بلوچستان کے عطائی ڈاکٹر حضرات 

مریض اور ڈاکٹر میں رشتہ داروں جیسا تعلق نہیں ہوتا مگر پھر بھی مریض رشتے داروں سے زیادہ بھروسہ اپنے معالج پر کرتا ہے۔ مریض کبھی یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا معالج اس کی غلط تشخیص کرے گا۔ مریض یہ سوچ کے ہسپتال جاتا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے معالج کی ادویات سے صحت یاب ہو جائے گا لیکن افسوسناک خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے اکثر معالج حضرات مریضوں کو اپنا گاہک سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ معالج اور ادویات ساز کمپنیوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔یہ گٹھ جوڑ مریضوں کے لئے وبال جان کا سبب بن رہا ہے۔
بلوچستان میں عطائی ڈاکٹروں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھر مار نے مریضوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اوپر سے ڈاکٹروں اور ادویات ساز کمپنیوں کو ہر ماہ کروڑوں کا منافع کما کے دیتی ہیں۔ جب ایک میڈیکل سٹور کے مالک سے جعلی ادویات کے بارے میں پوچھا جائے تو کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ کون سی ادویات اچھی کمپنی کی ہیں اور کون سی ادویات بْری اور نقلی کمپنی کی ہیں۔
ڈاکٹروں اور ادویات ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے بلوچستان میں عام لوگوں پہ بہت برے اثرات پیدا کیئے ہیں۔ آج بھی اکثر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بلوچی علاج معالجہ بھی کیاجاتا ہے جو مختلف جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ علاج غریب لوگوں کے لئے موت کا سبب بن رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تو بلوچستان میں طب کا شعبہ کوڑیوں کے داموں بک رہا ہے۔
بلوچستان حکومت پانچ سالوں تک ایک ڈاکٹرپر خرچہ کرتی ہے مگر جب ان ڈاکٹروں کو ڈگری اور نوکریاں دی جاتی ہیں تو یہ لوگ اپنا کلینک بھی کھول لیتے اور ہسپتالوں میں ٹائم نہیں دیتے۔یہایک افسوسناک عمل ہے حکومت بلوچستان نے ان ڈاکٹروں کے سروس اسٹرکچر تک منظور کرلئے ہیں جس کی وجہ سے فی ڈاکٹر کی تنخواہ کم از کم ایک لاکھ روپے تک بنتی ہے۔ لیکن پھر بھی ڈاکٹر حضرات اپنی کلینک کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونے دیتے اور غریب مریضوں کی کھال اتارنے میں پورے دس انگلیوں کا زور لگاتے ہیں۔
سننے میں آتا ہے کہ بلوچستان میں ادویہ ساز اداروں نے ڈاکٹروں کے ساتھ مک مکا کررکھا ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اتنے لاکھ کی ادویات استعمال کرائیں گے توانہیں اتنے لاکھ کا چیک دیا جائے گا۔ جبکہ 25 فیصد سے لیکر 50 فیصد تک کا کمیشن ڈاکٹر اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہ کمیشن کمپنیوں سے ایڈوانس شکل میں بھی لیا جاتاہے اور یوں کمیشن ہولڈر ڈاکٹر اندھا دھند مریضوں کو ادویات لکھ دیتے اور اپنا ٹارگٹ پورا کر کے دم لیتے ہیں۔ جبکہ یہی ڈاکٹر ان کمپنیوں سے اپنے ذاتی گیس بجلی اور پانی کے بل تک بھی ادا کرواتی ہیں۔
ان حالات میں خوش آئند بات یہ ہے کہ محکمہ صحت حکومت بلوچستان نے دن کے اوقات میں پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کے پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کردی ہے جبکہ حکومت بلوچستان نے اپنے جاری شدہ اجازت نامہ اور کلینک کا نام اور بینک اکاؤنٹ اور انکم ٹیکس گوشوارہ جات اور کلینک کے اوقات کی تفصیل کے ساتھ پی ایم ڈی سی رجسٹریشن کی کاپی متعلقہ ڈی سی نے تمام کلینک سے طلب کی ہے مگر تاحال اس نوٹیفکیشن پہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ پورے بلوچستان میں موجود لاکھوں پرائیویٹ ہسپتال جو دن کے اوقات میں کام جاری رکھتے ہیں۔اسیطرح ایک بڑا قدم ادویہ ساز اداروں کے خلاف اٹھانے کا ہے۔جو کمپنیاں ڈاکٹروں کے ساتھ ملی بھگت کرتی ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تو بلوچستان کی قسمت کھل جائے گی۔مگر یہ عمل مشکل لگ رہا ہے لیکن جب انسانیت عزیز ہوگی تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں لگے گا۔

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں