کتابوں کے بوجھ تلے دبی معصومیت

لفظ بوجھ کے آتے ہی ایک اکتاہٹ سی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے ، یوں تو بوجھ کی بے تحاشہ اقسام ہیں اور ہماری نئی نسل کے لیے توہر کام ہی بوجھ کی مد میں جاتا ہے ۔ اس دور کے جہاں اور بہت سارے دکھ ہیں ان میں سے یہ بھی ایک بہت تکلیف دہ عمل ہے کہ نئی نسل کی زندگی میں بیزاریت کا عنصر بہت واضح دیکھائی دے رہا ہے۔ بوجھ تو احسانوں کا بھی ہوتا ہے جسے ساری زندگی ہی لادے لادے پھرنا پڑتا ہے ، دوسرا ہر وہ وزن جسے آپ اپنی خوشی سے نا اٹھانا چاہتے ہوں وہ بوجھ بن جاتا ہے ۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں والدین کی ترجیحات میں اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرے اور دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ ہمارا نام بھی روشن کرے۔والدین اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے محنت مشقت کرتے ہیں تاکہ ان کی اگلی نسل ان سے اچھی زندگی گزارے جس کے لئے بنیادی ضرورت اعلی تعلیم کی ہے ۔ اب اعلی تعلیم کا معیار بھی سمجھ لیجئے جس میں دو بنیادی چیزیں ہیں: پہلی زیادہ سے زیادہ فیس اوردوسری بہت ساری کتابیں۔ بچے بھی روتے دھوتے اسکول جانا شروع کر دیتے ہیں ۔
اپریل کی ابتداء ہوئی ہے تو نئی کلاسوں میں جانے والے بچے بہت ذوق و شوق سے اپنی نئی کتابیں اور بستے لئے اسکولوں کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بچوں نے اپنے اوپرکسی مسلسل کئے جانے والے ظلم کی طرح ان بستوں کو تو لاد لیا ہے ۔ دراصل انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اپنی خواہشات منوانے کیلئے یہ سب کرنا پڑے گا اور اس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔
پانی قدرت کی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کا کوئی نعمل بدل نہیں ہے اب یہ جو پانی ہمیں پینے کو دستیاب ہے کیا اس قابل ہے کہ اسے پی کر انسان زندہ رہ سکے اور اگر زندہ رہ بھی گیا ہے تو بغیر کسی معذوری کے رہ سکے ، کون سی ایسی چیز ہے جو خالص ہے اب جب ہمارے بچے ایسی چیزیں کھائیں گے اور ایسا پانی پیءں گے تو کیا خاک ان میں توانائی یا طاقت آئے گی اور وہ کیا مستقبل کا بوجھ اٹھائیں گے۔ایسے حالات میں ان بچوں پر بھاری بھرکم بستوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔ وہ اس بات پر کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کی نافرمانیوں پر انہیں پہلے ہی اتنا کچھ سننے کو ملتا ہے اور کبھی کبھی تو بات اس سے آگے بھی نکل جاتی ہے ۔کیا بچوں کو اپنی کتابوں کے وزن نما بوجھ کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کا دھرنا دیناپڑیگا یا کوئی احتجاج کرنا پڑے گا، مگر ان کے پاس ہمارے معاشرے میں اتنے اختیارات و وسائل کہاں ہیں۔
گو کہ بھاری بھرکم بستوں کا مسئلہ واقعتاً بہت دیر سے باقاعدہ طور سے اٹھایا کیا گیا ہے ۔ اب جبکہ میڈیکل سے وابستہ لوگوں نے اس بات کی بہت اچھی طرح سے وضاحت کردی ہے کہ یہ بھاری بھرکم بستے طبعی طور پر بچوں کی جسمانی ساخت پر اور افزائش پر کس بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ تو ہمارے محکمہ تعلیم یا ماہر تعلیم یا تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے تھا جو ابھی تک ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔
صبح اسکول جاتے ہوئے آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے بچے اور واپسی میں کڑی دھوپ میں بری طرح سے تھکے ماندے معصوم بچے ان بھاری بستوں کو اٹھائے کتنے مظلوم سے لگتے ہیں۔ اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ بستے کا وزن کس طرح سے کم کیا جائے۔ اس مضمون کے توسط سے تعلیم کے ماہرین کی نظرکچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ اس پر عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہماری کسی بھی قسم کی معاونت درکار ہوگی ہم فراہم کریں گے (ان شاء اللہ)
تجویز نمبر ایک ۔ کتابوں کی چھپائی میں استعمال ہونے والے کاغذ اور گتا کم وزن والا ہو، جس سے کتابوں کا وزن کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر دو۔ نصابی کتابیں دو حصوں میں تقسیم کردی جائیں ایک حصہ جو معروضی ہو جو اسکول لانے کیلئے ہو جبکہ دوسرا حصہ تفصیلی یا بیانیہ ہو جسے گھر پر رکھا جائے۔ اس طرح سے کلاس کا دورانیہ اور بستے کا وزن بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر ۳۔ ایسے اقدام سے اساتذہ کی اہمیت اور بڑھ جائے گی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ بیانیہ دینا پڑیگا۔ اس عمل سے نقل کے رجحان میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی کیونکہ اس طرح سے ذہنی مشقیں زیادہ سے زیادہ ہونگی۔
تجویز نمبر ۴۔ جتنے بھی بڑے اسکول سسٹمز کام کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اپنے نظاموں میں رائج کورس کوسالانہ طور پر مرتب کرنے کیلئے ایک تحقیقی بورڈ تشکیل دیں جو ہر سال اس چیز پر کام کرے کہ کس طرح سے بچوں کو کم کتابوں سے زیادہ سے زیادہ علم فراہم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر پانچ۔ آج ملٹی ٹاسکنگ (ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام جاننا)کا دور ہے اساتذہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ بطور موٹیویشنل اسپیکر(حوصلہ افزائی کرنے والا)اور کاؤنسلر (مشاورت فراہم کرنیوالا) کی بھی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ جس سے استاد شاگرد کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ کم ہونا شروع ہوجائے گا اور ذہنی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔
تجویز نمبر چھ۔ہر اسکول انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ والدین کی تنظیم بنائیں، اس تنظیم کے ساتھ ششماہی یا سہ ماہی ملاقات رکھی جائے جس میں نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں سمیت نصابی عمل پر بھی مشاہدات کی بنیاد پر گفتگو کی جائے۔ ایک متوازن معاشرے کیلئے یہ عمل بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ نئی نسل کی پرورش و نشونما معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے ، جس کے لئے سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑیگا۔
تجویز نمبر سات۔ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں کچھ سبق ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھایا نہیں جاتا یعنی ان اسباق کو کسی بھی وجہ سے نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتااگر یہ معاملہ کتاب کی چھپائی سے پہلے طے کر لیا جائے تو اور انہیں کتابوں سے نکلوا دیا جائے۔
تجویز نمبر آٹھ۔ عددی (ڈیجیٹل ) دور میں کتابیں کتنا کردار ادا کر رہی ہیں اور کیا ہم اس دور کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔
تجویز نمبر نو۔تعلیمی اداروں سے وابستہ ایک اور دیرینہ مسلۂ بھی ہے اور وہ ہے بچوں کے ذرائع آمد و رفت ، ہم سب روزانہ کی بنیاد پر اسکولوں کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی دیکھتے ہیں ان گاڑیوں کی حالت زار پر ماتھے پر شکن اور زبان پر شکوے کے علاوہ اور کچھ اپنے بس میں ہوتا ہی نہیں اسکول انتظامیہ کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ اسکول میں چلنے والی گاڑیوں کی حالت قابل استعمال ہو۔ گرمیاں شروع ہو چکی ہیں یہ گاڑیاں اپنی اسی حالت کے ساتھ بچوں کو بری طرح سے ٹھونس ٹھونس کر بھر لیتے ہیں ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کی بگڑتی ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت سے دھیان دیں ، ہمیں حکومت اور ارباب اختیار کی جانب دیکھنا چھوڑ نا پڑیگا ، ہمیں اپنے آنے والے کل کیلئے خود ذمہ داری اٹھانی پڑے گی اور عملی اقدامات کرنے ہونگے۔
ہم نے ان بنیادی جزیات پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے ۔ہمارے سیاستدانوں نے نا تو کبھی خود اس ملک اور اس میں رہنی والی رعایا کیلئے کچھ کیا ہے اور نا کسی کرنے والے کو کرنے دیا ہے ۔ اس ملک کے ہر ادارے میں سیاست نے گند گھول رکھا ہے ، خدارا تعلیم اور تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک رہنے دیں ہم روتے گاتے ہیں کہ ہماری نسلیں کہاں جا رہی ہیں مگر ہم آنکھیں کھول کر یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں معاشرتی طور پر دیا کیا ہے ان کے لئے کن راستوں کا تعین کیا ہے ۔آج درسگاہوں سے کہیں زیادہ ٹیوشن سینٹر ز اور سماجی میڈیا طالب علموں کی ذہن سازی کر رہے ہیں ، معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مغرب کے بچھائے ہوئے جال کے چنگل میں پھنستے ہوئے اسکول و کالج کے بچے اور بچیاں جس ڈگر پر چلنا شروع ہوگئے ہیں ہم سب بہت اچھی جانتے ہیں ، اس سارے بگاڑ کے پیچھے اگر کوئی ہاتھ ہے تو دوسرا ہاتھ ہمارا بھی برابر کا شریک ہے ۔ ہمارا دھیان بانٹ دیا گیا ہے ۔سرے عام اسکول یونیفارم میں بچے سگریٹ نوشی کر رہے ہیں اور بچے بچیاں پارکوں میں ٹہلتے نظر آرہے ہیں۔ اسکولوں کی انتظامیہ ، اساتذہ اور والدین اپنی اپنی حدود سے باہر نکل کر ایک جامع حکمت عملی بنائیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ۔ تب کہیں جا کر ان معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے ، ورنہ خاتمہ بالخیر ہوتا سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب پریشانیاں ختم تو نہیں مگر بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں۔ اگر مذکورہ بالا تجاویز کا بغور جائزہ لیتے ہوئے عملی طور پر کام کیا جائے۔ کم از کم معصومیت کو کتابوں کے بوجھ سے تو آزادی مل جائے گی۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں