ایک غلط روش

والدین کی مرضی سے شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کی باہم ملاقات کروائی جاتی ہے مقصد یا عوامل یہی ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بارے جان سکیں، ایک دوسرے کو دیکھ لیں، بات چیت کے ذریعے مزاج معلوم کر سکیں،خرابی وہاں شروع ہوتی جب دونوں میں سے ایک فریق محدب عدسے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو، بڑا کر کے دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔دوران گفتگو ہم پہلے ہی ایک شبیہہ، یا رائے قائم کر کے اس پر اٹل ہو جاتے ہیں بعض اوقات لڑکا بات چیت میں bossy لگتا ہے اور اپنا آپ employee
یا یوں لگتا ہے کہ آپ کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے ہیں بطور سائل کسی معاملے یا موضوع پر مکالمہ کم، شخصی حاکمانہ بالادستی زیادہ دکھتی ہے اور گھٹن کا احساس بھی بڑھتا ہے۔
ایسیautocratic behavior رکھنے والے کے بارے عمومی، خصوصی رائے کبھی اچھی نہیں بنتی۔لڑکیاں بدکتی ہیں۔۔۔ مگر اس کی اچھی جاب، خاندانی شرافت وغیرہ جیسے اعلی سماجی رویے انھیں بولنے یا ریجیکٹ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔پھر اتنی ساری کشمکش لے کر ایک لڑکی کسی کی زندگی میں شامل تو ہو جاتی ہے مگر وہ محدب عدسہ اپنے ساتھ لے جانا نہیں بھولتی ، جہاں اگلے کی صرف متنازعہ باتیں ہی واضح نظر آتی ہیں۔
شادی سے پہلے اپنے اپنے دائرے کے تحفظات لاحق ہوتے ہیں… خدشات دونوں طرف ہوتے ہیں جہاں لڑکی تیز ہو، سوشل ہوں وہاں لڑکا ضرور خائف ہوتا ہے، کچھ بے یقینی سی ہوتی ہے…کہ کہیں کسی مقام پر چھوڑ نہ دے۔۔۔کئی بار ایسی باتیں آزمانے کی خاطر کی جاتی ہیں۔۔۔اگلے کی آزمائش بھی مطلوب ہوتی ہے، کبھی کبھی مان بھی ہوتا ہے اس لیے ہر وقت نیگٹو ہی نہیں سوچنا چاہیے۔آپ یہ دیکھیں جہاں لو میرج ہوتی ہے پسند ناپسند سب کا علم۔۔۔ مگر اتنی جانکاری، انڈراسٹینڈنگ کے بعد بھی تعلق ختم ہوجاتا ہے، ایک پل میں اتنے آشنا اتنے اجنبی اور لاتعلق ہوجاتے ہیں کہ جیسے کبھی جانتے ہی نہ تھے۔لہذا صرف بات چیت سے زندگی کے دھاگے نہیں سلجھتے، نہ سمجھ میں آتے ہیں …نہ ہی اپنی رائے کو حتمی شکل دینی چاہیے کیونکہ انسان میں بدلاؤ وقت کے ساتھ ساتھ ہی مگر آتا ضرور ہے… مگر ہمیں خدا جانے کیوں اتنی عجلت رہتی ہے زندگی میں، کبھی کبھی ساتھ رہنے سے بھی زندگی خوبصورت لگنے لگتی ہے۔لیکن ہم کوشش بھی نہیں کرتے خود کو بدلنے کی، یا اس کے رنگوں میں ڈھلنے کی.. گویا ہم طے کر لیتے ہیں.. کہ زندگی کو صرف اپنی عینک سے دیکھنا ہے جو سراسر ایک غلط روش ہے۔
شادی سے پہلے محبت ہو یا نہ ہو… شادی ہو جائے… تو رشتے میں احترام خود بخود پیدا ہوتا ہے، احساس بھی..قلم، موبائل، فیس بک۔۔۔ یہ کہہ کر واپس دے دیا جاتا ہے۔۔۔آزادی رائے آپ کا حق ہے۔۔۔سو وقت دینا چاہیے۔۔۔ رشتوں کو سمجھنے میں… ایک دم دوسرے بارے رائے قائم کرنا نامناسب بات ہے۔۔۔ لڑکیوں کو ہمیشہ مشکل پگڈنڈی ملتی ہے، راستے ہمیشہ آسان نہیں ہوتے… چھوڑنا بہت آسان، نبھانا بہت مشکل… مگر جب طے کر لو۔۔۔ تو سانس لی جاسکتی ہے۔

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں