میٹھی سوغات لائی

 ویسے تو پاکستان بہت ساری میٹھی چیزوں کی وجہ سے مشہور ہے ان میں ایک میٹھی چیز گڑ بھی ہے جس کی مٹھاس اور ذائقہ ہر کسی کی پسند ہوتا ہے سردیوں میں تو اسے کھانا صحت کے لیئے بھی کافی مفید سمجھا جاتا ہےگڑ سے بننے والی میٹھی چیز لائی ایک نئی چیز بھی لگتی ہے گوگل بھی لائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے۔ اس گڑ کی بنائی ہوئی لائی کو پاکستان کے اکثریتی شہروں میں سردیوں میں بہت کھایا جاتا ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہے کہ اس میٹھی سوغات کو بنانا بہت آسان سا ہے مگر در حقیقت اس کو بنانے کیلئے بہت محنت درکار ہوتی ہے یہ کام چاول کی تازہ فصل کے تیار ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور دو سے تین مہینوں تک ہی چلتا ہے اس لیئے لائی صرف دسمبر اور مارچ  تک لوگ تازہ کھا پاتے ہیں۔

لائی کو تیار کرنا بھی مشکل کاموں میں سے ایک کام ہے لائی کو پکانے کیلئے ایک تندور بنایا جاتا ہے جس پر پہلے چاول ابال دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے چاول کی جسامت بڑھ جاتی ہے  پھر ان چاولوں کو تھوڑا سا خشک کیا جاتا ہے۔ پھر ایک کڑاہی میں گڑ ڈالا جاتا ہے پھر تیز آگ پر گڑ کو رکھا جاتا ہے پھر گڑ پانی کی طرح بن جاتا ہے اور گڑ گاڑا شکل اختیار کر جاتا ہے ۔ تو پھر اس میں پکے ہوئے لمبے لمبے ابلے چاول  ڈال دیئے جاتے ہیں۔ پھر اس کو اچھی طرح گھمایا جاتا ہے تاکہ گڈ اور چاول مل جائیں ۔ گڑ اور چاول کو ملانے کے بعد ایک بڑے سے پلیٹ میں ڈال دیاجاتا پھر اس پر روٹی والا بیلن گھمایا جاتا ہے۔ چاول کے لائی کے سائز پنجاب میں کچھ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور گولائی، مستطیل سانچوں میں بنائی جاتی ہے جبکہ پورے ملک میں چاول کی لائی کو  لفظ لوگ مزکر ہی بولتے ہیں۔

چاول کی لائی جب  بن رہی ہوتی ہے تو اس کی مہک بہت دور تک جاتی ہے اس مہک کی وجہ سے بھی لوگ چاول کی لائی کھاتے ہیں۔ جس کی بعد چاول کی لائی ایک بڑی سی روٹی کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر اسے  سوکھنے  کے لیئے سورج کی روشنی کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ چاول کی لائی پاکستان میں مختلف اقسام کی بنائی جاتی ہے جس میں مونگ پھلی کی لائی بادام کی لائی چنے کی لائی تل کی لائی اور دیگر کئی اقسام کی لائی بنائی جاتی ہے جو بازاروں میں الگ الگ داموں پر بیچ دیئے جاتے ہیں۔ چاول کی لائی پورے ملک میں بنائی جاتی ہے مگر پورے ملک میں اس کو الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ چاول کی لائی ملتان میں بھی بنتی ہے گڑ اور چینی دونوں سے بنتی ہے گڑ والی زیادہ لزیز ہوتی ہے مقامی لوگ ملتان میں اسے اپنی زبان میں مرُنڈا بھی کہتے ہیں۔ جبکہ مظفر گڑھ کے لوگ چاول کی لائی کو “ممبرا” بھی کہتے ہے۔

سندھ میں چاول کی لائی لاڑکانہ اور نوابشاہ میں زیادہ پائی جاتی ہے اور جا بجا بنائی جاتی ہے جیکب آباد  میں لائی چاول کے بجائے مختلف خشک میوہ جات سے بھی بنائی جاتی ہے جبکہ پورے سندھ میں  سندھی زبان سے تعلق ۔ ہی کہتے ہیں۔حتاکہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں لائی کو گڑ پٹٓی بھی کہتے ہیں چاول کی روٹی کو بسکٹ کی طرح کھایا جاتا ہے لائی کے بارے میں ایک قول بہت مشہور ہے۔ لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے۔

چاول کے لائی کی فی کلو کی قیمت ایک سو چالیس روپے تک سندھ اور بلوچستان میں ہوتی ہے جبکہ دیگر سوغات کی بننے والے لائی کی فی کلو کی قیمت تین سو روپے سے پانچ سو روپے تک ہوتی ہے۔ جبکہ پورے ملک میں لائی کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے اسے ڈیرہ غازی خان میں “چاولی” لائی بھی کہتے ہیں۔جبکہ اسے اندرون بلوچستان اور سندھ میں اسے چاول کی لائی ہی کہتے ہیں۔ جبکہ کچھ علاقوں میں لائی کو گجی بھی کہتے ہیں جبکہ پنجاب میں اسے مارونڈے کے نام سے بھی پکارا جاتا یے جبکہ اندرون پنجاب میں لائی کو چولاں دی روٹی بھی کہا جاتا ہے جو شخص ایک مرتبہ چاول کی روٹی کھاتا ہے تو پھر بار بار کھانے کا شوق رکھتا ہے جبکہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں گڑ اور خشک میوہ جات سے ملانے کے بعد لائی کو گڑ پٹٓی بھی کہتے ہیں۔ حتاکہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں اسے مرونڈا بھی کہتے ہیں ۔جو بھی ایک بار کھاتا پھر لائی کا ہی ہو جاتا ہے آپ بھی ایک مرتبہ لائی ضرور کھائیں اور اس میٹھی سوغات کا ذائقہ زندگی بھر کیلئے نہیں بھولیں گے۔۔۔

 

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں