جہیز کے ٹرک

بھئی لڑکی تو اتنی خوبصورت ہے گویا ہاتھ لگائیں میلی ہوجائے۔ یہ موٹی موٹی آنکھیں اور قد ماشاءاللہ گھر میں چلتی پھرتی خوب جچے گی ! وقار کے ابا۔

وقار کی امی آج آٹھواں رشتہ دیکھنے کے بعد پہلی دفعہ مطمئن نظر آرہی تھی۔ وہ نسیمہ نے جو رشتہ دکھایا تھا۔ اتنا چھوٹا قد تھا لڑکی کا میرے بیٹے کے ساتھ تو بالکل بھی اچھی نہیں لگنی تھی۔ اب دوسروں کی برائیاں نہ شروع کردو نجمہ بیگم! اقبال صاحب نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔

امی جی یہ نہ ہو اس ہیرے جیسی بہو کو گھر لانے کے بعد آپ نے جو سات رشتے ٹھکرائے ہیں انہی لڑکیوں میں خوبیاں نظر آنا شروع ہو جائیں، وقار نے آنکھ دبا کے ابا کی طرف دیکھا۔

اور نہیں تو کیا ان عورتوں کی پسند کا کیا ہے۔ پہلے تعریفوں میں زمین آسمان ایک کردیتی ہیں۔پھر کہتی ہیں یہ ویسی نہیں جیسی دیکھی تھی۔ بندہ پوچھے لڑکی ہے یا چائنہ کی مشین گھر لاتے ہی بدل گئی، اقبال صاحب نے شرارت سے بیگم کی طرف دیکھا۔

ارے نہیں وقار کے ابا آپ مجھے دعائیں دیں گے کیا ہیرا تلاش کیا ہے۔ پورے خاندان میں لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی جب جہیز کے ٹرک آئیں گے، دیکھنا تم۔ ارے کیا سلیقہ شعار امیر خاندانی لڑکی ہے۔ اماں بس کریں واپس آجائیں۔ آں ہاں کیا؟ نجمہ بیگم بے دیہانی میں بولیں۔ امی جان میں کہہ رہا ہوں اس خیالی دنیا سے واپس آجائیں جس میں آپ پہنچی ہیں۔

آپ کل جاکر صاف منع کردیں کہ جہیز کے نام پہ ہمیں تنکا بھی نہیں چاہیے۔ ابھی چھ مہینے تو ہوئے میں نے اپنا کمرہ سیٹ کیے، بیڈ، صوفہ، ڈریسنگ ہر چیز ضرورت کی تو ہے، رہی الماری تو وہ بھی دیوار میں نصب ہے۔ پھر کیا ضرورت لکڑی اکٹھا کرنے کی۔

ارے تم تو چپ ہی رہو لڑکی والے اپنی خوشی سے دے رہے ہیں جو دے رہے ہیں۔ ہم نے کونسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔ لوگ تو لسٹ بنا کر بھیجتے ہیں جہیز کی۔ تمہیں کیا پتا دنیاداری کا؟

امی جان آپ صبح ہی جاکر کہہ آئیے کہ ہم نے جہیز کے نام پہ کچھ نہیں لینا۔ صحیح کہہ رہا ہے ہمارا بیٹا۔ ایک باپ کی چار پانچ بیٹیاں ہوں تو اس کے لیے شادیاں کرنا ہی مصیبت بن جاتی ہے۔ کب ڈھیروں سامان اکٹھا ہو کب رخصت کرے۔ ہم صبح جاکر سامان لینے سے انکار کردیں گے۔ ہماری الماریاں بستروں سے بھری، برتن تین تین ڈیزائن کے پڑے ہیں۔ پھر کیوں گھر کو ناک تک بھرنا کہ سانس بھی باہر نہ نکلے۔

میرے تو سارے خواب ہی مار دیتے ہو تم باپ بیٹا۔ سوچا تھا امیر سی بہو لاؤں گی، دنیا دیکھے گی لیکن نہ جی یہاں کسی کو میری پرواہ ہی کہاں نجمہ بیگم اکلوتے بیٹے کے سامنے آنسوؤں کا آخری ہتھیار چلانے کی کوشش کرنے لگیں۔

امی جان تو ٹھیک ہے۔ میں آپ کی بات مان لیتاہوں۔ لیکن پھر حق مہر دس لاکھ دینا ہے میں نے، وقار کی بات سن کر نجمہ بیگم کا تو رنگ ہی فق ہوگیا۔ ارے یہ کیا بات ہوئی نجمہ بیگم نے منہ پھلا لیا۔ کرو اپنی مرضیاں تم باپ بیٹا، لگادو مجھے سائڈ پہ میں کون ہوتی ہوں بیٹے کی خوشیوں کے خواب دیکھنے والی؟ اب جوان ہوگیا ہے، اپنی مرضی کرے گا۔ میں ٹھہری ان پڑھ جاہل، نجمہ بیگم نے روہانسی ہوکر دوپٹے کے پلو میں منہ چھپالیا۔ امی جی دیکھیں ناں ہمارے دین میں نکاح کے بارے میں کتنی آسانیاں رکھی ہیں۔ مسجد میں نکاح پڑھاؤ،حق مہر دو، گھر لے جاؤ، ولیمہ کھلاو اپنی حیثیت کے مطابق اور زندگی گزارو۔ اور ہم نے اس نکاح کو کتنا مشکل بنا لیا ہے۔ ہم تو پھر لڑکے ہیں باہر نکلتے ہیں کماتے ہیں۔کبھی ان لڑکیوں کے بارے میں سوچا؟ جو بچپن سے سلائی کڑھائی کرکے اپنا جہیز بنانا شروع کردیتی ہیں۔ جو دن اپنی مرضی سے سجنے سنورنے کے اپنی ذات پہ خرچ کرنے کے ہوتے وہ دن ان کے پیسے جوڑتے کمیٹیاں ڈالتے گزر جاتے۔آخر کیوں کیا ہم لڑکے ایک چھت، بستر، کچھ برتن نہیں دے سکتے؟ وقار نے جذباتی ہوکر ماں کی طرف دیکھا۔ آپ نہ روئیں امی جان آپ جو چاہیں جس طرح چاہیں سارے معاملات حل کرلیں، میں نے تو اپنی سوچ بتائی ہے ۔آخر بیٹا بھی ماں کے آنسووں کے سامنے پگھلنے لگا۔

ارے پاگل یہ آنسو تو خوشی کے ہیں کہ اللہ نے مجھ جیسی نکمی کوتیرے جیسا بیٹا دیا ہے۔اقبال صاحب نے حیرانی سے بیگم کی طرف دیکھا۔وقار کے ابا بات تو صحیح کی ہے ہم جہیز تو ٹرکوں کے ٹرک آنے دیتے ہیں، رکھنے کی چاہے جگہ ہو نہ ہو۔ لیکن کبھی حق مہر کا سوچا نہیں جو شریعت نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق دینے کے لیے کہا ہے۔وہ تو ہم دس بیس ہزار پہ ہی کہتے بہت دے دیا۔ حالانکہ اگر حیثیت دیکھی جائے تو دو تین لاکھ تو بنتا ہی ہے۔

اور نہیں تو کیا؟ اقبال صاحب نے بھی تائید میں سر ہلایا۔

یااللہ تیرا شکر ہے۔ تو نے ہمیں کسی ایک باپ کے بوجھ کو کم کرنے کی توفیق دی، وقار نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ نجمہ بیگم نے اپنے خوبرو جوان بیٹے کو محبت سے اپنے ساتھ لگایا۔