوسموکنگ کرتے ہیں ،اور میں ان کی دیکھا دیکھی سگریٹ پیتا ہوں ۔ وہ مجھے سگریٹ پینے کے لیے دیتے ہیں ،کہ اسٹائلی زندگی کی نشانی ہی یہی ہے۔ورنہ تو زندگی معاشرے میں بے مزہ بے رنگ سمجھی جاتی ہے۔اگر کلر فل لائف گزارنا ہے تو سموکنگ ضروری ہے۔یہ انکشافات ہمارے لیے اجنبی تھے ۔لیکن معاشرے کی بناوٹ نے بچے اور مزاج کو کس قدر مٹا دیا یہ دیکھ کر،اور اس منظر نے ہمیں تہ و بالا سا کر دیا تھا ۔ایسے کئی زہریلے جرثومے والدین ، رشتہ داروں کے ذریعے بچوں میں داخل جسم ہورہے ہیں ۔پھر رونا رویا جاتا ہے کہ بچے نافرمان ہیں ،بات نہیں مانتے ،پڑھائی میں نمبرات کا مسلہ ہے، پھر والدین کی زندگی کے آخری لمحات بھی اسی رنج و غم میں کٹتے ہیں۔ تب جا کر کہ وہ منوں مٹی تلے سوتے ہیں۔
آج کے دور میں انسان بچوں کے معاشی حقوق کی فکر تو کرتا ہے ،تعلیم پر لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ کرتا ہے ۔لیکن اپنے بچے کو معاشرے کا ایک اچھا اور ذمہ دارفرد بنانے کی قطعی فکر نہیں کرتا ۔تعلیم سیکھنے کا نام ہے،اور تربیت سیکھے ہوئے پر عمل کرنے کا۔اچھی تربیت کاپتاکیسے چلے گا کہ ہمارے بچے ایک ایک اچھے اور مہذب انسان کے طور پر نیک نامی کی اعلیٰ منصب طے کر رہے ہیں۔اس کے لیے ہمیں تربیت کی اصطلاح میں غور و فکر کرنا ہوگا۔آپ جانتے ہیں کہ اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہِ ان کی اولاد ماں باپ کے حقوق سے قطعی نابلد ہے۔ گھر کے اندر بھی ماں کو ہی تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔جب کہ ماں’’ ام الحُب ‘‘ ہوتی ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اولاد اپنے اچھے برے سے عاری ہو کر یک طرفہ فیصلہ سنادیتی ہے،اور بیچارے والدین سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔یہ مغربیت کی عطا کردہ تربیت کی وہ اصطلاح ہے،جسے ہمارا اسلامی معاشرہ زہر جانتے ہوئے بھی اپنی اولادوں کو پلا رہا ہے۔اس کے برعکس اسلامی تربیت کی وہ اصطلاح جس پر ہم اپنی اولادوں کی تربیت قدرے آسان طریقے سے کر سکتے تھے ،اور اس سے اپنی اور اپنی اولادوں کے لیے دنیا و آخرت کا سامان کر سکتے تھے چھوڑ دیا ۔آج معاشرے میں اخلاق سے عاری نوجوانوں کی کھیپ تو ہر جگہ مل جایے گی ،مگر حسن اخلاق سے لیس نسل ناپید ہوتی جاری ہے۔
ایک اہم وجہ جس سے بچوں میں بغاوت پید اہوتی ہے،ان پر جبراََکام کا بوجھ ڈالنا ہے۔بچوں کو بچپن سے ہی مشقت کے کاموں کا عادی بنانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔اور اس کے لیے جواز پیش کیا جاتا ہے کہ گھر کی مالی حالت فاقوں تک آن پہنچی ہے ،اس لیے بچے کو کام پر لگا دیا گیا۔اس کی ذمہ داری ،گناہ ریاست پر جاتا ہے ،کہ اس نے کیوں ان بے سہارا بچوں کو سہارا نہیں دیا ۔لہذا جن والدین کو اولاد کی نعمت ملی ہے ،انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کو صلہ رحمی کا عادی بنائیں ۔بچوں میں عموماََ تشدد بچپن سے پیدا ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے لڑنا ،جھگڑا ۔صلہ رحمی ان کے ذہنوں میں ایسے کندہ کر دی جایے کہ وہ پچپن سال تک نہ مٹ سکے۔ یہی بنیادی تعلیم ہی ایک بچے کو والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ،خاندان کے لیے نیک نامی اور ملک وملت کے لیے سرمایہ بناتی ہے۔
بچے پیدائشی طور پر کچھ چیزوں کو جانتے ہوتے ہیں ۔اس لیے ان نونہال پھولوں کی آب یاری اس انداز سے کی جایے کہ یہ پھول جب بڑے ہوں تو دنیا میں اپنے رنگوں کی بہار لے آئیں۔تربیت کے اس عمل میں پہلی درس گا(گھر)سے لے کر اسکول ،کالج ،یونیورسٹی تک،والدین ،اساتذہ بچے کے ظاہر و باطن کی حفاظت کریں ۔ایک باکمال بچے کی مہارتوں ،قابلیتوں کی پہچان وہ خود نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے پس منظر میں وہ سارے لوگ کھڑے ہوتے ہیں جنہوں نے اس کے ’’عام ‘‘سے ’’خاص‘‘ بننے میں محنت کی ہوتی ہے۔زندگی کے پہلے دور میں جب انسان اپنی اولاد پر محنت کرتا ہے، تو اس کا پھل وہ زندگی کے آخری دور میں چکھتا ہے۔جب وہ اپنے بچوں کے بچوں میں اپنے بچوں کی عادات و اطوار کی جھلک دیکھتا ہے، تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہے۔ایک طرف اگر بظاہر جگر و آنکھوں کو سیرابی ملتی ہے، تو دوسری طرف بقا ء اجل کی طرف بڑھتے قدموں کے باوجود وہ اپنی اولاد کے لیے فکر مند نہیں ہوتا کہ وہ اپنی اولاد کی اسلامی زندگی سے مطمئین ہوتا ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں