فرض

آج وہ کچھ خاص تیار ہوئی۔۔۔سیاہ بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں ایک نیا سا جذبہ۔۔ اس نے ناقدانہ انداز میں آئینے میں اپنا جائزہ لیا اور مسکرا دی ۔۔۔نقاب لگا کر بیگ شولڈر پہ ٹکایا اس کو تھپتھپایا بھی اور کمرے سے باہر آ گئی ۔۔۔ جا رہی ہو زینی؟اماں نے پیچھے سے آواز دی ۔۔۔آج کچھ الگ سا تھا” وہ اماں بس لیٹ ہو رہی تھی تو اس لیے جلدی میں آپ کو سلام کرنا بھول گئی “۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو ڈانٹا اور اماں سے پیار اور دعائیں لیتی باہر نکل آئی ۔۔۔۔ کالج بس کے انتظار سے زیادہ تو انتظار کسی اور چیز کا تھا اتنے دن سے وہ تیاری کر رہی تھی۔۔۔شاپنگ بھی جاری تھی اور جس مقصد کے لیے شاپنگ ہو رہی تھی وہ دن بھی آ گیا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے ارد گرد نگاہ ڈالی دور ایک غباروں والا لال رنگ کے دل کی شکل کے غبارے لیے کھڑا تھا ۔۔۔اور اس کے خریدار کئی نوجوان تھے ۔۔۔ وہ کچھ سوچ کر مسکرائی۔ بس آ چکی تھی وہ سوار ہوئی اور کھڑکی سے پار دیکھنے لگی ۔۔

زینب فرحان علی خان ایک مشہور پرائیویٹ کالج میں لیکچرار کے فرائض سر انجام دے رہی تھی اپنے طلبا کی پسندیدہ شخصیت تھی وہ نہ صرف ان کی استاد تھی بلکہ روحانی ماں کا کردار بھی بخوبی ادا کر رہی تھی۔ ہر ماہ کچھ نہ کچھ عنوان ڈسکشن کا ضرور رکھتی جس سے طلباء اپنی اقدار سے جڑے رہیں اور مزے کی بات یہ تھی کہ سب طلباء اس کا احترام بھی کرتے تھے اور اس ڈسکشن میں بڑھ چڑھ کے حصہ بھی لیتے تھے۔بس ایک مارکیٹ سے گزر رہی تھی جہاں مختلف دکانوں کو خاص طور پر آج کے دن کی مناسبت سے سجایا گیا تھا مختلف ٹیڈی بئرز،کارڈز، گلدستے۔۔۔ اتنا اہتمام تو عید بقر عید پہ بھی نہ ہوتا تھا جتنا آج اس تہوار پہ تھا جو غالباً ہمارا تھا بھی نہیں اور نوجوان نسل اس کو پورے جوش و جذبے سے منانے بھی لگی تھی ۔ اس نے ایک پل کو یہ سب سوچا اور اگلے ہی لمحے ایک نئی سوچ نے اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیر دی اس کی گرفت اپنے بیگ پہ مضبوط ہو چکی تھی۔ بس اب کالج گیٹ میں داخل ہو چکی تھی لڑکیوں کی کچھ ٹولیاں سرخ لباس میں دکھائی دیں۔ وہ بس سے اتری اور مضبوط قدم جمائے ایک نئے ولولے سے کلاس روم میں داخل ہوئی لڑکیاں اور لڑکے اس دن کو منانے کے لیے بے چین تھے اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آج کا دن ایک نئے انداز میں ان کے ساتھ منائےگی اور اس کے لیے اس نے بہت خاص تیاری بھی کر رکھی تھی۔

ملٹی میڈیا سیٹ کرنے کے بعد اس نے کلاس کو مخاطب کیا۔”میں آج آپ کے لیے اسپیشل پریزنٹیشن لائی ہوں پہلے ہم یہ دیکھیں گے اور پھر کچھ ڈسکشن کریں گے”۔ پہلی سلائیڈ سامنے آئی جس میں ایک موتی سیپ میں بند تھا۔۔۔دوسری سلائیڈ پہ لکھا تھا” ہم کون ہیں”؟زینب نے سوالیہ نظروں سے طلبا کی طرف دیکھا سب نے یک زبان ہو کر کہا “مسلمان”۔ اگلی سلائیڈ سامنے تھی “مسلمان کون ہوتا ہے”؟طلباء نے جواب دیا۔”جو ایمان لاتا ہے ۔”

اگلی سلائیڈ میں کیا لکھا تھا وہ سب کے لیے حیران کن بھی تھا اور شاید شرمندگی کا باعث بھی۔۔۔۔”ایمان کی ستر شاخیں ہیں اور حیا ان میں سے ایک ہے”۔۔۔۔ اگلی سلائیڈ میں ایک اور حدیث تھی۔۔۔”جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاھے کرو”۔۔۔۔

آخری سلائیڈ میں حجاب میں لپٹی مسلمان عورت پر وقار انداز میں کھڑی تھی۔۔۔زینب نے کلاس کی طرف نظر دوڑائی اور بہت پیار سے اس نوجوان نسل کو دیکھا جو انجانے میں گہری کھائی میں گرنے کو تیار تھی۔۔۔ جو ایمان کو تو سمجھتی تھی مگر ایمان کے تقاضوں کو نہ پہچانتی تھی۔۔۔ جو مغرب کے بچھائے جال میں پھنستی جا رہی تھی۔۔”

تو عزیز طلباء کیا سوچا ہے آپ نے آج کا دن یہود ونصاریٰ کی تقلید میں گزارنا ہے ؟ کیا اس دور میں جو گھناؤنا عمل کیا گیا اس کو ہم مسلمانوں کو بھی سیلبریٹ کرنا چاھیے؟میں ویلنٹائن کی مکروہ تاریخ کو دہرانا یا بیان کرنا بھی گناہ سمجھتی ہوں۔۔۔ہمارا اس سے کیا لینا دینا؟”۔۔۔۔ پوری کلاس میں خاموشی چھا گئی سب کے سر ندامت سے جھکے ہوئے تھے مگر اللّٰہ رب العزت کو تو اپنے بندے کا گناہوں پہ نادم ہونا ہی تو پسند ہے ناں۔۔۔زینب مسکرا دی ۔۔۔”آج کا دن ہم ضرور منائیں گے مگر اپنی روایات کو بلند کرنے کے لیے “.اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور کچھ اسکارف اور پیارے کشمیری اور فلسطینی مفلر اپنے بیگ سے نکالے اور طلباء میں تقسیم کیے کیونکہ آج” یوم حیا “تھا جو مسلمانوں کو واقعی منا لینا چاھیے اپنی اقدار کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے یہ ضروری ہے۔زینب نے بحیثیت استاد اپنا فرض ادا کر دیا اب آپ کی باری ہے۔