علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک بار پھر فاشی دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ وہی فاشی دہشتگرد جن کے بارے میں قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ وہ اہل ایمان کے دائمی دشمن ہیں (المائدہ ۸۴)اور اُن سمیت تمام دشمنوں پر اپنی ہیبت قائم رکھنے کے لیےمجموعی ’حصول قوت‘ کا جو نسخہ ہمیں بتایا تھا (الا نفال۔ ۶۰) اُس کا تو کوئی نام ہی نہیں لیتا !وطن عزیز ہو یا مغربی و جنوبی ایشیا، اصل نشانہ تو مسلمان ہی ہیں ،مسلم یونیورسٹی اور بابری مسجد،کشمیر اور فلسطین تو محض بہانے ہیں۔
ہم نے آج مجاہد سید کی پانچ سال پرانی ایک غزل نکال کے پھر پڑھی۔ آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ اسے ایک بار اور پڑھیے:
یہ ہے جو پھانس کلیجے میں اب نکالی جائے
عدو کے سامنے شمشیراَب اُٹھالی جائے !
(مدد کے واسطے اب )اُن کو کیا طلب میں کروں
۔نہ جن سے اپنی ہی دَستار اَب سنبھالی جائے!
جو چاروں سمت یہ کرب و بلا کا موسم ہے
تو کیوں نہ فصل سروں کی بھی اب اُگالی جائے ؟
نہ سر کا بار رہے دشمنوں کے شانوں پر
ہمارے ہاتھ کا اک وار بھی نہ خالی جائے!
نہ روک !جائے لحد !دور کا سفر ہے ہمیں
زمین زیر قدم، چل کے ناپ ڈالی جائے
کہاں وہ تیغ و سپر، کاسہ گدائی کہاں
۔کہ رزم گاہ میں کہہ دو نہ یوں سوالی جائے
ہمارے شہر میں جنگل بہت اُگ آئے ہیں
جو گھر کو جائے، وہ اب راہ اِک نکالی جائے
عدو ہیں اپنی کمیں گاہ میں بہت خوش خوش
یہ پہلے وار کی جو شرط ہے، اُٹھالی جائے
اور یہ تو صرف پانچ سال پہلے کی غزل ہے۔ قرۃالعین حیدر نے اُنسٹھ برس پہلے ۱۹۵۹ میں اپنے ایک مضمون میں یہ زندہ جملے تحریر کر دیے تھے جنہیں پڑھتے ہوئے لگتا ہے گویا آج ہی لکھے گئے ہیں کہ :
’’اس وقت احتجاج تو درکنار (میڈیا میں )رپورٹنگ بھی قرینےسے نہیں کی جارہی ہے۔ دنیا پھر (ایک) وحشی سماج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ۔(ہمیں ) برابر چوکنا رہنا پڑے گا کہ (اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ) آزادی کو(بنام راشٹرواد اور نام نہاد دیش بھکتی ) کس طرح کے(فاشی اور نازی )معنی پہنائے جارہے ہیں ۔ ۔!‘‘(حسین الحق۔ ا کتابی سلسلہ اِمروز۔ اپریل ۲۰۱۸ص ۱۸۰)
فضیل جعفری نے، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، اپنی ایک پچیس تیس سال پرانی غزل (افسوس حاصل کا۔ ۲۰۰۹ص ۳۵)میں یہ زندہ شعر کہے تھے جنہیں پڑھیے تو لگتا ہے کہ یہ سب آج ہی کے دیش اور دنیا کی منظر کشی ہے۔ بد قسمتی سے ہم اپنی مادر علمی کے محبوب شہر علی گڑھ میں بھی دو روز سے یہی سب تو دیکھ رہے ہیں :
نگر نگر رائفل کے نغمے، گلی گلی بوٹ کے ترانے
قدم قدم خوفناک سائے کسے بچائیں ،کہاں چھپائیں
سڑک کا منظر ہمارے اندر، ہمارا دل راستے کا پتھر
نہ کوئی منزل، نہ کوئی محور، پرائی رُت اجنبی دشائیں
سروں پہ قدغن، گھروں میں مدفن، نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن
فضیل صاحب کو ہے یہ اُلجھن، رَجَز پڑھیں یا غزل سنائیں؟