پاک افغان تعلقات اور معیشت

معیشت ریاستی امور میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے معیشت ملک میں ترقی اور خوشحالی لانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے اعلیٰ سطح پر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ریاستی مفاد کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہیں، ان پالیسیوں میں دیگر معاملات کے ساتھ ریاستی معاملات کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے ریاست پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات رکھتی ہے، جس سےسرحد پر کشیدگی مسئلے پر قابو پایاجاتاہےاور دوسرا ملک میں تیزی سے خوشحالی آتی ہے، اور ملک ترقی کی راہ پر اپنی پہچان بناتے ہوئے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان بھی اپنے ہمسائےممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور ان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہر سطح پر کوشش کرتا رہا ہے تاکہ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان برقرار رہے۔ جس کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جس کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔جمہوریت کی اولین کوششوں میں پڑوسی ممالک کی توجہ اور ان کے ساتھ تعلقات بہت ضروری ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے اس حوالے سے بہت سے اقدامات کیے ہیں جو قابل ستائش ہیں، ان اقدامات میں ملکی مسائل کو ایک طرف رکھ کر دوستانہ تعلقات پر توجہ دی گئی ہے۔

پاکستان کے کل تجارتی حجم کی بات کرتے ہیں جو موجودہ انڈیکس میں 114,540.16پاکستان کا جی ڈی پی 348.72 بلین ڈالر سے 357 بلین ڈالر کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ یہ ٹریڈنگ اکنامکس، ورلڈ اکنامکس اور اقوام متحدہ کے تخمینوں پر مبنی ہے۔ یہ کل تجارتی حجم نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس وقت ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی کل تجارت $4.27 ٹریلین ہے اور بھارت اس وقت دنیا میں 4 بڑا ملک بن گیا ہے ، اگر ہم تنظیم سارک کی بات کریں تو اس میں کل تجارتی حجم 23 بلین ڈالر رکھا گیا لیکن بد قسمتی سے سارک میں پاکستان سمیت دیگر ممالک 1.4 بلین ڈالر تجارت کر رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ سیاسی بحران کے ساتھ جمہوری پارٹیاں صرف اپنے مفاد کو ترجیح دے رہی ہیں چاہئے وہ پاکستان کی ہیں یا پھر بھارت کی ہیں۔

ورلڈ اکنامکس کے مطابق، 2025 میں، افغانستان کی جی ڈی پی $18.4 بلین ہونے کا تخمینہ ہے۔ یہ موجودہ مارکیٹ کی قیمتوں پر مبنی ہے۔ اگرہم اقتصادی ترقی کی بات کریں توورلڈ بینک کا تخمینہ ہے کہ 2024 سے 2026 تک افغانستان کی اقتصادی سرگرمیوں میں 2.75 فیصد سالانہ اضافہ ہوگا۔ ورلڈ بینک کا یہ بھی اندازہ ہے کہ افغانستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پیشین گوئی کی مدت میں جی ڈی پی کے 17.7 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ افغانستان اس وقت بہت ترقی کررہاہے جس میں چائنہ کے ساتھ انڈیا بھی سر فہرست ہے۔افغانستان میں اپنی تمام تر ترجیحات پر غور کررہے ہیں کیونکہ ایشیائی ممالک میں افغانستان بہت کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ایک طرف روس اور دوسری طرف وہ ممالک جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ان کے پاس اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے سمندر کی ضرورت ہے جو جغرافیائی اعتبار سے ایک چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے ان کو افغانستان اورپاکستان کے راستےاپنی تجارت دنیا میں لے کر جانا ہے جس سے نا صرف ان ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ پاکستان بھی اس سے بھر استفادہ حاصل کر کے اپنی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔

اس لئے پاکستان کو اپنے ہمسائے ممالک سے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے ساتھ سرحدی کشیدگی کاخاتمہ کرنا ضروری ہے۔ دوسری طرف طالبان جو سرحدی ہائپوٹینشن کو فروغ دیتا نظر آرہا ہے جس سے ناصرف طورخم بارڈر بند اور پاک افغان تجارت کو روزانہ کی بنیاد پر بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اوعر آئے روز دہشت گردی جنم دے رہی ہے جس سے پاکستان کو افغانستان سے اس دہشت گردی کے ناسور کو برداشت کرناپڑرہا ہے۔ اس جدید دور میں پاک افغان کو سرحدی ہائپوٹینشن کو ختم کر کے اپنی تجارت کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ اس بڑھتے سیاسی بحران کو حل کرکے بہتر اور خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

حصہ
mm
نوید احمد جتوئی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں آخری سال کے طالب علم ہیں لکھنے کا شوق، حالات حاضرہ میں نظر رکھتے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا میں متحرک ہیں۔ روزنامہ جسارت کی ویب ڈیسک پر خدمات انجام دے رہیں ہیں۔