گزشتہ بلاگ میں عالم اسلام پر چنگیزی یلغار کے سلسلے میں سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ جسے بڑی تعداد نے پسند کیا اور کئی احباب نے چنگیزی یلغار پر مزید لکھنے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ اس سلسلے کو وسعت دیتے ہوئے اب سلطنتِ خوارزم کے دارالحکومت اور گنج کی تباہی کو قلمبند کیا جارہا ہے اور ضمنی طور پر خوارزم کی عظیم روحانی شخصیت شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کا احوال بھی پیش خدمت ہے۔
اور گنج:
اور گنج کا شہر جسے انگریزی میں Urgenchلکھتے ہیں دریائے آموکے کنارے واقع تھا۔ یہ شہر عالم اسلام پر چنگیز خان کی یلغار کے وقت سلطنت خوارزم کا دارالحکومت تھا۔ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سمر قند اور بخارا اس شہر کے ہم پلہ تھے۔ اور گنج اُس وقت صنعت و حرفت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ خوارزم کا دارالحکومت ہونے کے سبب علاقائی تجارت کا مرکز بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ معاشی طور پر اورگنج کی حیثیت خوارزم کے دیگر شہروں میں نمایاں تھی۔
دریائے آمو کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں مچھلیوں کا کاروبار عروج پر تھا۔ اورگنج کی دریائی مچھلیوں کی مانگ پورے خوارزم میں تھی۔ اس کے علاوہ اورگنج کے خشک میوہ جات بھی بہت مشہور تھے۔ تلوار سازی اور مروجہ جنگی سازو سامان کی صنعت کے حوالے سے اورگنج کی نمایاں حیثیت تھی۔ دینی اور عصری علوم میں اورگنج کے مدارس اور جامعات یکتا تھیں۔ ’’جامعہ اور گنج‘‘ خطے کی مشہور جامعہ تھی جس کے شیخ الحدیث علامہ فخر الدین رازیؒ جیسے نابغہ روزگار شخص تھے۔ صاف ستھرے محلے، خوشنما باغات، خوبصورت مساجد اور ان مساجد کے بلند و بالہ مینار اور دیدہ زیب گنبد اور گنج کی پہچان تھے۔ دفاعی نکتہ نظر سے شہر کی حفاظت مضبوط اور مستحکم فصیل کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اور گنج کی فصیل اونچائی اور مضبوطی کے لحاظ سے خوارزم کے دیگر شہروں سے منفرد تھی۔ (چنگیزی یلغار کے وقت اسی فصیل نے شہر کی پانچ ماہ تک حفاظت کی۔)
سمر قند بخارا اور دیگر شہروں کی بربادی کے بعد اور گنج میں چاروں طرف سے پناہ گزینوں کا سیلاب آگیا تھا۔ یہ پناہ گزین اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کی داستانیں لائے تھے۔ قتل و غارت گری اور تاتاری وحشیانہ پن کی کہانیاں سن کر اور گنج کی فضا بوجھل ہوگئی تھی ۔ دارالحکومت کے باسیوں میں بھی وحشی تاتاریوں کا خوف پیدا ہوگیا تھا۔ اگرچہ فصیل کی مضبوطی بہت زیادہ تھی مگر پھر بھی ایک اندیشہ عوام میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ ایسے میں سلطان علاؤالدین کی وفات اور سلطان جلال الدین کی تخت نشینی نے اورگنج کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کردی۔
جلال الدین کی بطور خوارزم شاہ اور گنج آمد:
گزشتہ ماہ تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے کہ علاؤالدین خوارزم شاہ چنگیز خان کی یلغار سے گھبرا کر بحرِخزر میں روپوش ہوگیا تھا۔ دوران روپوشی ہی ولی عہد سلطنت شہزادہ قطب الدین ازلاق کی بطور ولی عہد نامزدگی کا لعدم قرار دیتے ہوئے علاؤالدین خوارزم شاہ نے جلال الدین کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ چنانچہ جلال الدین خوارزم شاہ کے طور پر اور گنج میں داخل ہوگئے۔
تاتاری حملے سے خوفزدہ اور گنج کے عوام نے جلال الدین کا استقبال کیا مگر اس کے بھائی قطب الدین ازلاق نے جلال الدین کی دارالحکومت آمد بطور خوارزم شاہ کے دل سے قبول نہیں کی۔اس نازک دور میں جب تاتاری خوارزم میں تباہی مچا رہے تھے بجائے بھائی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے قطب الدین نے جلال الدین کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ دارالحکومت میں پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ تخت خوارزم کا اصل وارث قطب الدین ازلاق ہی ہے اور یہ کہ جلال الدین نے اس کا حق غضب کرلیا ہے۔ آہستہ آہستہ قطب الدین نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کا گروہ منظم کرلیا۔
ادھر سمر قند میں چنگیز خان کو یہ اطلاع ملی کہ خوارزم شاہ کا انتقال ہوگیا ہے اور جلال الدین کی تخت نشینی پر اختلافات پیدا ہورہے ہیں تو اس نے اور گنج پر حملہ کرنے کیلئے یہ وقت بہترین خیال کرتے ہوئے اپنے لشکر کو پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیا۔
جلال الدین کی دارالحکومت سے روانگی
اور تاتاریوں کی آمد :
دارالحکومت اور گنج میں اپنے خلاف سازشوں کو محسوس کرتے ہوئے جلال الدین نے عالم اسلام کی سر بلندی کے خاطر ایک عظیم فیصلہ کیا۔ اسے علم تھا کہ تاتاری کسی بھی وقت اور گنج پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خوارزم کی افواج پہلے ہی تتر بتر ہوچکی تھی۔ مٹھی بھر افراد اور گنج کے دفاع کیلئے بچے تھے اگرچہ دیگر شہروں سے اور گنج میں جلال الدین کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی رضاکاروں کی آمد شروع ہوگئی تھی مگر پھر بھی صورت حال غیر اطمینان بخش تھی۔ ایسے میں جلال الدین نے قطب الدین سے لڑنے کے بجائے کہ اس میں مسلمانوں کا سراسر نقصان تھا ایک عجیب قدم اٹھایا۔ اس نے دارالحکومت قطب الدین کیلئے خالی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔ امت مسلمہ کی خاطر اقتدار چھوڑنے کی روایت تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ مگر جلال الدین خوارزم شاہ نے آپس کے خون خرابے سے بچنے کے خاطر اور گنج کا دفاع قطب الدین ازلاق کے سپرد کرتے ہوئے اور گنج سے روانگی اختیار کرلی۔
جلال الدین کے جاتے ہی قطب الدین کو تاتاریوں کی آمد کی اطلاع ملی۔ اب وہ گھبرا یا کہ اکیلا کس طرح تاتاریوں کا مقابلہ کرے ۔ قطب الدین نے شاہی خزانہ سمیٹا اور اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے کر دارالحکومت سے فرار ہوگیا۔ اس کے جاتے ہی تاتاری لشکر باجی نویان کی قیادت میں اورگنج پہنچ گیا۔ ابن خلدون کے مطابق اورگنج سے جلال الدین کی روانگی کے تین دن بعد ہی باجی نویان لشکر جرار کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
پہلا معرکہ:
محاصرہ شروع ہوتے ہی ایک دن تاتاریوں نے شہر کے نواح میں موجود اہل شہر کے مال مویشی ہانک کر تاتاری لشکر کی سمت لے جانے شروع کئے اور گنج والوں نے یہ دیکھ کر تاتاریوں کا پیچھا شروع کردیا۔ کئی میل دور تک مسلمانوں نے تاتاریوں کا تعاقب کیا اور پھر گھات لگائے تاتاریوں نے مسلمانوں کو اچانک گھیر لیا اور زبردست حملہ کردیا۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اس میں دونوں فریقوں کا سخت جانی نقصان ہوا۔ بالآخراہل اور گنج شہر کی طرف پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپس ہوئے۔ تاتاری پیچھا کرتے ہوئے شہر کے اندر تک داخل ہوگئے مگر پھر واپس آگئے ۔ اگلے دن باجی نویان نے فصیل پر بھر پور حملہ کردیا۔ مگر اس حملے کو اورگنج کے سپاہ نے ناکام بنا دیا۔
چنگیز خان کے بیٹوں کی آمد:
چنگیز خان کو معلوم تھا کہ اورگنج کا دفاع بہت سخت انداز میں کیا جائے گا اور پھر شہر کی فصیل کی مضبوطی کا بھی اسے علم تھا ۔چنانچہ اس نے اپنی پوری قوت اور گنج کی طرف روانہ کردی۔ سب سے پہلے اور گنج کا محاصرہ کرنے والی سپاہ سے چنگیز خان کا بیٹا اوکتائی خان اپنی سپاہ کے ساتھ آکر مل گیا۔ اس کے بعد مشہور تاتاری سالار بقرجن نویان ، چنگیز خان کا دوسرا بیٹا چغتائی خان اور پھر بڑا بیٹا جوجی خان اپنے اپنے لشکر کے ساتھ پہنچتے چلے گئے ۔ اسی طرح تاتاری لشکر کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ محاصرے میں چنگیز خان نے جتنی سپاہ استعمال کی اتنی سپاہ کسی اور حملے میں استعمال نہیں کی۔ علامہ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں، ’’چنگیز خان نے لشکر کا جو حصہ اور گنج بھیجا تھا وہ باقی تمام حملوں کی فوجوں سے بڑا تھا۔‘‘
امیر خمار ترکی کی مزاحمت اور تاتاریوں کی طرف
سے فصیل پر تنوں کی بارش:
اور گنج میں اب شاہی خاندان کا کوئی بڑا موجود نہ تھا ۔ اہلِ شہر نے اب خمار ترکی نامی امیر کو حاکم تسلیم کرتے ہوئے اس کی قیادت میں تاتاریوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ سمر قند اور بخارا کی نسبت اورگنج میں تاتاریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ خمار ترکی کے شب خون حملوں اور چھاپہ مار دستوں نے تاتاریوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف فصیل شہر کو نقصان پہنچانے کے لیے تاتاریوں نے درختوں کے تنے جمع کئے اور انہیں پانی میں بھگو کر بھاری کرلیا اور پھر ان تنوں کو منجیقوں کے ذریعے فصیل کی دیوار پر برسانا شروع کردیا۔ اس بارش سے کئی جگہ شگاف پڑ گئے۔ مگر شہر والوں نے ان شگافوں کو فوراً بند کردیا۔ اس کے علاوہ منجیقوں سے آتش گیر مادہ بھی برسایا جاتا رہا۔
شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ
اور گنج کا ذکر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کے بغیر نا مکمل رہے گا۔ آپ سلسلہ کبرویہ کے بانی اور وقت کے مشہور صوفی بزرگ تھے۔ آپ کا شمارماورالنہر کے صاحبِ طریقت بزرگوں میں ہوتا تھا۔ آپ ایک عرصے سے اورگنج میں مقیم تھے۔ تاتاری حملے سے قبل آپ نے اپنے خلفاء کی مجلس طلب کی اور ان سے فرمایا کہ ’’عنقریب ایک فتنہ اس شہر پر نازل ہونے والا ہے جس سے ہر چیزبرباد ہوجائے گی، لہٰذا تم سب لوگ اپنے اپنے علاقوں کی طرف نکل جاؤ اور یہ شہر چھوڑدو۔ ‘‘
آپ کے ایک خلیفہ نے کہا کہ حضرت آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں جس پر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے فرمایا کہ مجھے حکم نہیں ہے اور میں یہیں شہید ہوگا۔ سوال کیا گیا کہ حضرت آپ اس فتنے کے فرو ہوجانے کی دعا کیوں نہیں کرتے؟ جس پر شیخ نے جواب دیا کہ یہ مشیت ایزدی ہے اور اسے کوئی نہیں ٹال سکتا ۔ جامع التواریخ کے مصنف نے اس واقعے کو تفصیل سے درج کیا ہے۔
بہر حال شیخ نے فتنہ تاتار کے وقت اور گنج سے ہجرت نہیں کی اور جب چنگیز خان کے بیٹوں نے اورگنج کا محاصرہ کرلیا تو چنگیز زادوں کو شیخ کی کرامات کے بارے میں بتایا گیا۔ چنگیز زاد ے ان باتوں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے شیخ نجم الدین کبریٰ کو پیغام بھیجا کہ آپ کو امان دی جاتی ہے اور آپ فوراً شہر سے نکل جائیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہماری مہم کا انجام غارت گری کے سوا کچھ نہ ہو۔
اس پر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے وہ جواب دیا ہے جسے آج تک تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا:
’’اس شہر میں میرے مریدین رہتے ہیں، انہیں چھوڑ کر اگر میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
اس پر تاتاریوں نے آپ کو اپنے ساتھ دس افراد کی جان بخشی کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول نہیں کیا۔ اس پر آپ کو سو افراد کو ساتھ لے جانے کی پیش کش کی گئی جسے آپ نے پھر منع فرمادیا۔ آخر میں چنگیز خان کے بیٹوں نے شیخ سے کہا کہ آپ اپنے ساتھ ایک ہزار افراد لے جائیں ہم کوئی تعرض نہیں کریں گے ، جس پر آپ کا جواب تھا:
’’یہ کیسے ممکن ہے کہ جس قوم کے ساتھ میں نے سکون کے ستر سال گزارے ہیں، مصیبت کے وقت میں انہیں چھوڑ کر چلاجاؤں ۔ میری غیرت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ ‘‘(جامع التواریخ)
چنانچہ شیخ نجم الدین آخر وقت تک اور گنج میں رہے اور پھر تاتاریوں سے جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے۔اس طرح شیخ نے حمیت اور غیرت کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
سفاکیت اور درندگی کا انوکھا منصوبہ اور
چنگیززادوں میں اختلاف:
عالم اسلام پر تاتاریوں کی جانب سے کی جانے والی لشکر کشی تقریباًدو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس لشکر کشی کے دوران تاتاریوں نے سفاکیت اور درندگی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ جن کی نظیر نہ ان سے پہلے کہیں ملتی ہے اور نہ ہی ان کے بعد دنیا میں کسی نے اپنی مفتوح اقوام سے ایسا سلوک کیا۔ تاتاریوں نے عام اور نہتے مسلمانوں سے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا۔ قتل و غارت گری کی وہ داستانیں رقم کیں کہ انہیں لکھتے ہوئے آج کا مورخ بھی کانپ اٹھتا ہے۔ شہر فتح کرنے کے بعد پوری پوری آبادیوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔خصوصاً وہ شہر جہاں مسلمانوں نے زیادہ مزاحمت دکھائی ان علاقوں میں تو انسانوں کے ساتھ ساتھ کتے اور بلیوں کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ پوشیدہ خزانوں کی برآمدگی کے لیے مشتبہ مالدار افراد پر تشدد کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔
مقتولین کی کھوپڑیوں کے مینار بنانا ان کا مشغلہ بن گیا تھا۔ شہر کے باسیوں سے تمام مال و دولت چھینتے ، ان کا قتل عام کرتے، اس کے بعد ان کے مکانات کو آگ لگادیتے اور اس طرح تہہ خانوں میں چھپے ہوئے لوگ بھی زندہ جل کر ہلاک ہوجاتے۔ سمر قند بخارا، قوقند، اترار اور دیگر شہروں میں عام مسلمانوں اور جنگی قیدیوں سے یہی سلوک کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جن شہروں کو امان دی گئی اور باقاعدہ معاہدہ کرکے قبضہ کیا گیا ان شہروں میں بھی کسی نہ کسی بہانے سے یہی سلوک کیا گیا۔ ایسے مواقع پر وہ مسلمان عمائدین جو غداری کرکے تاتاریوں سے ساز باز کرلیتے انہیں بھی بعد میں قتل کردیا جاتا۔
سمر قند میں بر شمشاش خان نے عین لڑائی کے دوران اپنی تیس ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں سے معاہدہ کرکے مسلم لشکر سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بعد میں کچھ دن تو برشمشاش خان اور اس کی سپاہ سے عمدہ سلوک روا رکھا گیا۔ مگر ایک رات اچانک حملہ کرکے برشمشاش خان اور اس کی تیس ہزار کی سپاہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔
(روضتہ الصفا کے مصنف نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے)
مقصد اس تمہید کا یہ تھا کہ اپنے قارئین کو یہ بتایا جائے کہ اور گنج والوں کے ساتھ تاتاریوں نے وہ سلوک کیا جو باقی اور کسی جگہ نہیں کیا۔ اس شہر کی تباہی کیلئے وہ سامان پیدا کئے گئے کہ جن کے باعث شہر میں موجود انسانوں کے ساتھ چرند پرند، حیوانات، باغات، ہریالی اور یہاں تک کہ تمام مکانات اور عمارتیں بھی نیست و نابود ہوگئیں۔ یعنی کہ اس شہر کا نام و نشان ہی مٹ گیا ۔ بعد میں اور گنج کے نام سے الگ شہر دوسری جگہ بسایا گیا۔
تفصیل اس سانحے کی کچھ اس طرح ہے کہ اورگنج کا شہر دریائے آمو یا دریائے جیحوں کے کنارے آباد تھا۔ تاتاری لشکر کی مدد کیلئے چنگیز خان نے اپنے تین بیٹے جوجی، اوکتائی اور چغتائی خان اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ بھیج دیے تھے کیونکہ دارالحکومت ہونے اور مضبوط فصیل شہر کے باعث چنگیز خان سخت مزاحمت کی توقع رکھتا تھا۔ اس طرح اور گنج کے باہر تاتاریوں کا عظیم الشان لشکر جمع ہوگیا۔ چغتائی خان نے اس افرادی قوت کو دریائے آمو کا رُخ تبدیل کرنے کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔چغتائی خان نے ارد گرد کے علاقوں میں موجود مسلمان قیدیوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ تاتاریوں کو لگا کر دریا میں پتھروں کا بند باندھنا شروع کردیا کہ اس طرح دریا کا رخ تبدیل ہوجاتا اور گنج کا شہر پانی میں غرق ہوجاتا ۔ چغتائی خان نے سپاہ کی بڑی تعداد اس کام پر مامور کردی۔ اس موقع پر جوجی خان نے اس منصوبے کی مخالفت کردی۔ اس نے کہا، ’’یہ شہر بہت سر سبز اور خوبصورت ہے اور مزید یہ کہ خاقان اعظم چنگیز خان نے یہ شہر مجھے بخش دیا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے۔ ‘‘چغتائی خان نہیں مانا اور دونوں بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔ مگر اس دوران دریا پر بند باندھنے کا کام چلتا رہا۔ باہمی اختلاف کے باعث تاتاری لشکر کا نظم و ضبط کمزور پڑگیا اور ان کے حملوں میں وہ قوت نہ رہی ۔ تاتاریوں کو کمزور پڑتا دیکھ کر مسلمانوں نے حملے تیز کردئیے اور تاتاری مقتولین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
تولی خان کی آمد
چنگیز خان اس دوران طالقان کے محاصرے میں مصروف تھا کہ اسے اس صورتحال کی اطلاع ملی۔ اس کے جاسوس نے بتایا کہ جوجی اور چغتائی کی چپقلش کے باعث تاتاریوں کا جانی نقصان ہورہا ہے۔ چنگیز خان نے فوراً اس صورتحال کو سنبھالنے کیلئے اپنے چوتھے بیٹے تولی خان کو اورگنج روانہ کیا اور اپنا ایک مکتوب اوکتائی خان کے لیے بھیجا جس میں اوکتائی خان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ حکمت سے کام لے کر جوجی خان اور چغتائی خان کے درمیان صلح کروائے۔ تولی خان اور گنج پہنچ گیا اور چنگیز خان کی ہدایات کے عین مطابق اوکتائی خان جوجی اور چغتائی کے درمیان صلح کروانے میں کامیاب رہا اور اس طرح تاتاری نئے جوش اور ولولے کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔
آخری معرکہ
تاتاریوں کا نیا انداز دیکھ کر مسلمانوں نے بھی شہر سے باہر نکل کر حملوں میں تیزی کردی۔ فصیل کی اوپر اور دروازوں کے ساتھ ساتھ دو بدو لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ اورگنج میں مسلمانوں نے بڑی بے جگری سے دفاع کیا اور تاتاری سپاہ کی بڑی تعداد قتل کی۔ شہر کے باہر تاتاریوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے مگر ان کی تعداد اس قدر تھی کہ پھر بھی اور گنج والے کمزور ہوتے چلے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اورگنج کے سقوط کے بعد اسکے نواح میں جگہ جگہ تاتاری لشکر کے مقتولین کی باقیات تقریباً سو سال بعد تک موجود رہیں۔ اور گنج میں جتنے تاتاری مارے گئے اتنے کسی اور جگہ قتل نہیں ہوئے ۔ جامع التواریخ جو سقوط اور گنج کے سو سال بعد لکھی گئی اس کے صفحہ نمبر 313 میں مصنف فضل اللہ ہمدانی رقم طراز ہیں۔
’’تاتاریوں کی ہڈیوں کے جمع کرنے سے جو ٹیلے وجود میں آئے تھے ان کے آثار اب بھی نواحی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (جامع التواریخ)
مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ محاصرے کے تقریباً چھ ماہ بعد آخر کار اور گنج کی فصیلوں کے شگاف سے تاتاری شہر میں داخل ہوگئے۔ شہر کے اندر بھی مختلف محلے الگ الگ دفاعی تدابیر اختیار کئے ہوئے تھے۔ ہر محلے کی اپنی فصیل بھی موجود تھی۔ تاتاری ایک کے بعد ایک محلے پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ ہر محلے میں لڑائی شروع ہوگئی۔ عورتیں اور بچے گھر کی چھتوں سے تاتاری لشکر پر حملہ کر رہے تھے۔
مفتی علاؤ الدین خیوطی کا وفد یہ صورت حال دیکھ کر اہل اور گنج نے پہلی مرتبہ تاتاریوں سے امان طلب کی ۔ عمائدینِ شہر کا وفد مفتی علاؤالدین خیوطی کی سربراہی میں جوجی خان کے سامنے پیش ہوا اور شہر والوں کے لیے امان طلب کرنے کا خواہاں ہوا۔ مفتی صاحب نے جوجی خان سے کہا:
’’ہم آپ کی دہشت تو دیکھ چکے ہیں، اب ہمیں اپنے رحم و کرم کا نظارہ بھی کروائیں۔ ‘‘
جوجی خان نے جواب دیا،
’’دہشت تو تم لوگوں نے پھیلا رکھی ہے کہ میرے سپاہیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے ہیں، اپنی دہشت تو میں تم لوگوں کو اب دکھاؤں گا۔‘‘
اس طرح یہ وفد ناکام ہوگیا اور شہر والوں کی درخواست مسترد کردی گئی۔
شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کی شہادت
شیخ نجم الدین کبریٰ کو جب اطلاع ملی کہ جنگ اب شہر کے اندر شروع ہوگئی ہے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مریدین نے کہا کہ حضرت اس وقت باہر نکلنا خطرناک ہوگا، آپ نے جواب دیا ، ’’میں تو بس اپنے سفید بال شہادت کے رنگ سے رنگنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
شیخ کے اعلا ن کو سن کر ان کے مریدین ان کے ساتھ باہر آگئے اور آپ نے اس مٹھی بھر جماعت کے ساتھ تاتاریوں پر حملہ کردیا، پتھروں کا ایک تھیلا آپ کے پاس تھا جس سے اسّی سالہ یہ ولی کامل تاتاری سپاہ پر حملہ کرکے اصحاب بدر کی یاد تازہ کر رہا تھا،جلد ہی یہ پتھر ختم ہوگئے تو آپ نیزہ تان کر تاتاریوں کے مجمع میں گھس گئے اور کئی سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔ ایسے میں ایک تیر آپ کے سینے میں پیوست ہوگیا۔ مورخ لکھتا ہے کہ آپ نے وہ تیر اپنے سینے سے نکال کر آسمان کی طرف اُچھا ل دیا، اور فرمایا:
’’میرے مالک میں تیری رضا میں خوش ہوں ۔‘‘
اس طرح شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے جام شہادت نوش کیا ، کہا جاتا ہے کہ اس زخمی حالت میں بھی آپ نے ایک تاتاری پر حملہ کرکے اس کے ہاتھ میں موجود تاتاری علم کو چھیننے کی کوشش کی اور تاتاری علم کو ہاتھوں میں اس طرح مضبوطی سے پکڑلیا کہ وہ شہادت کے بعد بھی شیخ کے ہاتھوں سے جدا نہ ہوا۔
مولانا جلال الدین رومی ؒ نے جو شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کے خلیفہ مولانا بہاؤ الدین ؒ کے فرزند تھے اس واقعے پر فرمایا:
’’بہ یکے دست مئے خالصِ ایمان نوشند
بہ یکے دست دگر پرچمِ کافر گیرند‘‘
ترجمہ: اللہ کے عاشق ایک ہاتھ سے ایمان کی خالص شراب نوش کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے کافر کا پرچم تھام لیتے ہیں۔)
تباہی شروع ہوتی ہے
آخری حملے کے تقریباً ایک ہفتے بعد تاتاری شہر پر مکمل طور پر قابض ہوگئے مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ اب تباہی اور بربادی کا اصل دور شروع ہوا ، جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ خوارزم بھر سے پناہ گزین اور گنج میں جمع ہوگئے تھے ان میں لاتعداد اہل ہنر دفن بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ بھی اورگنج میں بڑی تعدادمیں ہنر مند طبقہ موجود تھا۔ تاتاریوں نے آنے والے وقت کی ضرورت کے حساب سے ہنر مندافراد کو قیدی بناتے ہوئے الگ کردیا۔ اسی دوران شہر میں لوٹ مار کا دور چلتا رہا۔ امیر اور دولت مند افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تاکہ وہ پوشیدہ مال و دولت تاتاریوں کے حوالے سے کردیں۔ اس سلسلے میں مکر و فریب سے بھی کام لیا گیا۔ جان بخشی کے جھوٹے وعدے بھی کئے گئے ۔ غرض جب اورگنج میں لوٹنے کو کچھ باقی نہ بچا تو قیدیوں کے علاوہ تمام مرد و عورت اور بچوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ تلواریں، نیزے، چاقو غرض ہر ہتھیار اور گنج کے لوگوں پر استعمال کیا گیا ۔ یہاں تک کہ ایک بھی زندہ انسان باقی نہیں بچا۔ جامع التواریخ میں اورگنج کے مقتولین کی تعداد بارہ لاکھ شمار کی گئی ہے۔ لکھا گیا ہے کہ اس قتل عام میں پچاس ہزار تاتاریوں نے حصہ لیا۔
اب تاتاریوں نے اپنے اگلے منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ عرض کیا گیا تھا کہ قیدیوں اور سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد دریائے آمو کا رُخ تبدیل کرنے کے لیے پتھروں کا بند تعمیر کررہی تھی۔ جوجی خان اور چغتائی خان کی چپقلش کے دوران بھی اس منصوبے پر کام چلتا رہا۔ بعد میں جب اوکتائی خان نے باہمی اختلاف ختم کیا تو اس منصوبے پر کام اور تیز کردیا گیا۔ اب جب اورگنج کا قتل عام مکمل ہوگیا تو باقاعدہ طور پر دریائے آمو کا رخ تبدیل کرکے اورگنج شہر کی جانب کردیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر پانی میں غرق ہوگیا!
تباہی اور بربادی کی یہ وہ مثال ہے جو انسانی تاریخ میں شاید ہی اور کہیں ملے کہ ایک بھرے پڑے شہر کی آبادی کو قتل کرکے اسے پانی میں اس طرح غرق کردیا گیا کہ تمام جاندار ، نباتات، کیڑے ، مکوڑے اور عمارتیں دریا کی تند و تیز موجوں میں غائب ہوگئیں۔ اس طرح مکانات کے خفیہ کمروں اور تہہ خانوں میں پوشیدہ انسان بھی غرق ہوگئے۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ المیہ تھا کہ جس نے سنا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ اس طرح بھی ممکن ہے ۔
ابن اثیر ؒ اپنی تاریخ ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’تاتاریوں نے اس شہر کو مکمل طور پر غرق کردیا، عمارتیں تہہ و بالا ہوگئیں، ان کی جگہ پانی نے لے لی، دوسرے شہروں میں تو کئی لوگ بچ جاتے تھے لاشوں کے نیچے چھپ کر یا تہہ خانوں میں پناہ لے کر مگر اس شہر میں جو بچ گیا اسے پانی نے غرق کردیا یا عمارتوں کے گرنے سے ہلاک ہوگیا۔ ‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
12 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ عدیل سلیم صاحب ہمارے نوجوانوں کے لیے عام فہم انداز میں اس علاقے کے عروج و زوال کی داستان قلم بند کر رہے ہیں جس کو پاکستان کے مورخین نے افسوس ناک طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے. یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے برصغیر پاک و ہند کے تہذیبی ڈانڈے ملتے ہیں. خطہ عرب سے محمد بن قاسم کی فاتحانہ آمد اور المناک واپسی کے بعد ایک طویل وقفے تک مسلمانوں کی آمد برصغیر میں معطل رہی. جس کے بعد برصغیر کے شمال سے مسلمانوں کی دوبارہ فاتحانہ آمد شروع ہوئی. اس طرح مضمون میں مذکور علاقوں سے فاتحین کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیبی زندگی بھی برصغیر میں در آئی جس کی مماثلت آج بھی ان خطوں میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے. دیر آید درست آید کے مصداق عدیل سلیم صاحب کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے.
شاندار عدیل صاحب تاریخ کی گم گذشتہ گوشوں دے نئی نسل کوروشناس کرنے کے لئے دلچسپ و عام فہم انداز میں لگنا آپ ہی کا خاصہ ہے۔
امید ہے کہ آپ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ خدا کرے زور قلم او ذیادہ۔
ما شاء اللہ
.
اللہ کریم
آپ کے علم میں
مشاہدہ میں
دور اندیشی میں
قلم میں
عجز میں
وسعت، برکت، روانی و فراوانی عطا فرمائے
خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں
.
جاوید اختر آرائیں
بہت اہم اور تاریخی موضوع کو عدیل سلیم نے سہل اور سادہ بنا کر قاری کو تاریخ کی گم گشتہ گلیوں کی طرف بہت عمدگی سے مائل کیا ہے۔ یہ سلسلہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ جاری اور مکمل ہو کر کتابی صورت میں اور آن لائن مہیا ہونا چاہئیے تاکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور پڑھنے والے اس سے ہمیشہ استفادہ حاصل کر سکیں۔
ماشاء اللہ ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
امجد محمود صاحب!
آپ نے درست کہا کہ ان علاقوں کی تاریخ پر بہت کم لکھا گیا ہے جن کے سماجی اثرات برصغیر پاک و ہند کے باشندوں پر بہت گہرے نظر آتے ہیں ۔
بالخصوص ان تاتاری سرداروں کا تذکرہ جو بعد میں مسلمان ہو گئے اور ان ہی میں سے ایک نے برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی ، جن کے لئے اقبال نے کہا تھا “پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے “
ماشاءاللہ بہترین تحریر۔ تاریخ کے گمنام گوشوں کو آسان فہم انداز میں روشناس کرا نے کا جو سلسلہ بھائی عدیل سلیم نے شروع کیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
لائق تحسین ہیں آپ کی یہ کاوشیں۔ اللہ آپ کے قلم کو مزید نکھار عطا کرے اور آپ اسی طرح اپنی تحاریر سے ہمیں مستفید کرتے رہیں۔
شکریہ تمام احباب کا ۔۔
بہت عمدہ تحریر بھائی عدیل سلیم جملانہ آپ کی سلامت رہیں
very informative and authentic
عدیل جملانہ ایک نو آموز لکھاری ہیں لیکن انکی تحریر سے پختگی جھلکتی ہے امید ہے کہ آئیندہ تحریر اور بہتر ہوجائے گی اور ہمیں اس بھی بہتر مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔
ان شااللہ
یہ مضمون عالم اسلام کے بے شمار سقوط میں سے ایک کی تاریخ بتاتا ہے جو عامتہ الناس کی نظر سے اوجھل ہیں بد قسمتی سے پورے عالم اسلام پر آج بھی اسی طرح کی بے حسی طاری ہے جیسی اورگنج کے سانحے کے وقت تھی۔ لیکن بات یقین سے کہی جاسکتی کہ امت مسلمہ نے کم از کم
“تاریخ سے یہ سبق تو سیکھا ہے کہ اس سے کوئ سبق نہیں سیکھناہے “
عدیل سلیم کے دیگر بلاگز کی طرح یہ بھی عام فہم انداز میں لکھا گیا ہے، تاریخ جیسے خشک موضوع کو اتنے دلچسپ انداز میں پیش کرنا کہ دلچسپی آخر تک برقرار رہے بلا شبہ عدیل سلیم کا خاصہ ہے ۔۔۔۔۔
A detailed but interesting article ..
keep it up.