1219 ء میں چنگیز خان کے قاصد کے قتل سے شروع ہونے والا تباہی کا سلسلہ ہلاکو خان کے ہاتھوں 1258 ء میں سقوط بغداد پر ختم ہوتا ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل اس داستان میں کئی کردار ایسے ہیں جو اپنی انفرادیت کے باعث تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان میں حاکم اترار ینال خان جیسے امراء بھی شامل ہیں کہ جس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قراقرم سے آنے والا تجارتی قافلہ لوٹ کر اور تاجروں کو قتل کرکے اس قضیے کی بنیاد ڈالی اور علاؤالدین خوارزم شاہ جیسے ناعاقبت اندیش حکمران بھی ہیں کہ جس نے بین الاقوامی مسلمہ قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے چنگیز خان کے قاصد کو قتل کردیا۔ اسی داستان میں جلال الدین خوارزم شاہ جیسا مرد میدان بھی ہے کہ جس نے آخری سپاہی تک تاتاریوں کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ دریائے آمو سے لے کر دریائے سندھ تک تن تنہا عالم اسلام کے دفاع کی جنگ لڑتا رہا۔ اس دفعہ ایسے ہی دو کرداروں کا تعارف قلمبند کیا جارہا ہے۔
حاکم قوقند ۔ تیمور ملک
تاتاریوں کو سلطنت خوارزم کے جن شہروں پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ان میں قوقند کا شہر سر فہرست تھا۔ قوقند جسے کتابوں میں خجند بھی لکھا گیا ہے سلطنت خوارزم کا مشرقی سرحدی شہر تھا۔ دریائے سیحوں یا سیر دریا کے کنارے واقع یہ شہر خوارزم کا نمایاں ترین سرحدی شہر تھا۔ قوقند کا حاکم مشہور زمانہ تاجک سردار تیمور ملک تھا۔ تیمور ملک اپنی فطری بہادری دلیری اور جنگی حکمت عملی کے باعث خوارزم شاہ کے قابل اعتماد امیروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ روضتہ الصفا کے مصنف نے تیمور ملک کو دلیری میں مشہور ایرانی سردار رستم اور سہراب کے ہم پلہ شمار کیا ہے۔
جب علاؤالدین خوارزم شاہ تاتاری حملے سے پسپا ہو کر پامیر کے میدان سے واپس پلٹ گیا تو تیمور ملک کو اندازہ ہوگیا کہ اب سرحدی شہروں پر حملہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ اس نے قوقند کی دفاعی تیاریاں شروع کردیں۔ شہر کے دفاع کے لیے تیمور ملک کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔ جبکہ تاتاریوں کی فوج کا ہر اول دستہ ہی پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا ۔ جبکہ چنگیز خان نے جوجی خان کی قیادت میں بیس ہزار کا لشکر قوقند کے لیے روانہ کردیا تھا۔
تیمور ملک کا قلعہ بند ہونا
مختصر ترین فوج رکھتے ہوئے بھی تیمور ملک نے شہر کے دفاع کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے اپنا دفاعی مورچہ دریا میں واقع جزیرے پر موجود قلعے کو بنایا اور اپنی سپاہ کے ساتھ ضروری سازو سامان لے کر جزیرے میں قلعہ بند ہوگیا۔
ادھر تاتاری افواج قوقند کے قریب ہی واقع بناکت کے شہر پر حملہ آور ہوئیں اور صرف تین دن کی مزاحمت کے بعد بناکت فتح کرکے قوقند پہنچ گئیں۔ قوقند پہنچ کر جوجی خان کو معلوم ہوا کہ تیمور ملک دریا میں ایک جزیرے پر قلعہ بند ہوگیا ہے اور یہ کہ اس نے ساحل پر موجود تمام کشتیاں بھی اپنے پاس جمع کرلی ہیں۔
اب جوجی سٹپٹایا کہ کیا تدبیر اختیار کرے۔ اس نے اپنے تیر اندازوں اور منجیقوں کا رُخ جزیرے کی طرف کرکے حملہ کردیا۔ مگر جزیرہ ان کی پہنچ سے دور تھا اور منجیقوں کے ذریعے پھینکے گئے بھاری پتھر پانی میں گرتے رہے اور تیمور ملک کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
تاتاریوں کی انوکھی ترکیب
بناکت کی فتح کے بعد جوجی خان سمجھ رہا تھا کہ تمام سرحدی شہر اسی طرح آسانی سے فتح ہوجائیں گے اور چند ہی ہفتوں میں ان سے نمٹ کر وہ خوارزم کے بڑے شہروں پر حملہ آور ہونے والی افواج سے مل جائے گا ۔ مگر تیمور ملک کی اس تدبیر نے اسے قوقند ہی میں روک لیا تھا۔ اب جوجی خان نے اس سے نمٹنے کے لیے ایک انوکھی تدبیر اختیار کی۔ اس نے بناکت سے قیدی بنائے گئے مسلمانوں اور قوقند کے شہریوں کو ساحل اور اطراف کے علاقوں پر موجود بڑے بڑے پتھروں کو جمع کرنے پر مامور کردیا۔ پھر ان پتھروں کو تاتاریوں نے دریا میں پھینکنا شروع کردیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ دریا کے بیج میں سے ایک راستہ نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ عقاب کی طرح چوکنا تیمور ملک سمجھ گیا کہ اب چند ہفتوں میں قلعہ تیر اندازوں کی پہنچ میں آجائے گا۔
تیمور ملک کی بکتر بند کشتیاں
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیمور ملک نے اپنے بحری بیڑے میں موجود بارہ مضبوط ترین کشتیاں منتخب کیں اور ان میں لکڑی کی مضبوط چوبی دیواریں بنوا کر نصب کروائیں۔ ان تختوں کے درمیان تیر اندازوں کے لیے سوراخ کروائے اور اپنے ماہر ترین تیر انداز ان کشتیوں میں سوار کروا کر دریا میں راستہ بناتے تاتاری سپاہیوں پر حملہ آور ہوگیا۔ اس طرح سنگی راستہ بناتے تاتاریوں کا کام رُک گیا۔ تیمور ملک کا یہ حربہ بہت کامیاب رہا۔ اس کی بکتر بند کشتیاں ساحل پر موجود تاتاریوں پر حملہ کرتیں، جوابی تیر اندازی چوبی تختوں کی وجہ سے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتی اور وہ صحیح سلامت واپس آجاتیں۔ اب جوجی خان بڑا پریشان ہوا۔
جوجی خان کا جوابی حملہ
خوارزم پر حملہ آور ہونے سے قبل چنگیز خان چین کی سلطنت کو فتح کرچکا تھا۔ اس فتح میں اس کے ہاتھ چینی افواج کے آتشیں اور باروری اسلحہ بنانے کے ماہر لگ گئے تھے، تاتاری ان ماہرین کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جوجی خان نے اب تیمور ملک کی بکتر بند کشتیوں کو تباہ کرنے کے لیے ان سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ چینی ماہرین نے ہانڈیوں میں بارور بھر کے منجیقوں کے ذریعے تیمور ملک کی کشتیوں پر برسانا شروع کردیا۔ اس طرح تیمور ملک کا حملہ رک گیا ۔
بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں ترمیم
اس صورتحال پر تیمور ملک نے اپنی بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں تبدیلی کی۔ اس نے مٹی اور گارے کا لیپ بنوا کر چوبی دیواروں پر ملوادیا اور مزید یہ کہ لکڑی کے تختوں کی چھت بھی بنوالی اور ان چھتوں پر بھی مٹی کا پلستر کروا کر انہیں آگ سے محفوظ کرلیا۔ اس طرح تیمور ملک کی کشتیاں چینی ماہرین کے آتشیں حملوں سے محفوظ ہو کر دوبارہ تاتاریوں پر کامیاب حملے کرنے لگیں۔
جوجی خان کی روانگی
جوجی خان کو قوقند کا محاصرہ کئے تین ماہ بیت گئے۔ تیمور ملک کے حملوں سے دریا میں راستہ بنانے کا کام سست روی سے چل رہا تھا اور ان سے تاتاریوں کا سخت نقصان بھی ہورہا تھا۔ اس صورتحال سے تنگ آکر جوجی خان نے اس مہم کی ذمہ داری اپنے نائب سردار کو سونپ دی اور خود دریا کے بہاؤ کی سمت ایک لشکر لے کر روانہ ہوگیا۔
تیمور ملک کا قلعے کو چھوڑ کر چلے جانا
تین ماہ کے محاصرے کے دوران اگر چہ تیمور ملک نے تاتاریوں کا جم کر مقابلہ کیا تھا اور انہیں سخت جانی نقصان پہنچایا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے سپاہی بھی شہید ہوتے گئے تھے۔ ایک ہزار کی مختصر سی سپاہ میں سے بڑی تعداد ختم ہوگئی تھی ۔ دوسرا یہ کہ اس کے گمان کے مطابق اس نے تین ماہ تک جوجی خان کو مصروف رکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا کیونکہ اسے علاؤالدین خوارزم شاہ کی طرف سے یہی ہدایت ملی تھی کہ سرحدی قلعدار زیادہ سے زیادہ وقت تک تاتاریوں کو مصروف رکھیں تاکہ اسے مرکزی لشکر منظم کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے۔ وہ الگ بات ہے کہ پہلے ہی معرکے کے بعد کہیں بھی علاؤالدین نے ٹھہرکر تاتاریوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
بہر حال تیمور ملک نے جب یہ دیکھا کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود دریا میں بنتا راستہ جزیرے کے قریب آتا جارہا ہے، قلعہ کا سامان خوردنوش بھی کم ہوتا جارہا ہے اور قلیل سپاہ کے ساتھ مزید مقابلہ کرنا خود کشی کے سوا کچھ نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی قسم کی کمک سے مایوس ہو کر اس نے جزیرے سے انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔
رات کی تاریکی میں تیمور ملک نے اپنی مٹھی بھر سپاہ کے ساتھ ستر کے قریب کشتیوں میں سوار ہو کر قلعے سے کوچ کرتے ہوئے دریا کے بہاؤ کی سمت سفر شروع کردیا۔ تاتاری پہرے دار چوکنا تھے انہیں معلوم ہوگیا اور فوراً ایک گھڑ سوار دستہ دریا کے ساتھ ساتھ روانہ ہوگیا۔
جلد ہی تیمور ملک کی بحری بیڑے تک تاتاری پہنچ گئے اور ساحل سے تیر اندازی شروع کردی۔ تیمور ملک تیار تھا اس نے لکڑی کے تختے نصب ہوئی کشتیاں ساحل کی طرف کردیں اور تاتاریوں پر جوابی تیر اندازی شروع کردی۔
ادھر آگے بناکت کا ساحل قریب تھا اور وہاں پہلے ہی تاتاریوں کا قبضہ تھا۔ بناکت کے مقام پر تاتاریوں کو تیمور ملک کے بحری بیڑے کی اطلاع مل چکی تھی اور اسے روکنے کے لیے انہوں نے دریا کے بیچ آہنی زنجیر نصب کی ہوئی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر تیمور ملک نے اس زنجیر کو توڑدیا اور آگے بڑھ گیا۔ آگے جند کا ساحلی شہر تھا اور یہاں جوجی خان کا لشکر مقیم تھا۔ جند کے مقام پر جوجی خان نے تیمور ملک کو روکنے کے لیے دریا میں کشتیوں کا پُل بنا کر ماہر تیر انداز بٹھادئے اور ساحل پر منجیقیں نصب کرواکراس مرد میدان کا انتظار کرنے لگا۔ جوجی خان کو قوقند میں تیمور ملک کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ حساب چکتا کرنا چاہتا تھا۔ مگر تیمور ملک کو اللہ نے کمال زکاوت بخشی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ جوجی خان یقیناًراستے میں جال بچھائے بیٹھا ہوگا۔ چنانچہ دریا میں مناسب ساحل دیکھ کر رات کی تاریکی میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت ساحل پر اتر گیا۔ جب تک تاتاریوں کو علم ہوتا وہ ان کی پہنچ سے دور نکل چکا تھا۔
قربانی کا لازوال مظاہرہ
اب صورتحال اس طرح تھی کہ تیمور ملک اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ آگے آگے تھا اور تاتاری گھڑ سوار دستہ ان کے تعاقب میں سرپٹ دوڑا چلا آرہا تھا ۔ جوجی خان کی ہدایت تھی کہ تیمور ملک کو ہر صورت زندہ یا مردہ پکڑ کے لایا جائے۔ ایسے موقع پر عموماً سالار اپنی جان بچا کر راہ فرار اختیار کرتا ہے اور سپاہیوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کرتا ہے ۔ مگر تیمور ملک نے اپنے ساتھیوں کی بقا کے لیے قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا رہا تاکہ اس کے ساتھیوں کو نکلنے کاموقع مل سکے۔ ایسی مثال ہمیں تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔ تیمور ملک اپنے چند جانثاروں کے ساتھ راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا اور انہیں مصروف رکھتا کہ اس دوران اس کے سپاہی دور نکل جاتے۔ یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کی تمام سپاہ فرار ہوگئی یا تاتاریوں کے ہاتھوں شہید اور تیمور ملک تنہا رہ گیا۔ اس کے تعاقب میں تین تاتاری سپاہی تھے اور اس کے ترکش میں بھی تین تیر ہی باقی بچے تھے۔
تیمور ملک نے ایسا تاک کر نشانہ لگایا کہ ایک تیر حملہ آور تاتاری کی آنکھ میں پیوست ہوگیا۔ اب تیمور ملک نے چلا کر کہا،
’’تمہاری تعداد کے مطابق دو تیر میرے ترکش میں موجود ہیں اور انہیں ضائع کرتے ہوئے مجھے افسوس ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم دونوں لوٹ جاؤ۔ ‘‘
دونوں تاتاری تیمور ملک کی ہیبت سے پہلے ہی خوفزدہ تھے یہ سن کر وہ اور ڈر گئے اور خاموشی سے پلٹ گئے ۔ تیمور ملک کی بہادری کا یہ واقعہ ’’روضتہ الصفاء‘‘اور الجوینی کی ’’جہاں گشائی‘‘دونوں میں تفصیلاً منقول ہے۔
تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ
قوقند کے اس معرکے میں تیمور ملک نے جس دلیری سے تاتاریوں کا مقابلہ کیا تھا اس کا شہرہ پورے خوارزم میں پھیل گیا تھا۔ تاتاریوں کے قابل تسخیر ہونے کا تصور تیمور ملک کی بہادری سے متاثر ہوگیا تھا۔ اگر چہ وہ شہر کا دفاع نہ کرسکاتھا مگر صرف ایک ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں کا تین ماہ تک مقابلہ کرنا اور زندہ سلامت بچ نکلنا ہی بہت تھا۔ آخر کار یہ مرد جری اپنے بادشاہ علاؤالدین خوارزم شاہ کے پاس پہنچ گیا۔مگر جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ علاؤالدین ذہنی طور پر شکست کھا چکا ہے اور کہیں بھی رُک کر چنگیز خان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس شہزادہ جلال الدین تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لشکر منظم کر رہا ہے اور خوارزم میں صرف وہ ہی اس کام کا اہل ہے۔ چنانچہ تیمور ملک جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جلال الدین نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی ۔جلال الدین بہادروں کا قدردان تھا اور جلد ہی تیمور ملک جلال الدین کے قریبی امراء میں شامل ہوگیا۔ تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ آخر تک برقرار رہا اور تاتاریوں کے خلاف جلال الدین کی مزاحمت میں تیمور ملک اس کے ساتھ شریک رہا۔ آج بھی تاجک قوم کے لوگ تیمور ملک کی دلیری پر فخر کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ نامور فاتح امیر تیمور لنگ جو منگول قبائل سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام تیمور ملک کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔
ملک ترکان خاتون
تیمور ملک جیسے بہادر اور نڈر سالار کے بعد سلطنت خوارزم کی ملکہ ترکان خاتون کا تذکرہ اپنے اندر ایک داستان عبرت لیے ہوئے ہے، ملکہ ترکان خاتون علاؤالدین خوارزم شاہ کی والدہ اور سلطان تکش کی ملکہ تھی۔
خوارزم کی سلطنت کی وسعت میں سلطان تکش کی سالوں کی فتوحات شامل تھیں اور ان فتوحات میں سلطان تکش کی ملکہ کا بڑا نمایاں کردار تھا۔ سلطان تکش نے ترکوں کے مشہور جنگجو فیصلے قیچاق کے سردار کی بیٹی سے نکاح کیا تھا۔اس طرح قیچاقی ترکوں کی مدد سے سلطان تکش کو غیر معمولی وسیع سلطنت حاصل ہوگئی۔ ان ترکوں کی وجہ سے ترکان خاتون کو بھی بطور ملکہ سلطنت میں بے پناہ طاقت اور اثروسوخ حاصل ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ترکان خاتون نے سلطان تکش کی طرح باقاعدہ دارالحکومت میں اپنا دربار لگانا شروع کردیا جس میں اس کے اپنے امراء اور عمائدین شامل تھے۔ ملکہ کے دربار سے شاہی فرامین کی طرز پر باقاعدہ فرمان جاری کئے جاتے تھے۔ اکثر اوقات سلطان تکش اور ملکہ ترکان خاتون کے احکامات میں تضاد آجاتاتو حکام شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے کہ کس کے احکامات پر عمل کریں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ طریقہ وضع کیا گیاکہ بعد میں بھی آنے والے فرمان پر عمل کیا جائے گا۔
سلطان تکش کی وفات کے بعد سلطان علاؤالدین خوارزم شاہ کے دورِ حکومت میں ملکہ ترکان خاتون کا عمل دخل سلطنت میں اور بڑھ گیا۔ ایسا لگنے لگا کہ دو متوازی حکومتیں چل رہی ہیں ۔ علاؤالدین خوارزم شاہ جب بھی اپنی والدہ کا اثرو سورخ کم کرنے کی کوشش کرتا قبچاقی امراء اس کے سامنے آکھڑے ہوتے۔
حاکم اترار ینال خان جس نے چنگیز خان کے قافلے کو لوٹ کر اس قضیے کی بنیاد ڈالی تھی وہ انہی قبچاقی امراء میں سے تھا اور ملکہ ترکان خاتون کا رشتہ دار بھی تھا۔ اسی وجہ سے علاؤالدین اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکا۔ اگر چنگیز خان کی شکایت پر ینال خان کے خلاف کاروائی کرلی جائے تو بظاہر اس تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ مگر ترکان خاتون کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
ترکان خاتون کے دباؤ پر ہی علاؤالدین خوارزم شاہ نے اپنے بڑے بیٹے جلال الدین کے بجائے قطب الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ کیونکہ قطب الدین کی ماں کا تعلق قبچاقی قبیلے سے تھا اور وہ ترکان خاتون کی عزیز بھی تھی جبکہ جلال الدین کی والدہ ہندوستانی نژا د تھی۔ اسی وجہ سے ملکہ ترکان خاتون کا تمام عمر جلال الدین سے اختلاف رہا اور وہ ہر وقت جلال الدین کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔ وہ جلال الدین کو حقارت سے ہندوستانی بہو کا بیٹا کہتی تھی۔
چنگیز خان کی یلغار کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اختلافات بھلا کر قبچاقی جنگجو علاؤالدین خوارزم شاہ کے جھنڈے تلے تاتاریوں سے لڑنے لگے۔ مگر چنگیز خان نے ایک سازش کے ذریعے اس تعلق کو دوری میں تبدیل کردیا۔ تفصیل اس واقعے کی کچھ اس طرح ہے کہ طبرستان کے حاکم بدرالدین عمید کے باپ اور چچا کو خوارز م شاہ نے کسی بات پر قتل کروادیا تھا اور بدرالدین اس بات پر دل میں بغض لیے بیٹھا تھا ۔سمر قند پر چنگیز خان کے قبضے کے بعد وہ خفیہ طور پر سمر قند پہنچا اور چنگیز خان کو خوارزم شاہ اور ترکان خاتون کے اختلاف کے بارے میں بتایا ۔ تاتاریوں نے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی سازش کی اور ملکہ ترکان خاتون اور چنگیز خان کے درمیان ایک جعلی خط تیار کروا کر علاؤ الدین شاہ تک پہنچا دیا۔ خوارزم شاہ اس خط کو اصل سمجھ بیٹھا اور قبچاقی سرداروں پر سخت خفاہوا۔ قبچاقی سرداروں نے غصے میں آکر خوارزم شاہ کے خیمے پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا مگر خوارزم شاہ بچ گیا۔اس واقعے کے بعد قبچاقی سردار باقاعدہ طور پر خوارزم شاہ سے باغی ہوکر چنگیز خان سے جا ملے۔
ملکہ ترکان خاتون اور علاؤالدین خوارزم شاہ کے اختلاف کے ضمن میں شیخ مجد الدین کے قتل کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ شیخ مجددالدین اور گنج کے ولی کامل شیخ نجم الدین کے کبریٰ کے خلیفہ تھے۔ (شیخ نجم الدین کبریٰ کا ذکر پچھلے مضمون میں تفصیلاً آچکا ہے)شیخ مجد الدین سے ملکہ ترکان خاتون کو خاص عقیدت تھی اور وہ شیخ کی مجالس میں بکثرت جایاکرتی تھی۔اس عقیدت کی بنا پر خوازم شاہ کے امراء نے الزام لگایا کہ ملکہ شیخ مجدالدین سے نکاح کرنے والی ہے۔ اس بات کو سن کر خوارزم شاہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے فی الفور شیخ مجدالدین کو دریا میں غرق کرکے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ شاہی فرمان یہ عمل کرتے ہوئے شیخ مجد الدین کو اسی طرح قتل کردیا گیا۔ غصہ ٹھنڈا ہونے پر خوارزم شاہ کو بہت رنج ہوا کہ اس نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔ وہ شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں پیش ہوا اور شیخ کے قدموں میں تلوار اور جواہرات رکھ کر کہا،
’’یا تو مجد الدین کے خون بہا میں یہ دولت قبول کرلیں ورنہ اس تلوار سے میرا سر قلم کرکے قصاص وصول کرلیں۔‘‘
شیخ نجم الدین کبریٰ نے فرمایا،
’’مجدالدین کا خون بہا یہ مال و دولت نہیں ہے، اس کا قصاص تو تمہارا سر اور تمہاری پوری سلطنت ہے۔اور اس میں میرا بھی سر قلم ہوگا اور اللہ کے بے شمار بندوں کے سر بھی قلم کئے جائیں گے۔ ‘‘
(حوالہ: روضتہ الصفا، نفحات الانس)
اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست تھی۔ ملکہ ترکان خاتون کی مطلعق العنایت نے سلطنت خوارزم کو بہت نقصان پہنچایا۔ زوالِ خوارزم شاہ کے اسباب میں یہ بھی اہم سبب تھا۔ ملکہ ترکان خاتون کو بر صغیر ہندوستان کی ملکہ نورجہاں کے ہم پلّہ طاقتور شمار کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں میں قدر مشترک تھی کہ ان دونوں کے نام کے سکے ڈھالے گئے۔ مگر ترکان خاتون کو علیحدہ دربار رکھنے کے باعث ملکہ نور جہاں پر سبقت حاصل ہے۔
ملکہ نور جہاں کے برعکس ملکہ ترکان خاتون کا انجام بہت دردناک ہوا۔ سقوط اور گنج کے وقت دارالحکومت چھوڑتے وقت ترکان خاتون نے شقاوت اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیس کے قریب شاہی خاندان کے افراد کہ جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ دارالحکومت خالی دیکھ کر تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں انہیں قتل کروادیا تھا۔ اور گنج سے فرار ہو کر شاہی خاندان کی مستورات کے ساتھ ترکان خاتون نے ایلان کے قلعے میں پناہ لی۔ یہاں وزیر اعظم نظام الملک محمد بن صالح بھی ترکان خاتون کے ہمراہ تھا۔ شاہی خاندان کی موجودگی کا علم ہوتے ہی تاتاریوں نے ایلان کا محاصرہ کرلیا۔ ایلان کا قلعہ خوارزم کے مضبوط قلعوں میں شمار کیا جاتا تھا اور چار ماہ تک تاتاری اس کی فصیلوں کا محاصرہ کئے رہے مگر کچھ نہ بگاڑ سکے۔
قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ جب کسی کی بربادی کا فیصلہ کرلے تو ظاہری اسباب اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ ملکہ ترکان خاتون کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کچھ عجیب و غریب سا واقعہ ہوا۔ ایلان کا قلعہ سرسبز اور شاداب علاقے میں تھا اور وہاں بارش کثرت سے ہوتی تھی۔ قلعے کی غیر معمولی مضبوطی اور علاقے کی سرسبزی اور شادابی کی وجہ سے ہی خوارزم شاہ نے شاہی خاندان کے لیے اسے چنا تھا۔ بارش کی فراوانی کی وجہ سے قلعے میں پانی کی کمی اور قحط کا خطرہ بھی کم تھا۔ مگر قلعے کا محاصرہ ہوتے ہی علاقے سے بارش نے جیسے منہ ہی موڑ لیا۔ ایلان کا علاقہ خشک سالی کا شکار ہوگیا۔ چار ماہ کے سخت محاصرے اور مکمل ناکہ بندی کے بعد قلعے میں راشن ختم ہوگیا۔محصورین بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب ہوگئے اور آخر کار تھک ہار کر قلعے سے باہر نکل آئے۔ قلعے کا دروازہ کھلنا ہی تھا کہ آسمان سے گرج چمک کے ساتھ پانی برسنا شروع ہوگیا۔ جل تھل ایک ہوگیا اور مورخ لکھتا ہے کہ قلعے کے دروازے سے پانی کا ریلہ باہر نشیب کی طرف بہہ رہا تھا۔
وزیر محمد بن صالح کو تاتاریوں نے مستقبل کی مشاورت کے لیے قید کرلیا اور شاہی خاندان کا قتل عام شروع کردیا۔ ملکہ ترکان خاتون کو قید کرکے چنگیز خان کے پاس بھیج دیا گیا۔ چنگیز خان کے دربار میں ملکہ ترکان خاتون کو ذلت اور رسوائی کے لاتعداد مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔ چنگیز خان ملکہ ترکان خاتون کو زنجیریں ڈالے فخریہ انداز میں ساتھ لیے گھومتا تھا اور تاتاریوں کی سالانہ قرولتائی (کانفرنس) میں بھی ملکہ ترکان خاتون کو قیدی کے طور پر فاتحانہ انداز میں لے کر جاتا۔ ملکہ کو بھوک مٹانے کے لیے تاتاریوں کے لنگر سے قطار لگا کر کھانا لینا پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی اس کی نخوت برقرار تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک خوارزمی جو ملکہ کا خدمت گار تھا اور دوران قید بھی ملکہ کے ساتھ تھا اس نے ایک دن فرارکا منصوبہ بنایا اور ملکہ سے کہا کہ فرار ہو کر نکل چلتے ہیں اور قریب ہی جلال الدین تاتاریوں سے نبرد آزما ہے اس کی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہے۔
مگر ملکہ ترکان خاتون نے جواب دیا کہ جلال الدین کی پناہ میں جانے سے بہتر ہے کہ چنگیز خان کی قید میں رہ لیا جائے ۔ آخر کار اس قید میں بیچارگی کی حالت میں ملکہ ترکان خاتون کا انتقال ہوگیا۔
فَاعْتَبِرُوْ ایَآاُولِی الْاَبْصَارِ
*۔۔۔*۔۔۔*
7 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
Nice article
ماشاءاللہ ہمیشہ کی طرح بہت تفصیل سے لکھا ہے عدیل بھائی نے۔۔۔۔
حوالہ جات نے تحریر میں مذید جان ڈال دی ہے ۔۔۔
بہت عمدہ مضمون لکھا ھے آپ نے ماشاء اللہ عدیل سلیم صاحب ، سلامت رہیں
پچھلے مضامین کی مانند عدیل جملانہ صاحب نے ایک عمدہ مضموں لکھا ہے امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح کے تاریخی مضامیں پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔
ماشاءاللہ، عدیل سلیم ایک منجھے ہوئے قلم کار کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور بہت مختصر وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔آپ تاریخ پہ کمال عبور رکھتے ہیں اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ انشاءاللہ اسی طرح ہم آپ کے مضامین سے فیضیاب ہوتے رہیں گے۔
تاتاری حملوں پر بہت آسان اور جامع تحریریں ہیں یہ، کچھ چنگیز خان کی اولاد کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی لکھیں عدیل بھائی!
I saw your article well. You seem to enjoy safetoto for some reason. We can help you enjoy more fun. Welcome anytime 🙂