رمضان اور ناجائز منافع خوری

رمضان المبارک اسلامی سال کا رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور مقدس ترین مہینہ ہے ،ہرسال ماہ مقدس میں مسلمانوں کی عبادات، سخاوت ،جذبہ ہمدردی اورصلہ رحمی دیدنی ہوتا ہے ،پوراسال خالی گزارنے والی مساجدمیں نمازیوں کیلئے جگہ کم پڑجاتی ہے۔ماہ مقدس میں ایک رات ایسی بھی ہے جس کو شب قدر کہا جاتا ہے قرآن پاک کے مطابق شب قدرمیں عبادت کا ہزاروں سال کی عبادت کے برابر اجروثواب عطاکیاجاتاہے۔

عبادات کے ساتھ ساتھ مسلمان ماہ مقدس میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کیلئے سحری اورافطارکے اوقات میں خصوصی دسترخوان سجاتے ہیں،جس طرح مسلمان رمضان المبارک میں خصوصی عبادات اورسخاوت کااہتمام کرتے ہیں، کثرت سے دعا ئیں مانگتے ہیں،ایک دوسرے کو درگزر،شکرگزاری ،دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کادرس دیتے ہیں، فقرا ء ومساکین پر زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے میں بھی مسلمان کسی سے پیچھے نہیں رہتے ٹھیک اسی طرح ناجائزمنافع خوری،کھانے پینے کی اشیاء میں ملاٹ،ناپ تول میں کمی اورذخیرہ اندوزی کابھی خاص اہتمام کرتے ہیں،ہرسال ماہ مقدس کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔

پاکستان میں جیسے ہی رمضان کا آغاز ہوتا ہے، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو جاتی ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں،ناجائز منافع خوری کا ایسا طوفان آتا ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کیلئے بنیادی خوراک خریدنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ،ملاوٹ اورناپ تول میں کمی بھی عروج پرپہنچ جاتی ہے۔

جس مہینے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خیرات اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اسی مہینے میں ناجائز منافع خوری اور قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔ حکومتیں ہر سال ماہ مقدس میں نرخ ناموں پرعمل درآمدکے بلندوبانگ دعوے کرتیں ہیں پر عملی طور پر کہیں کنٹرول نظر نہیں آتا۔

مشکل ترین معاشی حالات کی بدولت پچاس فیصدپاکستانی پورا سال ایک یادووقت کے کھانے تک محدودہوچکے ہیں،ناجائزمنافع خوراورحکومتی لاپرواہی ایسے مساکین کیلئے ماہ مقدس میں ایک وقت کے کھانے کاحصول بھی مشکل کردیتی ہے،رمضان المبارک میں سب سے زیادہ نقصان غریب اور متوسط طبقے کو ہوتا ہے جو لوگ عام دنوں میں بھی مشکل سے گزارا کرتے ہیںان کے لیے روزے کے دوران مہنگے پھل، گوشت اور دیگر غذائی اشیاء خریدنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے،ناجائز منافع خوری کے باعث غریب طبقے کے لیے سحروافطار میں مناسب خوراک کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

المیہ تویہ ہے کہ ماہ مقدس میں مہنگائی صرف خوراک تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ٹرانسپورٹ، کپڑوں، جوتوں اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ کردیاجاتاہے،غریب کے بچے بھوک سے لڑتے ہیں اورغریب مزدور والدین کوبچوں کیلئے عیدکے کپڑوں اورجوتوں کی عدم فراہمی کے عذاب سے بھی گزرناپڑتاہے۔

ماہ مقدس میں گراں فروشی کی ساری کی ساری ذمہ داری حکومتوں پرعائدکرنادرست نہیں ہوگا،کیا رمضان المبارک میں رحمتوں، برکتوں، اجروثواب کے حصول اوردعائوں کی قبولیت کی غرض سے خصوصی عبادات، سخاوت، جذبہ ہمدردی، صلہ رحمی اورمساکین کیلئے جذبہ خیرات رکھنے والے مسلمان تاجروں نے ماہ مقدس میں ذخیرہ اندوزی، من مانی اورخوساختہ مہنگائی، ناپ تول میں کمی اورملاوٹ جیسے گناہوں کے متعلق بھی سوچاہے؟

کفر اوردین اسلام کے درمیان تفریق کرنے والی چیز نماز ہے اسی طرح ملاوٹ،ناجائزمنافع اور دھوکہ دہی بھی مسلم اورغیرمسلم معاشرے کافرق ظاہرکرتے ہیں،نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے ملاوٹ کو اس قدرناپسندفرمایاہے کہ آپﷺ نے فرمایا:جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں،یعنی آپ ﷺ نے ملاوٹ کرنے والوں کے ساتھ اعلان لاتعلقی فرمایاہے ۔(حدیث نمبر: 1315 ترمذی شریف)حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر کے قریب سے گزرے تو آپ ﷺ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل فرمایا، آپ ﷺ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا،غلہ والے یہ کیا معاملہ ہے؟اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا،اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر آپ نے فرمایا،جو دھوکہ دے، ہم میں سے نہیں ہے۔

ہمیں سوچناچاہیے کہ ہماراکوئی عمل ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں، برکتوں کے حصول اوردعائوں کی قبولیت کی بجائے دین اسلام سے دوراورنبی کریم ﷺ کاناپسندیدہ تونہیں بنادے گا؟ملاوٹ،ناپ تول میں کمی،ناجائزمنافع خوری جیسے اعمال کسی صورت ہمیں فائدہ نہیں دے سکتے۔