ہمارے بچپن میں جب رمضان کا مہینہ آیا کرتا تھا تو گرمیوں کے دن ہوا کرتے تھے، گرمی اس وقت اتنی شدید نہیں ہوتی تھی، اس وقت بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوا کرتی تھی، رمضان کے چاند کے اعلان کے ساتھ چاند کی مبارکبادکا سلسلہ شروع ہوجاتا کون کس مسجد میں تراویح پڑھے گا یہ بھی طے ہوجاتا اور خواتین سحری کی تیاری میں لگ جاتیں کافی کام متوقع چاند کے اعلان کے حوالے سے پہلے ہی ہوجاتا تھا،ڈھول بجاکر جگانے والے الگ تھے لیکن اہل محلہ و پڑوسی سحری میں اگر کسی کے گھر میں کھٹ پٹ یا روشنی نہیں دیکھتے تو دروازہ بجاکر اٹھا دیا کرتے۔
سحری میں عموماً کوئی سالن یا کباب پراٹھے کھجلہ پھینی، دودھ جلیبی شامل تھی، ہم بچے سحری کرکے نماز پڑھتے قرآن پڑھتے پھر قریبی پارک میں چلے جاتے اس وقت پارک گھنے درختوں اور چھوٹے درختوں کی باڑ سے، خوبصورت پھولوں اور جھولوں سے مزین ہوا کرتے تھے ساڑھے آٹھ سےنو بجے صبح میں پارک بند ہوجاتا جو پھر شام پانچ بجے کھلا کرتا تھا۔ تروایح کے بعد پارک بند ہوجاتے تھے۔ تراویح کے بعد مکہ کی روح پرور تراویح ٹی وی پر سب ملکر دیکھتے ایک سماں بندھ جاتا تھا تقریباً ہر دوسرے گھر میں ایسا ہوتا تھا، محلے میں افطار بانٹا جاتا تھا ہر گھرانہ اپنے گھر میں بننے والے افطار کے خاص پکوان ضرور دوسروں کو بھجواتا، سادہ دور تھا، ہر گھر میں کھجور، پکوڑے، سفید یا کالےچھولے یا پھر دہی پھلکیاں/ دہی بڑے، کچوریاں (روزانہ کوئی ایک پھل اور پکوڑوں اور شربت کے ساتھ کبھی چھولے، دہی پھلکی البتہ چھٹی والے دن چھولے دہی بڑے یا کچوریاں دونوں ہی بنائے جاتے تھے کیونکہ اس دن افطار بانٹنا یا کسی کو افطار پر آنا ہوا کرتا تھا، کوئی ایک پھل عموما تربوز ،آم، گرما، سردا وغیرہ اورشربت صرف روح افزا یا نورس افطار کی رونق ہوتے۔ طاق راتوں میں لڑکے مسجد میں عبادت کرتے اور پڑوسی لڑکیاں یا کزنز کسی ایک گھر میں جمع ہوکر اپنی انفرادی عبادت کرتیں تلاوت سنی اور سنائی جاتی دعائیں یاد کی جاتیں نوافل پڑھتیں۔
رمضان کی آمد کے ساتھ عید کی تیاریاں شروع ہو جاتیں سب کے کپڑے جوتے دیگر گھر کی ضروری اشیاء پردے چادریں صوفہ کرسی کے کورز گلدان وغیرہ بھی لیے جاتے۔ چاند رات پر خواتین مہندی بھگودیتیں پہلے بچوں کو مہندی لگتی اس وقت بہت سے چھوٹے لڑکے اپنے ہاتھ پر چاند ستارہ خوشی سے بنواتے اور عید مبارک لکھواتے جبکہ لڑکیاں مٹھی بھر مہندی یا ٹکیہ والی مہندی لگاتیں کچھ لڑکیاں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں مہندی لگاتیں جس میں پھول بوٹے بھی بناتیں جو ماچس کی تیلی یا تنکےکو تراش کر مہندی میں ڈبوکر بنائے جاتے تھے لیکن پھر جلد ہی مہندی کی کون آگئی تب مٹھی بھر اور ٹکیہ والی مہندی کہیں کہیں نظر آنے لگی۔ عید پر صبح سویرے اٹھ کر تیار ہونا نفل پڑھنا، سب کو سلام کرکےعیدی لینا اور پرس/ بٹوے میں عیدی جمع کرنا سب کو عید کا خصوصی سلام جھک کےکرنا،گلے ملنا،ایک دوسرے کے گھر جانا سویاں کھانا عیدی کے پیسوں سے دوستوں کے ساتھ کولڈ ڈرنک پینا، آئس کریم کھانا لاٹری نکالنا چھوٹی سی چیز ملنے پر خوش ہونا۔ جھولے والوں کے جھولے جھولناجن میں لکڑی کا میری گو راؤنڈ اور آسمانی جھولا ہوتا،کاغذ کا رنگین ہوائی پنکھا خریدنا وغیرہ ۔ وقت کب رکتا ہے۔
رفتہ رفتہ رمضان ٹھنڈے موسم میں آنے لگےاور ہم بڑے ہوتے چلے گئے۔ اب تو سحر و افطار کی روایتیں اور رونقوں میں جدت آگئی ۔جی ہاں پکوڑوں کی جگہ فرنچ فرائز، رول، سموسے بنائے جانے، پھل کی جگہ فروٹ چاٹ اور فروٹ سلاد نے لےلی، سینڈوچ، برگر بن کباب،پیزا،رول پراٹھے، اسپیگیٹی، میکرونی لزانیہ فروٹ کریم کرنچ،ایپل یا پائن ایپل پائی وغیرہ افطار میں شامل ہوگئے۔ روایتی افطار پکوڑے چھولے دہی بڑے، پھل لال شربت افطار سے غائب ہونے لگے، روح افزا( لال شربت) کی جگہ دیگر جوسسز،اسکواشز ملک شیکس اور کولڈ ڈرنکس نے لے لی۔ سحری میں کھجلہ پھینی جلیبی کا رواج بہت ہی کم رہ گیا،اب سحر و افطارکی رونقیں روایتیں پہلے جیسی نہ رہیں
جانے کہاں کھو گئے وہ رمضان۔ جب لوگ ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے بنائے مخصوص لذیذ و صحت بخش پکوان پر مشتمل افطار بھیج کر محبت اور خلوص کا اظہار کرتے تھے۔ ان رمضانوں میں بچوں اور لڑکیوں میں نوافل اور ختم قرآن کی تعداد کی ریس لگا کرتی تھی ذیادہ تعداد کے حصول کے چکر میں سب ذیادہ وقت عبادات ، ذکر اذکار دعاؤں،نمازوں اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے۔ عبادت کی لذت کے ساتھ سحرو افطار میں اورلذت کام و دہن سے بھی مسرور و مطمئن رہتے تھے ۔ *سحرو افطار میں جدت*: رمضان میں من حیث القوم اب ہمارا یہ ہمارا یہ حال ہے کہ کوئی کسی کے سحر پہ نہ اٹھنے کا نوٹس ہی نہیں لیتا، سب اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔
آج کل جب کسی کے ہاں افطار بھیجو تو عجیب حیرت سے دیکھا جاتا ہے، روایتی افطار بھیجنےکا رواج تو تقریبا ختم ہی ہوگیا ہے، البتہ کچھ گھرانوں میں افطار میں کسی مشہور بیکری کے رول ،سموسے،، جوس کاڈںہ، کیک، پیٹس اور کھجور کیلےوغیرہ پر مشتمل افطار باکس بانٹے جاتے ہیں، کہیں کسی معروف کیٹرنگ کی بریانی اور کھیر یا ٹرائفل کے پیکٹ بطور افطار بانٹے جاتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ بطور افطار ریڈی میڈ/ ہوم میڈ یا کسی معروف دکان کے ان فرائیڈ رول سموسوں، کباب، کٹلس، نگٹس کے درجن دو درجن والےپیکٹ یا پھر ڈبوں میں دستیاب فرائیڈ آئٹمز کے پیکٹس بھیج دینا ہی اپنی شان سمجھتے ہیں۔ لگتا ہے کہ بس افطار بھیجنے کی رسم یا روایت اس طرح نبھائی جارہی ہے کہیں کہیں تو یہ رسم علامت کے طور پر بھی موجودنہیں ہے۔ جبکہ پہلے افطار پہلے تقریبا ہر دوسرے گھر سے مساجد میں افطار اس غرض سے بھیجا جاتا تھا کہ مسجد کے امام و عملے کے ساتھ کوئی مسافر یا ضرورتمند بھی افطار کرلے، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، مساجد میں کوئی دو یا تین مخیر حضرات ملکر مسجد کے مہینے بھر کے افطار کی تیاری وترسیل کی ذمہ داری قریبی افطار پیکج والوں کو سونپ دیتے ہیں۔
افطار دسترخوانوں کا رواج:افطار غریبوں کو کروانا چاہیے یہ بات درست ہے۔ آج اس سوچ کے تحت تمام مصروف شاہراہوں پر فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کی جانب سے سڑکوں پر جا بجا افطار دسترخوانوں کارواج چل پڑا ہے۔ لیکن درحقیقت ان دسترخوانوں حقیقی ضرورتمند کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے انکی فطری شرم و غیرت سفید پوشی کا بھرم انہیں ایسا کرنے نہیں دیتا، اسی وجہ سے وہ روکھی سوکھی پر قناعت کرلیتے ہیں، بس کچھ انتہائی مجبوری میں منہ چھپاکر چھوٹوں بچوں کے ساتھ کبھی کبھار سڑک پر افطار کرلیتے ہیں۔
حقیقی ضرورتمندوں:ضروریمت اس بات کی ہے کہ حقیقی ضرورتمندوں کو ڈھونڈ کر انکی عزت نفس مجروح کیے بغیر انکی مدد کی جائے ہے۔
رمضان کی موجودہ خصوصی نشریات:ہماری رمضان کی روایات گم ہو جانے کے ساتھ سحرو افطار کے قیمتی لمحات کا سرور بھی اب پہلے جیساروح پرور اور سکون قلب پہنچانے والا نہیں رہا۔ اب تو رمضان کی خصوصی نشریات کے نام پر ٹی وی پر فضول پھکڑ پن پر مبنی ڈراموں کا چلن چل نکلا ہے۔ جس میں گھر کے بزرگ بھی آپے سے باہر اور سنجیدگی و وقار سے دور چھچھوری حرکات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان ڈراموں میں اسلامی اقدار و روایات اور محترم رشتوں کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے، اسکے ساتھ ساتھ رہی سہی کسر رمضان میں سحر و افطار کے خصوصی شوز نے پوری کردی ہے،جن میں روزہ اور تقوی کا حصول اور روح رمضان کے حوالے سے کوئی خاص یا اہم پہلو اجاگر نہیں کیا جاتا ان شوز کی میزبانی کسی مشہور اداکارو اداکارہ سے کروائی جاتی ہے چند نعتیں لیکن کر پڑھی جاتی ہیں کھانے کی ترکیبیں بتائی جاتی ہیں۔ اور گیم شوز کے نام پر الگ لالچی مزاج اور اوچھی حرکات کو فوکس کیا جاتا ہے۔ بس ہر چینل کا اپنی ریٹنگ پر زور ہوتاہے۔ اس صورتحال پر دل کڑھتا ہے دکھ ہوتا ہے۔ کہ یہ کیسا انداز مسلمانی ہے؟ دل کی گہرائیوں سے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مرتبہ پہلے سے بہترین ماہ رمضان گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین