آئیں احباب!! سنیں درد میرا

حافظے کے ایوان میں آج کل بڑی تاریکی ہے۔ برگ حیات کی چھاؤں میں سستانے بیٹھا ہوں۔ مبادا کوئی یاد، یادوں کے محراب سے سر اٹھائے چلی آئے لیکن تاحد نگاہ ویرانی ہی ویرانی، دانت نکال نکال کر مجھ پر ہنس رہی، منہ چڑا رہی ہے۔ ہائے ماہ و سال کے الجھے ہوئے لچھے، پیچ و خم میں اس قدر گتھم گتھا ہیں کہ سلجھنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ مغز پر بار ڈالوں تو بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا اور جو اگر آرہا ہے وہ بھی جیسے دور کہیں جنگل میں دیا ٹمٹما رہا ہو۔ ہاں البتہ ایک نام ایسا ہے جو صبح و شام دماغ کی تختی پر ابھرا، دل کی تختی پر آویزاں رہتا ہے۔ مگر وہ بھی ماضئ مرحوم کا حصہ ہے۔ کاش وہ حال ہوتا جس کا مستقبل روشن دکھائی دیتا لیکن کارخانہ خدا میں خدا کی کاریگری کے سامنے بندہ عاجز بھلا کر بھی کیا سکتا ہے۔ وہ منوں مٹی تلے دبے، آج بھی ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی کہیں سے آواز سنائی دے گی اباجی آگئے۔ اور ہٹو بچو کی صدائیں آنے لگیں گی۔ صد افسوس کہ ایسا مشکل تو کیا ناممکن ہے۔ وہ تو عرق مرگ کا جام لبوں سے لگائے اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے تھے۔ ایک حسرت، ایک آہ، جو ہر دم پیچھا کرتی رہتی ہے۔ ایک آوازہ جو کسی پل سکون فراہم نہیں کرتا، ایک گھاؤ جو کسی دم بھرتا ہی نہیں، ایک زخم جو پل پل رستا ہی رہتا ہے۔ جو گزشتہ دس سالوں سے ایسے چمٹا ہے جیسے لفافے پر ڈاک خانے کا ٹکٹ چپکا ہوتا ہے۔ وہ حسرت، میرے دل و دماغ پر چمگادڑ کی طرح لٹکی رہتی ہے۔ لفظ ’’باشط‘‘ (باسط) کی آواز کانوں میں رستی رہتی ہے۔ اس پل دم دل گھٹنے لگتا ہے۔ گلے میں پھنسا پھانس اور کانٹا چبھنے لگتا ہے۔ اور خیال کا یہ سانپ پھن پھیلائے ڈسنے لگتا ہے۔ پھر خدا کی رحمت اپنے سا یہ عاطفت میں جگہ مرحمت فرماتی ہے اور دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ لب سے الفاظ جڑتے ہیں کہ خدا آپ کا وہ جہان اچھا کرے۔ ہم تاحال اس جھوٹی دنیائے فانی میں جوتے گھسا رہے ہیں۔ آپ حق راستے پر ہیں۔
مجھے بتایا وہ بستر مرگ پر تھے۔ انتظار تھا تو ملک الموت کا یا پھر اپنے نواسے کا، جس میں ان کی جان مقید تھی۔ ظہر کا وقت تھا، آنکھیں کھولیں، باشط کتھے؟ پوچھنے پر بتایا کہ وہ تو آپ کے بتائے، بنائے قانون پر عمل پیرا، خاک چھاننے اسی مقام گیا ہے جہاں رحمت تو نہیں زحمت ضرور ہے۔ کہا: شاباش!!! یہاں اس کا باپ مر رہا ہے اور وہ دکان پر ہے۔ ساتھ ہی آنکھیں موند لیں۔ (شاباش وہ ایسے ہی موقعوں پر فرمایا کرتے تھے۔ دوسرا ان کا ایک قول تھا کہ موت کا اور گاہک کا نہیں پتا چلتا۔ سو تیار رہنا چاہیے) وہ بستر مرگ پر موت کے منتظر، میں بستر حیات پر گاہک کا منتظر، ہائے! کیسا وقت تھا وہ۔۔۔ کاش اباجی آپ مجھے جلنے کیلئے نہ چھوڑتے، ساتھ لے جاتے۔ مجھے ایسے یاد ہے جیسے ابھی چند پل پہلے کا قصہ ہو۔ میں بے چین، کانٹوں پر بیٹھا، کبھی کسمسا کے پہلو بدلتا، کبھی غٹاغٹ پانی پیتا مگر گلا پھر سے سوکھ کر کانٹا ہوجاتا۔ بار بار راہ دیکھتا کہ اب کوئی آئے اور میں گھر جاؤں اور ابا کی قدم بوسی کروں۔ مگر میرے نصیب میں آخری ملاقات نہ تھی۔ نہ کوئی آیا نہ میں گیا۔ اسی بے چینی کے سمندر میں تھا کہ چچا زاد دوڑتا ہوا پھولے سانسوں سے بم گرا گیا کہ دادا ہم میں نہیں رہے۔ میں افتاں و خیزاں کھڑا ہوا تو زمین کھسک کر پاؤں کے نیچے سے نکل گئی۔ دل اس زور سے دھڑک رہا تھا گویا اب منہ سے باہر آجائے گا۔ دماغ کی تاریکی میں کوے کائیں کائیں کرنے لگے۔ دماغ سن، شعور مفلوج ہوچکا تھا۔ چلو!! کسی نے کندھے سے پکڑ کر کھینچا۔ خدا جانے گھر تک کیسے پہنچا اور بے جان جسم پر نظر پڑتے ہی ڈھے گیا۔
پانی کی چھینٹوں سے آنکھ کھلی تو پہلی آواز یہی تھی کہ ابا جی!! جوابی آواز سن کر جی کر رہا تھا بتانے والے کا سر پھوڑ دوں، آنکھیں نوچ لوں، اس زور سے چیخوں چلاؤں کہ سننے والوں کے کان کے پردے پھاڑ دوں۔ وہ پہلی بار تھی جب میرا دل چاہ رہا تھا کہ کوئی مجھ سے جھوٹ بول لے کہ تیرے اباجی زندہ ہیں۔ مگر جب رونے دھونے کی آوازوں میں یقین ہوا کہ وہ نہیں رہے تو گویا ایک کلیجہ ململ کے دامن کی طرح، برابر پھٹتا ہی جارہا ہے۔ اس کے بعد معلوم ہوا آج تو سب سچے بنے پھر رہے ہیں۔ وہ جو ہر دم دروغ گوئی کے گھوڑے پر سوار رہتے تھے وہ بھی اس وقت سچے بننے پر تلے ہوئے تھے۔ کاش! کوئی مجھ سے یہ کہہ دے کہ تیرے ابا حیات ہیں۔ لیکن حقیقت سے نظریں کیوں کر چرائی جاسکتی ہیں۔ موت برحق ہے، کڑوا پیالہ ہم سب نے پینا ہے۔ کاش!! آخری لمحات میں، میں ان کے پاس ہوتا۔ لیکن نعمت سے محرومی کا داغ ماتھے پر لگ گیا ہے جو کسی طور اترے گا نہیں جب تک برگ حیات کے پتے نہ جھڑ جائیں اور مٹی کے ساتھ مٹی نہ ہو جاؤں۔ میں نے چارپائی پر پڑے ساکت جسم کو پرسکون دیکھا تو آنکھوں سے آنسووں کا دجلہ بہنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد بصد نالہ و فغاں انہیں سپرد خاک کر کے گھر کی طرف خالی چارپائی لیے آرہے تھے۔
وہ وضع داری میں کمال درجے پر فائز تھے۔ پاکیزگئ طبع و شرافت نفس میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ دوست و دشمن نواز، صدقہ و خیرات ایسے کرتے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ نیکی کی طرف ہر دم مائل رہتے تھے۔ وفات کے بعد پتا چلا ان کے دم سے کتنے ہی گھرانوں، بیواؤں کے چولہے جل رہے تھے۔ بعد میں خبر ہوئی کہ اس شخص کے دل کی کامیاب سرجری ابا کی مدد سے ہوئی۔ مرکزی مسجد، جو ہر سال خود بخود پینٹ ہوکر نکھر جاتی وہ خزانہ غیب ابا کی جیب تھی۔ جو پل پل محتاجی سے پناہ مانگتے آخری دن تک اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے رہے۔ رزق حلال کے لیے پاپڑ بیلے، کئی بے روزگاروں کو روزگار فراہم کیا۔ لیکن موت وہ اس بندہ پرور کو بھی چھین کر لے گئی۔ اباجی جی! روح انسانیت کا سلام قبول کیجیے۔ فقط: آپ کا نواسہ

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں