زندگی کا راز اور انسانی ذہانت

قرآن کے خزانوں میں ایک اور خزانہ آیت بر ۔۔۔۔۔۔اللہ ربی نے قرآن مجید میں رہنمائی اور ہدایت کے لیے بے شمار راستے مثالوں کے ساتھ دکھائے ہیں ان سب کا تعلق انسان کی رہنمائی اور ذہانت کے فروغ کے لیے رکھا تاکہ انسان مایوسی جیسی لا علاج بیماری سے محفوظ رہے ۔۔۔۔۔۔کتنے نوجوان اس کی زد میں آکر خودکشی کر رہے ہیں دنیا کا سب سے خوشحال ملک سوئزرلینڈ خودکشی کے ریشیو میں سر فہرست نظر آتا ہے کہ جس کی گورنمنٹ نے قانونی طور پر ایسی مشین ایجاد کرڈالی ہے کہ جس اندر جا کر نائٹروجن کی کثرت سے ایک منٹ میں جان ختم کر لیتا ہے ۔

یہ ذہانت کا ہی تو فقدان ہے کہ انسان دنیا کی رفتار اور اس کے مصائب کی تاب نہ لا کر اپنی جان ختم کرنے کا فیصلہ کر رہا ہے ہماری آنے والی نسل جنریشن زی ایلفا بی ٹا سب اسی طرح کے مصائب کا شکار ہو رہے ہیں یہ ذہانت جسے آج کی دنیا دریافت کر رہی ہے پہلے intelligence quotient پھر آگے بڑھی تو emotional اس آگے cognitive اور پھر adversity quotient تک دریافت کرتی جارہی ہے ابھی تک اس کی دریافت کا سلسلہ جاری ہے اب آئیے ذرا غور کریں اسی ذہانت کی مضبوطی ہمیں قرآن مجید کے خزانوں میں ملتا ہے اس میں آیت بر بڑی اہم ہے ہم adversity quotient کے تناظر میں دیکھیں تو پاکستانی معاشرے میں خوراک کی معاشی بدحالی کی کمی ے باعث خودکشیاں یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ہم قرآن سے کتنے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اس کا علاج دنیا سے طلب کر رہے ہیں جبکہ قرآن مجید ہمیں اصل نیکی سے boost کر رہا ہے بتا رہا ہے کہ اصل نیکی مشرق و مغرب کی طرف رخ کرکے عبادت کرنا نہیں بلکہ جس مال کی محبت میں گرفتار ہم اپنے قلب و ذہن کو برباد کر رہے ہیں اس کی تقویت و ذہانت دل پسند مال کا خرچ کرنا ہے اور اس کا بھی طریقہ بتا دیا ۔۔۔۔۔۔

کیا ہے یہ آیت بر۔۔۔۔۔۔
آئیے اس سے تسکین حاصل کریں اور اس کے ذریعے اپنے ذہانت کو booster کریں ۔۔۔۔۔
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر قیامت کے دن پر فرشتوں پر کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں یتیموں مسکینوں مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے غلاموں کو آزاد کرے نماز کی پابندی اور زکٰوۃ کی ادائیگی کرے جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچّے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔
سورۀ بقرہ کی آیت ۱۷۷ میں یہ راز پوشیدہ ہے ۔۔۔۔۔۔
کیسا راز ؟؟؟؟
یہی کہ نیکی کے ذریعے ذہانت کو بڑھانے کے ساتھ اپنی adversity quotient کو کیسے قابو کیا جاتا ہے اصل امتحان یہی ہے کہ تنگدستی اور مشکل حالات پر *صبر و شکر کی مشق* کریں ۔۔۔۔۔۔
*رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ* وَسَلَّم کی زندگی مصائب کے بیچ و بیچ گہری ہوئی تھی لیکن اس حال میں بھی *صبر* کی اعلی مثال ہے ۔۔۔۔۔
آج کے اس مشکل دور میں قرآن مجید سے محبت کرنے والی اس کو کثرت سے پڑھنے والی قوم بھی بہترین مثال ہے ۔۔۔۔۔
کون ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔؟
کیا دنیا میں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔؟
یہ وہی قوم ہے جس پر میرے *نبی ﷺ* فخر کرے گے جو مومنین میں شمار ہوتے ہیں دنیا میں جنتی لوگ دیکھنے ہوں تو انہیں دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہیں ذہانت کی اعلی مثال *ف ل س طین* ۔