خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدے 

ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہمارے لیڈر زور و شور سے سیاسی شو منعقد کروا کر اپنی پاور کا اظہار کر رہے ہیں۔ہردوسری پارٹی اسے پاور شو کا نام دیتی اور یہ سمجھتی ہے کہ آنے والے الیکشن میں ان کو ووٹ، پاور شو کی بنیاد پر ملیں گے۔ کہیں اسے سونامی سے تعبیر کیا جاتا ہے، کہیں پاور شو کا نام دیتے ہیں۔ کہیں ووٹ کی عزت کا آوازہ اٹھتا ہے۔ کہیں غریب اور غربت کی بات ہوتی ہے تو کہیں شہر کو آزادی دلانے کا نعرہ لگتا ہے۔ کہیں سیاسی و اخلاقی کرپشن کے خاتمے پر حکومت مانگی جاتی ہے۔ اور کہیں چور ہے چور ہے کے خلاف آسان فارمولا یہ متعارف کروایا جاتا ہے کہ انہیں حکومت دی جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ سیاسی رہنما انہی پاور شوز پر اکتفا کرتے ہوں اور یقین کر کے بیٹھ جائیں، کہ ہو نہ ہو ووٹ ہمارا ہے۔ بلکہ وہ عوام کی کئی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے اور ہر اس بات کا سہارا لیتے ہیں جس سے عوام ان کی کارستانیوں پر صرف نظر کر کے ان کے لیے نرم گوشہ اختیار کرلیں۔ انہی میں ایک خوابوں کی خرید و فروخت کاروبار ہے۔ گزشتہ انتخابات کے کامیاب تجربوں کے بعد ایک بار پھر ہمارے رہنما شد و مد کے ساتھ عوام کی بھلائیوں اور خیرخواہی کا ڈھول پیٹ کر، نئے خوابوں کی لمبی فہرست سنا کر عوام کی انکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ہر طرف شور غوغا ہے۔ بھانت بھانت کی آوازوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ تک اچھالا جاتا ہے۔ ہر دوسرے کو کرپٹ، ملک و دین دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ طعن و طنز کے نشتر چلا کر نفرتوں کا بیوپار کیا جاتا ہے۔ اور لڑ جھگڑ کر عوام کو اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے۔ سیاسی شعبدہ باز ایک دوسرے کی تضحیک کے بعد اپنے مقصد حیات سے ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ قومی و صوبائی حکومتوں کا حصہ ہونے کے باوجود زور و شور سے حکمرانوں کو نااہل قرار دے کر باقاعدگی سے خواب دکھاتے ہیں۔ پانچ سال گزار کے، تجوریاں بھر کے، عوام کو دکھائے خوابوں کا خون کر کے، اب دوبارہ سبزہ دکھاتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں ہم فلاں فلاں کام کریں گے۔ کرپشن کا راستہ روکیں گے۔ چندہ جمع کریں گے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ یکساں تعلیمی نظام وضع کریں گے۔جب کہ پانچ سالہ بھرپور دور حکومت گزار کر ان اعلانات پر عمل نہیں کیا۔ البتہ تبدیلی کے دعویدار سیاسی پنڈتوں کو بلاخر اس عوام کی یاد آہی گئی۔ جس کے ووٹ سے منتخب ہو کر یہ اسی کا خون چوستے رہے۔ دیکھا جائے تو اب ملک کے چپے چپے میں جلسے جلوس منعقد کرنے کے اعلانات کے ساتھ ہی ہمارے سیاسی زعما پرانے دستور پر چل پڑے۔ اب انہیں غریب، مزدور، کسان بھی اہم لگنے لگیں گے۔ اب ان کے لیے ریڑھی چلانے اور جھگی میں رہنے والا خانہ بدوش بھی اپنا اپنا سا ہوگا۔ اب انہیں ہسپتالوں، پولیس تھانوں، عدالتوں میں رلتے لوگ بھی نظر آئیں گے۔ اب انہیں مذہبیوں کی یاد بھی ستائے گی۔ فحاشی و عریانی کے سامنے بند باندھنے کے لیے کرسی کی ضرورت بھی معلوم ہوگی اور اس پر عمل درآمد کے لیئے صحابہ کرام کا طرز حکومت بھی باور کروایا جائے گا۔
قائد کا پاکستان بھی یاد آئے گا۔ ملکی شعبوں میں زراعت، سیاحت کے فروغ کے ساتھ صوبوں کے حقوق اور تعلیم کی بات بھی کی جائے گی۔ اور سب خواب دکھا کر عہد لیا جائے گا کہ عوام ہمارے ساتھ اٹھ کھڑی ہو۔ ہم منتخب ہو گئے تو یہ سب خواب تعبیر پا لیں گے۔ اتنا ہی نہیں ہر علاقے کی سطح پر وہاں کی فضا اور ضرورت کے موافق خواب فروخت ہوتے ہیں۔ اور ہم جاگتی آنکھوں الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھ جاتے ہیں۔ باتوں میں آکر ان کی اصلیت کو پس پشت ڈال کر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے کی آنکھوں خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ اور چند روپوں کی خاطر اپنے”فریضے” کا سودا کر لیتے ہیں۔
بجا ہے کہ خواب دیکھے بغیر تعبیر نہیں ملتی۔ کامیاب ترین اشخاص کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے خواب دیکھے۔ اگر خواب دیکھے جائیں تو ہی وہ حقیقت کا روپ دھارتے ہیں لیکن ہمیں تو مسلسل خواب دکھائے جاتے ہیں۔ یاد رہے خوابوں کی تعبیر انہی کو ملتی ہے جو صادق خواب دیکھتے اور تعبیر پانے کے لیے محنت میں جت جاتے ہیں۔
ہمیں خواب ضرور دیکھنے چاہییں مگر کسی کے دکھائے خوابوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ خاص طور پر فصلی بٹیرے جو خواب دکھائیں۔ اگر ہم بھی خوابوں کے اس بیوپار میں الجھ گئے تو خواب تو پورے ہونے سے رہے ہاں! البتہ پانچ سال تک خود کو ضرور کوستے رہیں گے۔ یاد رہے یہ لوگ عوام کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے یہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ کہیں خوابوں کا سودا کر کے تو کہیں نوٹوں سے معاملہ کر کے؛ کہیں زور زبردستی، تو کہیں کسی دوسرے مفاد کے لیے ووٹ کی قیمت لگا کر ووٹ اور ووٹر کو خرید لیتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں۔ بھاشن دینا اور منجن بیچنا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ ووٹ لینے کے بعد یہ اس علاقے کا رخ تک نہیں کرتے۔ اور ووٹروں کی آنکھیں راہ تکتے پتھرا جاتی ہیں۔ اور وہ ہمارے ووٹوں پر منتخب ہو کر آسائشات بھری زندگی گزارتے ہیں۔ جب کہ ان کا ووٹر بھوکا مر رہا ہوتا ہے۔ جس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا یہاں تک کہ پنج سالہ دور گزر کر دوبارہ سے ووٹ سر پر آن پہنچتے ہیں اور یہ پھر تیاری کے ساتھ خواب فروخت کرنے انہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اور سادہ لوح عوام پھر سے انہی باتوں میں الجھ کر اپنی زندگی انتظار میں گزار لیتی ہے۔
یاد رہے یہ فصلی بٹیرے فکر معاش سے آزاد ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بعد ایک یہی قوم ہے جس پر ” من و سلوی” نازل ہوتا ہے۔ خدارا! ان کی باتوں، ان کے دکھائے خوابوں، ان کے کیے وعدوں پر یقین اور ان سے بہتری کی امید کے بجائے خود کی آنکھوں خواب دیکھیں پھر اس کی تعبیر کے لیے خود محنت کریں تاکہ آپ کی اور آپ کی نسلوں کی زندگی سنورتی جائے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں