ہوا میں خنکی بڑھی تو شامیں بھی لمبی اور اداس ھونے لگیں۔ کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت رک گیا ہے اور کبھی کبھی لگتا ہے کہ اسکی رفتار میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ بہت جامد اور پرسکون ماحول میں رہتے ہوئے سوچا کہ اس یکسانیت کو تھوڑی سی تبدیلی کی ضرورت ہےکیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماحول میں وقتی تبدیلی شخصی تبدیلی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
اس لیے یوں ہی ایک لمبی شام کی طوالت کم کرنے سڑکوں کا رخ کر لیا۔ بچے بھی ساتھ چل پڑے۔ دوران سفر بیٹے نے بل بورڈ دیکھا جس پر ریاضی کے (جمع، ضرب،تقسیم) کے نشانات آویزاں تھے۔ اس نے بےدھیانی میں پوچھا اماں مجھے تو جمع پسند ہے بہت آسان ہے۔ مگر تقسیم بالکل نہیں اچھی لگتی بہت مشکل ہے۔وہ غالباً اس جمع اور تقسیم کے سوالات کی بات کر رہا تھا جو اس کی کتاب کا حصہ ہوں گے۔مگر میں نے سوچا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔زندگی میں تقسیم ہی تو مشکل ہے بہت مشکل چاہے کسی بھی پہلو سے ہو کسی بھی زاویہ سے ہو۔محبت کی تقسیم، روپے پیسے کی تقسیم، رشتوں کی تقسیم، جائیداد کی تقسیم غرض ہر قسم کی تقسیم جو آپکی اجارہ داری ہے۔ کرنے کو تو کیا ہی مشکل ہے ہے جو آپکے پاس ہے اس میں سے تقسیم کریں خواہ وہ کچھ بھی ہو۔مگر وہ جمع کرنا آسان ہے مگر تقسیم ہی تو مشکل ہے۔
بچے کے اس خود ساختہ سوال نے مجھے دنیا کے تنگ نظر رویوں میں الجھا دیا خیر میں اسی سوال کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ آخر تقسیم ہی کیوں مشکل ہے۔میری نظر ایک عربی ریسٹورینٹ پر پڑی ۔ سوچا اس سرد شام میں کچھ گرم گرم کھایا جائے۔ لہذا کچھ عربی کھانا منگوایا گرم گرم کھانا کھایا اور گرم عربی خبز (روٹی ) نے مزہ دوبالا کر دیا ۔جب بل آیا تو پتا چلا کہ روٹی تو مفت تھی میرے لئے یہ حیران کن نہیں تھا کیونکہ تقریباً سارے عربی ریسٹورینٹ پر روٹی مفت ہی ہوتی ہے اور بہت زیادہ ہوتی ہے۔
یہ ایسا اسلئے ہے کیونکہ وہ ایک بنیادی ضرورت کو پیسوں سے تقسیم نہیں کرتے۔ شاید اس بات میں میرے پہلےسوال کا جواب تھا۔بنیادی ضرورت کو پورا کیا جانا کسی بھی حیل و حجت کی تقسیم سے زیادہ ضروری ہے۔تقسیم کا عمل سمجھنا صرف اس کے لئے آسان ہے جو اسکا مصرف جانتا ہو جس کے دل میں کشائش موجودہو۔ایک نافہم کے لیے تقسیم کا عمل مشکل ہے ۔وہ جمع کوہی آسان سمجھے گا ۔ کاش کہ اسکول ہمیں کتابوں کے سوالوں کی جمع اور تقسیم سیکھنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں مناسب اور صحیح وقت پر جمع اور تقسیم کرنا سیکھاتے۔