میں سوچ رہی ہوں کہ ہماری قوم کس طرف جارہی ہے۔ لوگوں کو سیاست، دھرنے، حکومت کو گالیاں دینے پر لگایا ہوا ہے۔ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ اپنے اطراف میں نظر ڈالے۔ یا پھر یہ سوچتے ہونگے کہ نظر ڈال کے بھی کیا کر لیں گے۔ میں نے نظر ڈال لی تو میں نے کیا کرلیا ، سوائے جلنے کڑھنے اور اپنی نیندیں حرام کرنے کے۔
دماغ میں اس وقت اتنا غصہ اور الجھن ہے کہ یہ تحریر لکھ رہی ہوں۔ شاید کسی کے پاس میری بات کا جواب ہو یا کوئی اور میری طرح یہ سب نوٹ کرتا ہو۔ ہماری رہائش کراچی کے بالکل وسط میں ہے اور اطراف کے علاقوں میں مارکیٹس، فاسٹ فوڈ، ریستوران وغیرہ کی بھرمار ہے۔ اور اس کے ساتھ بھرمار ہے گداگروں کی۔
چلو مان لیا گداگر ہیں بھیک مانگ رہے ہیں ۔کوئی چرسی، نشئی بھی ہیں ان کی تو شکل سے ہی پتا لگ جاتا ہے کہ کیوں مانگ رہے ہیں ۔ لیکن اب،،۔
اب کچھ عرصہ سے ایک نئی جہت متعارف ہورہی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ہم لوگ بیکری سے نکلے اور یہ دیکھ کر رک گئے کہ دو بہت پیاری بچیاں، ایک کوئی بارہ تیرہ سال کی ایک اس سے کچھ چھوٹی ہوگی، ہاتھ میں کچھ کنگھیاں لیے ہوئے تھی انتہائی صاف ستھرے کپڑے پہنے ، گوری چٹی ، سلیقے سے بال بنے ہوئے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے سکول کے کسی پروگرام میں جانے کو تیار ہیں۔ ہمارے قریب آکر چھوٹی والی کہنے لگی” آئسکریم کھلا دو” میرے ہسبینڈ اسے گھور کر رہ گئے اور میں شاک میں ۔۔۔کہ کیا یہ فقیر ہیں ؟؟؟
ہم نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ دوسرے کی طرف مڑ گئی، آئس کریم کھلا دو۔ جو بڑی والی تھی وہ بہت پیاری تھی اس نے بھی شاید کسی سے یہ ہی سوال کیا تو وہ اس بچی کو سو روپے دے کر آگے بڑھ گیا دوسرا بندہ چھوٹی والی جو آئس کریم دلانے لگا۔ بڑی بچی سو روپے لے کر سائیڈ پر گئی وہاں سامنے آیا ایک اور کردار ،ایک مرگھلی سی عورت برقع پہنے گود میں ایک بچے کو لیے بیٹھی تھی۔ اس نے پیسے لے کر اپنے قبضے میں کیے ، بڑی بچی واپس اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی۔ چھوٹی والی اپنی مرضی کے فلیور کی آئس کریم نکلوا رہی تھی۔ وہ اس برقع والی وقت کی نظروں سے اوجھل تھی ۔ میں موقع دیکھ کر اس کے پاس گئی اور پوچھا۔
یہ عورت جو بیٹھی ہے یہ ماں ہے تمہاری؟
جی ، بچی نے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا۔
باپ کیا کرتا ہے تمہارا ؟ میں نے پوچھا
وہ غبارے بیچتا ہے۔
گھر کہاں ہے ؟
یہیں ہے قریب، بورڈ آفس کے پاس ،
کس طرف؟ میرے جرح جاری تھی
بورڈ آفس کے پیچھے گلی میں “۔
وہ بچی مجھ سے نظریں ملائے بغیر جواب دے رہی تھی اتنے میں سیلز مین نے اسے آئس کریم پکڑائی وہ بھاگ کے اس عورت کے پاس چلی گئی۔ میں اس عورت سے بات کرنا چاہتی تھی اور پیچھے جانے لگی تو سعود صاحب مجھے کھینچ کر لے آئے۔ کہ کوئی ضرورت نہیں ہے اس طرف جانے کی ۔ یہ اکیلے نہیں ہونگے ان کے اس پاس اور بھی لوگ ہونگے ۔وہ مجھے سمجھانے لگے، بہرحال ان کے تحفظات بھی ٹھیک تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میں ان کا کچھ کر نہیں سکتی اب اگر مجھے وہ بچیاں اس عورت کی نہیں لگ رہی تھی تو میں کیسے ثابت کروں گی ۔ سڑک پر بیٹھی اس عورت کو دو چار سنا بھی دوں گی تو کیا ہوگا یہ کوئی ایک فیملی تو نہیں ہے۔ ایسے درجنوں لوگ ہمیں آتے جاتے نظر آتے ہیں۔
جو حلیے سے پڑھے لکھے لگتے ہیں، جوان لڑکیاں عبایا پہنے پرس لٹکائے۔ قریب آکر آہستہ سے پیسے مانگتی ہیں۔ کچھ دن پہلے اچھے خاصے پینٹ شرٹ پہنے ایک درمیانی عمر کے آدمی نے انگریزی میں مجھ سے مدد کی درخواست کی کہ اس کے بچے بیمار ہیں۔ میں اس پورے علاقے میں آتے جاتے۔ بازار میں، ہوٹلوں بیکریوں کے باہر اس طرح کے سیکڑوں لوگ دیکھ رہی ہوں ۔ جو بھکاری نہیں لگتے اور وہ مانگ رہے ہوتے ہیں۔
کیوں ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
اس بارے میں کس سے پوچھا جائے ،کس سے بات کی جائے کہاں شکایت درج کروائی جائے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے کون سے محکمے کو کام کرنا چاہیے ؟
میں سوچ رہی ہوں اور اس وقت بہت زیادہ سوچ رہی ہوں، کڑھ رہی ہوں ان دو پیاری سی بچیوں کی شکل میری دماغ سے نہیں ہٹ رہی کہ ان کے ماں باپ ان کو کیا تربیت دے رہے ہیں ۔ مانگ کر کھانے کی ؟
کیا واقعی مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ آپ کو اپنی ناآسودہ خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بھیک مانگنی چاہیے ؟
مان لیا کہ بہت مہنگائی ہے لیکن کیا بھیک مانگ کر آئس کریم کھانا ضروری ہے ، کیا والدین اپنے بچوں کو عزت کی ایک روٹی پر توکل کرنا نہیں سکھا سکتے۔
یا اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو بھیک دیتے ہیں اور پیاری بچی کو دیکھ کر اس کی مٹھی میں سو کا نوٹ چپکے سے دبا دیتے ہیں ۔
کچھ عرصہ پہلے ہر سگنل، بازاروں میں خواجہ سراؤں کی بھرمار تھی جہاں کھڑے ہو وہیں یہ مانگنے آجاتے تھے۔ جھلمل کپڑے، بھاری جیولری پہنے بھیک مانگتے پھرتے تھے۔ اور اب میں نے نوٹ کیا کہ وہ کم ہوگئے ہیں اور اس طرح کے بھکاری زیادہ ہورہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ گمان نہ ہو کہ یہ بھکاری ہیں۔ کچھ نہیں پتا کہ کون سوٹڈ بوٹڈ آدمی یا اچھا عبایا پہنے کھاتے پیتے گھر کی دکھنے والی آپ کے قریب آکے کہے کہ پیسے دے دو ۔
پھر میرا سوال ہے
کیوں؟
کون لوگ ہیں یہ؟
ایسا کیوں کررہے ہیں ؟
کراچی شہر میں تو اتنے لنگر خانے ہیں، فلاحی ادارے ہیں دونوں وقت کا کھانا مفت کھلا رہے ہوتے ہیں، خاموشی سے لوگوں کے گھروں میں راشن بھی پہنچ جاتا ہے ۔
اگر وہاں جاکر نام لکھواتے ہوئے ان لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے تو اس طرح سڑک پہ اپنے بچے بچیوں کو کھڑا کرنے سے نہیں ہوتا کچھ ؟
کیا یہ واقعی ضرورت مند ہیں ،مجبور ہیں ؟۔