ہر بجٹ عوامی بجٹ ہوتا ہے

                پاکستان کی تاریخ عوامی بجٹ سے بھری ہی نہیں بلکہ پٹی پڑی ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ایک بجٹ بھی ایسا نہیں جو عوامی بجٹ نہ کہلایا ہواس کے باوجود بھی عوام ہیں کہ کبھی خوش نظرنہیں آئے اور ہمیشہ ظلم و جور کی شکایت ہی کرتے رہے۔ ہر بجٹ کے بعد عوام ناخوش نظرآئے، مہنگائی کا رونا روتے رہے، بجٹ کو اپنا ہی (عوام) دشمن قرار دیتے رہے اور سارے سارے سال ایک ہی راگ الاپتے رہے ”ہم مہنگائی کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔

                عوام کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جن لوگوں کو انھوں نے اسمبلیوں میں پہنچایا ہے کیا وہ ان کے یعنی عوام کے نمائندے نہیں؟ اسمبلیوں تک آنے والے جب عوامی نمائندے ہیں، انھیں کی رائے سے ان کا چناو ہواہے، وہ ان کی حقوق کے تحفظ کے لئے منتخب ہوکر وہاں تک پہنچے ہیں تو بھلا وہ کس طرح کوئی ایسا بجٹ بنانے کی جرات کرسکتے ہیں جس میں عوام کا خیال نہ رکھاگیا ہو اور کوئی بات بھی ایسی منظور کی گئی ہو جو ان کی فلاح کی بجائے تباہی و بربادی کا سبب بن جائے۔

                مہنگائی تو ترقی اور خوشحالی کی علامت ہے۔ آج سے ساٹھ سال پہلے پاکستان کے ایک روپے کو بھی ”ایک سو“ حصے میں تقسیم کرنا پڑجاتا تھا۔ یعنی اتنا سستا زمانہ تھا کہ اگر ”ایک روپے“ کے مزید ”سو پیسے“ نہ بنائے جاتے تو 90 فیصد اشیا ایسی تھیں کے ان کا بوجھ لیکر گھرتک آنا دشوار ہوجاتا اور اگر لے بھی آتے تو وہ گل سڑ کر ڈسٹ بن میں پھینکنا پڑجاتیں۔ مثلاً پالک ، ہرادھنیا، مرچیں، پودینہ، ہری پیاز، چنے، نمک وغیرہ، کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی جو ایک روپے میں بیسیوں کلو نہ ملتی ہو۔ پھلوں میں خربوزہ و تربوز ایک روپے میں بیس کلوسے کم نہیں ملتے تھے۔ اسی طرح ضرورت کی بیشمار اشیا ایک روپے میں پوری پوری خریدلینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی اس لئے ایک روپے کو بھی مزید ”سو“ حصوں میں تقسیم کرنا اس وقت کی اہم ترین ضرورت تھی پھر بھی بہت ساری اشیا دکاندار ہر خریدار کو بنا رقم لئے ہی دیدیا کرتے تھے جیسی سبزی فروش دیگر سبزیوں کے ساتھ دھنیا پودینہ یونہی رکھ دیا کرتے تھے۔ لیکن عوام اس بات پر غور نہیں کرتے کہ وہ زمانہ سستا ضرور تھا مگر کیا خوشحالی کا زمانہ تھا؟ کیا لوگوں کے گھر فریج، ٹی وی، اے سی، موٹر سائیکلیں اور کاریں ہوا کرتی تھیں؟ کیا صوفے ہوتے تھے؟ کیا گھر کے فرش ٹائیل والے ہوتے تھے؟ کیا گھر میں اعلیٰ کراکری ہوتی تھی؟ کیا اعلیٰ قسم کا فرنیچر ہوتا تھا؟ کیا لباس ایسے ہی ہوتے تھے جیسے آج کل ہیں؟ کیا اعلیٰ قسم کے ٹھنڈے ٹھا رشاپنگ سینٹر ہوتے تھے؟ کیا گاڑیوں میں بھی اے سی ہوتا تھا؟ کیا فرش پر کارپٹ بچھے ہوئے ہوتے تھے؟ کیا گلیاں میٹل کی بنی ہوئی ہوتی تھیں؟ کیا بلند و بالا عمارتیں ہوا کرتی تھیں؟ کیا لوگوں کے گھروں میںٹیلیفون ہوتے تھے؟ کیا موبائیلوں کی ریل پیل ہوتی تھی؟ مجھے یقین ہے کہ ان سب باتوں کو جواب نہیں نہیں نہیں کے علاوہ اور کچھ نہیں آئے گا۔ تو پھر اب اگر ہر منظر ماضی کے منظر سے زمین و آسمان کے فرق کے ساتھ بدل گیا ہے تو معصوم عوام کو سوچنا چاہیے کہ ایسا سب کچھ مہنگائی بڑھ جانے سے ہوا ہے۔ اتنی سی بات ہمارے نادان عوام کی سمجھ میں نہیں آتی تو دیگر امور مملکت ان کو خاک سمجھ میں آئیں گے؟ لیکن ان کی ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کی ایسی بری عادت پڑ گئی ہے کہ ہر بات میں ایک ہیجان برپا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ کراچی بجلی کی طویل طویل لوڈ شیڈنگ ہونے لگے تو سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اب کوئی ان سے یہ معلوم کرے کہ یہ جو ”یو پی ایس“ کا کاروبار کررہے ہیں کیا یہ عوام میں سے نہیں؟ کیا ان کے پاس پورے پاکستان میں لاکھوں جو ملازمین ہیں وہ سب غیر ملکی ہیں؟ یہ جو کھربوں روپوں کے جنریٹر خرید کر بیٹھے ہیں کیا یہ بھارتی ہیں؟ ان سے منسلک پورے پاکستان میں جو لاکھوں ملازمین ہیں وہ افغانی ہیں؟ اگر لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، لوگ گرمی کے ہاتھوں بلبلائیں گے نہیں، ان کے دماغ گرمی کی شدت سے پھٹنے نہیں لگیں گے اور مچھروں کے بھمبھوڑنے کی وجہ سے ان کے بدن لال ٹماٹروں کے جیسے نہیں ہوجائیں گے تو وہ ”یو پی ایس“ اور جنریٹر کیوں نہیں خریدیں گے؟ جب لوگ یو پی ایس اور جنریٹر خریدیں گے تب ہی تو کھربوں روپوں کی انوسٹمنٹ کرنے والوں کی آمدنی ہوگی اور ان کی آمدنی کی وجہ سے ہی ان کے ملازمین کے گھر کا چولہا گرم ہو سکے گا۔ لیکن یہ بات جاہل عوام کو کون بتائے اور کون سمجھائے۔ اب ذرا تصور کریں کہ کراچی بجلی بغیر تعطل جاری رہے تو یہ کھربوں روپے خرچ کرکے لاکھوں جنریٹر اور یوپی ایس خریدکر دکانیں سجانے والے تباہ و برباد نہیں ہوجائیں گے؟ ان کے ساتھ وابستہ لاکھوں ملازمین بے روزگار نہیں ہوجائیں گے؟ کیا یہ سب عوام نہیں ہیں؟ ۔

                عوام کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اب وہ جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہ صرف اور صرف مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کی وجہ سے ہے۔ ایمانداری سے بتائیں کہ جب ایک روپے میں ایک سیر بڑا گوشت ملجایاکرتا تھا تو کیا بجلی ہر گھر میں تھی؟ اگر تھی تو لوگ چراغ اور لال ٹین یامٹی کے تیل کے لیمپ کیوں جلایا کرتے تھے؟ کیا گیس ہر گھر میں تھی؟ اگر تھی تو لکڑیاں، کوئلے ۔ لکڑی کے گٹکے اور برادے کی انگیٹھیاں کیوں استعمال کرتے تھے؟ ثابت کیا ہوا؟ یہی نہ کہ سستازمانہ خوشحالی نہیں لاتا۔ مہنگائی ہی خوشحالی کی ضمانت اور علامت ہے۔

                عوام کا عجب حال ہے۔ سڑکیں بناو تو کہتے ہیں کیوں بنا رہے ہو، تعمیرات کے لئے راستوں کی کھدائی کرو تو شور اٹھتا ہے کیوں کر رہے ہو۔ ایسی کچھ بھی نہیں کرو تو کہتے ہیں ترقیاتی فنڈ کہاں گئے۔ فنڈ میں ذرا بھی خرد برد کرو ایک شور مچ جاتا ہے۔ کیا فنڈ کو استعمال کرنے والوں کا ”پیٹ“ نہیں ہوتا؟ اس میں کچھ جائے گا تو توانائی ملے گے ورنہ خالی پیٹ ”موٹو“ کے دماغ کی بتی کبھی جلی ہے؟۔ اسمبلی کے ممبران کی تنخواہیں ڈبل کردو تو شور مچانا شروع کر دیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ اسمبلی میں آنے سے قبل یہ کتنے سینک سلائی تھے اب کتنے تن و توش کے مالک ہیں؟ گھر بھی بڑے ہی نہیں بہت بڑے ہو گئے ہیں تو ان کے اخراجات بھی کتنے بڑھ گئے ہونگے؟ پھر یہ کہ کیا وہ عوام میں سے نہیں؟ کیا وہ ان کے باعزت و باوقار نمائندے نہیں؟ اب اگر ان کی عزت و وقار کی خاطر حکومت نے ان کی تنخواہیں دو گنا کردی ہیں تو اس میں برہمی کی کیا بات؟ اسی کو تو حصہ بقدر جثہ کہتے ہیں۔

                عوام کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ بجٹ میں عام آدمی یعنی عوام کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ حکومت، بجٹ بنانے والوں اور خود ان کے منتخب نمائندوں کی سخت توہین ہے۔ جن لوگوں کو عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجا ہوتا ہے وہ ہر فورم پر چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بجٹ عوام دوست ہے بجٹ عوام دوست ہے تو پھر عوام کا یہ کہنا کہ اس میں ان کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھا گیا، اپنے ہی نمائندوں پر بہتان تراشی اور عدم اعتماد کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

                ہر بجٹ کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہی آتی ہے کہ مہنگائی کی چکیوں کے پاٹوں کے سائز بھی بڑھ گئے ہیں، موٹے بھی ہوگئے ہیں اور وزنی بھی اور اس میں غریب عوام پس کر رہ گئے ہیں۔ اس رام کہانی کو ستر برس بیت چکے ہیں اگر اس میں اتنی ہی حقیقت ہوتی تو اب تک اس چکی سے پس کر باہر نکلنے والی کوئی شے بھی باقی نہیں رہ جاتی اس لئے اس مفروضے کو خلاف عقل ہی سمجھ لیا جائے تو بہتر ہے۔

                صوبائی اسمبلیوں میں بھی پیش کئے جانے والے بجٹوں پر بھی اسی قسم کی ماورئے عقل باتیں کی جا تی ہیں کہ بجٹ عوام پر ”مولاجٹ“ بن کر ٹوٹ پڑا ہے؟ بے روزگاری بڑھے گی؟ تعلیم کا ستیاناس لگ جائے گا؟ عوام میں بے چینی جنم لے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب کوئی بتائے کہ ان سب خدشات کا بجٹ سے کیا تعلق؟ یہ بجٹ تو صرف ایک بہلاوا ہوتا ہے یا بس یونہی ایک تکلف ہوتا ہے ورنہ سارے سال غیر اعلانیہ بجٹ پیش کیا جاتا رہتا ہے۔ یقین نہیں آئے تو آج کی ہر شے کی قیمت کا موازنہ کل کی خریداری سے کر کے دیکھ لیجئے گا۔ یہاں تو سارے سال بجٹ ہی چلتا رہتا ہے اسمبلیوں میں پیش کیا جانے والا یا منظور ہونے والا بجٹ تو محض ایک دن کیلئے ہوتا ہے اس لئے بجٹ پر اتنی سیخ پائی بالکل اچھی بات نہیں۔ جب سارے سال غیر پیش کردہ اور غیر اعلانیہ بجٹ عوام کا ستر برس میں کچھ نہ بگاڑسکے تو محض ایک دن کے لئے پیش کیا جانے والا بجٹ عوام کا کیا بگاڑ لے گا۔

                 یہ تو تھیں دل کے پھپھولے پھوڑ نے والی باتیں۔ آخر میں میں اپنے دل کی بات نہایت دکھ اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ کچھ اس طرح رکھنا چاہتا ہوں کہ

زمیں پہ بکھری پڑی ہوئی ہے جو دل کا غنچہ کھلا رہی تھی

ارے کلی کو یہ ہو گیا کیا ابھی تو یہ مسکرا رہی تھی

نظر نے دیکھا کہ شوخ تتلی فضا میں پرواز کر رہی ہے

پلک جو جھپکی تو زرد پتی ہواوں میں تھر تھرا رہی تھی

تجلیوں کے مشاہدے سے نگاہ اب میری پھر گئی ہے

نظر نے اتنے دیئے ہیں دھوکے بصارت آنکھوں سے گر گئی ہے

                (جوش ملیح آبادی)

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں