ہر انسان مجرم کو برا کہتا ہےمگر اس کو برا بنانے والے حالات کے بارے میں نہ کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اور نہ اس پر کسی نے غور فکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آخر پاکستان اور دوسرے ممالک میں ہی جرائم، کرپشن اور دیگر سماجی برائیاں کیوں جنم لیتی ہیں؟
اگر ہم صرف تعلیم کی ہی بات کریں تو تعلیم تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور دیہاتوں میں بچوں کو دی جاتی ہے لیکن سب سے زیادہ جرائم بھی انہی تعلیم یافتہ شہروں میں ہوتے ہیں۔
کیا اس کی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جو صرف بچوں کو ایک ریس میں بغیر بتاتے دوڑا رہا ہے کہ اس ریس کا انجام کبھی بھی اختتام تک نہیں پہنچے گا۔ انسان بچپن سے بڑھاپے تک صرف بھاگتا چلا جائیگا اورکبھی دولت تو کبھی شہرت کے لالچ میں ہر وہ کام کریگا جس سے اس کو دولت، شہرت اور طاقت حاصل ہو۔
آج پاکستان میں اچھے سیاستدان، اچھے ڈاکٹر، اچھے افسر، اچھے انجینئر غرض ہر شعبہ میں اچھے پروفیشنل لوگ مل جاتے ہیں جو اپنے شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر لوگوں میں انسانیت کا عنصر نظر نہیں آتا۔
یہی وہ لوگ ہیں جو جرائم کی دنیا کے لوگوں کو پیدا کرتے ہیں۔ آج پاکستان میں اگر ہم معیشت کی بات کریں تو اس کے اوپر جو بھی کام ہورہا ہے اس سے غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا اور مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
یہ مہنگائی ہمارے کیپٹل ازم کی پالیسیوں کی ایجاد ہے۔ کیپٹل ازم میں دیکھا یہ گیا ہے کہ چند فیصد امیر لوگ تمام پالیسیاں بناتے ہیں جو ان کے ذاتی مفاد کو تقویت دیتی ہیں اور ان کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومت بھی کام کررہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ حکومت یہ بتاتی ہے کہ ملک کے خزانوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کے خزانے تو بڑھ جاتے ہیں اور امراء کے خزانے بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن ملک کے عوام ہمیشہ صرف پستے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جس جس ملک میں کیپٹل ازم آیا ہے اس ملک نے ترقی ضرور کی ہے مگر اس کے عوام ہمیشہ غربت کی چکی میں پستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ غربت جب بےتحاشہ بڑھ جاتی ہے تو غریب عوام کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کیلئے اپنے ہاتھ پاؤں چلاتے ہیں اور جب بے بس ہوجاتے ہیں تو غلط راستوں کا انتخاب کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے جرائم بڑھتے ہیں۔
پاکستان میں بھی حالات کچھ ایسی ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ بجلی مہنگی، گیس مہنگا، کھانے پینے کی اشیاء مہنگی، بچوں کی تعلیم مہنگی، علاج مہنگا اور تو اور مرنے کے انتظامات بھی بہت مہنگے ہوچکے ہیں مگر بتایا جارہا ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے۔
ایسی ترقی کا کیا فائدہ جس میں آج بھی لوگ جیتے جی مررہے ہیں، حکومت اپنے اداروں اور اپنے پارلیمنٹ کے لوگوں کو ہر قسم کی آسائشات دے رہی ہے۔ مفت رہائش، مفت بجلی، مفت گیس، مفت نوکر چاکر، مفت گاڑیاں، مفت پیٹرول اور تعلیم بھی مفت میں فراہم کی جارہی ہے۔
ان سب کےعلاوہ ان لوگوں کی تنخواہیں بھی بے تحاشہ بڑھادی گئی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ سرکاری اور حکومتی عہدیداروں کی تنخواہیں بڑھانا مجبوری ہے۔ حکومت کو سرکاری لوگوں کی مجبوریاں تو دکھائی دیتی ہیں حالانکہ ان کو بے پناہ مراعات اور ریٹائرمنٹ کی مد میں بڑی رقوم ادا کی جاتی ہیں۔
دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین اور عام آدمی جن کی تعداد 85 فیصد ہے۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ ملک نازک دور سے گزررہا ہے اور ہم سب کو اس نازک دور کے اندر کفایت شعاری سے کام کرنا چاہے۔
ایک غریب آدمی جس کی تنخواہ حکومت نے 37 ہزار مقرر کی ہے۔ بتائیں اس تنخواہ میں بغیر کسی سہولت کے کوئی سرکاری ملازم گزارا کررہا ہے۔ اگر نہیں تو ایک عام آدمی گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کا بل، بچوں کی تعلیم اور گھر کے دیگر اخراجات پورے کرے یا خاندان کا پیٹ پالے؟۔ اگر یہ ملک ایک عام آدمی کیلئے بنا ہے تو جو شاہی افسران اور ان کے عہدیداروں کو سہولت مل رہی ہے وہ عام آدمی کو بھی ملنی چاہیے۔
اگر ملک کیلئے قربانی دینے کی بات ہے تو سب سے پہلے جتنے بھی پارلیمنٹ میں لوگ ہیں۔ تمام صاحب حیثیت لوگ ہیں ان سب کو اپنی تمام مراعات ختم کرکے صرف اور صرف تنخواہ پر کام کرنا چاہیے۔
ساتھ ساتھ جتنے حکومتی ادارے ہیں ان سے تمام بڑی گاڑیاں جو کروڑوں روپے کی ہیں وہ واپس لے لینی چاہئیں اور باقی کی مراعات، جیسا کہ مفت ملازم، گیس، بجلی، بچوں کی فیس اور دیگر مراعات ختم کرنی چاہئیں کیونکہ ایک عام آدمی کو یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔
جب تک عام آدمی اور حکومتی اداروں کے درمیان تنخواہ اور مراعات میں فرق ہوگا تب تک پاکستان ترقی نہیں کریگا اور عہدیدار اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بادشاہی نظام کی طرح حکومت کرتے نظر آئیں گے۔
وہ ملک ترقی کرتے ہیں جن کی عوام خوشحال ہوتے ہیں اور ان کے ممالک میں رہنماء عوام کے مسائل پر زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔اس کیلئے میں چین کی مثال دینا چاہوں گا۔ چین میں آج بھی کسی بھی قسم کی عیاشی کسی سرکاری یا حکومتی عہدیدار کو نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے ان کے عوام خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے بچے کام کے بارے میں سوچتے ہیں۔
غربت دیگر ممالک میں بھی ہے لیکن انسانی زندگی کی تمام بنیادی سہولیات ان کو دستیاب ہیں۔ ہمارے ملک میں انسانی ضروریات کی چیزیں اگر عوام کو مل جائیں تو ہمارے بچے بھی جرائم کی طرف جانے کے بجائے بلکہ چین کی طرح کام اور ہنر کی طرف جانے پر توجہ دینگے۔