بچے کی توانائی اور آپ کی رہبری: پھرہمار اگلامرحلہ یہ ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو حالات و صورت حال کے مطابق سوچنے(غوروفکرکرنے) کی تعلیم فراہم کر یں۔
ان مضامین کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک مقصد بچوں کو سوچنے کا طریقہ بھی سکھانا ہے۔ہم میں سے اکثر نہیں جانتے کہ کیسے سوچیں اورغوروفکرکریں،اورچند اپنی ہی سوچوں میں ایسے پھنسے ہیں کہ کام ہی نہیں کر پاتے۔یہ وقت جدید عالمی تقاضوں کے مطابق بچوں کی توانائی کو بہتر طریقے سیبروئے کار لانے کا ہے۔
ایک نہایت شرمیلا لڑکا جو لوگوں سے ملتاجلتا ہی نہیں تھا۔ اس کے والد کو ہمیشہ ایک ہی فکر لاحق تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے بچے سے کیسے بات کروائیں؟ اسے کیسے بولنے پر مائل کریں؟
ان حالات میں ہمیں بچوں کی اہم باتوں کو جاننے کی کوشش کرنا چاہیے ۔انہیں تحریک دینے والوں محرکات و ترغیبات کا پتا لگانا چاہیے۔ شر میلے، تنہائی پسندبچوں کے مسائل کے حل میں معاون میرے ایک دوست کے لڑکے کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔
میرے دوست نے بتایا کہ اس کا بیٹا جو گھر سے باہر نکلنے سے بہت کتراتا تھا حتیٰ کہ اس کے ساتھ چہل قدمی سے بھی انکار کردیتا تھا۔پھر میرے دوست نے اپنے بیٹے کو باہر نکالنے والی ترغیب و کشش کا پتالگایا۔اس نے اپنے بیٹے کو اپنی موٹر سائیکل پر گھمانے (سیرکروانے)کی دعوت دی۔وہ فوری راضی ہوگیا۔اب باپ نے شرط رکھی کہ اگر وہ اس کے ساتھ چہل قدمی کو چلے گا تو ہی وہ اسے موٹر سائیکل پر گھمانے لے جائے گا۔بیٹا موٹر سائیکل پر سیر کی کشش میں باہر نکلنے تیارہوگیا۔پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ وہ باغ میں آنے جانے لگا اور پھر بعد میں مسجد اور عوامی مقامات میں بھی بغیر کسی شرم و تذبذب کے آنے جانے لگا۔
شرمیلے سے نڈر و بہادر بننے والا بچہ:ہمیں بچوں کی محرکات کاادراک ہوناچاہیے۔شرمیلے لڑکے نے اپنے والد سے کہا، ”میں میکڈونلڈ جانا چاہتا ہوں” میکڈونلڈ آؤٹ لیٹ قریب ہی واقع تھا۔
باپ نے اپنے چھ سالہ لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، میرے پاس ابھی وقت نہیں ہے۔
لڑکا پلیزباباپلیز کہنے لگا۔ باپ نے کہا ہم جائیں گے لیکن ایک شرط ہے۔ لڑکے کے چہرے پر سوال ابھر آیا۔’’میںآپ کو پیسے دوں گا۔ آپ خودآڈر کریں گے اور آپ خود ہی ٹھہر کر آڈر بھی لیںگے۔‘‘
لڑکا بے یقینی سے وہیں کھڑارہا۔ ایک طرف اس کے میکڈونلڈکے پسندیدہ کھانے تھے تو دوسری طرف اس کی شرم و حیا۔ آخر کار اس کے پسندیدہ کھانے جیت گئے۔ وہ اپنے باپ کی شرط مان گیا۔ماں باپ اپنے بیٹے کو لے کر میکڈونلڈ پہنچے۔ باپ نے بیٹے کو پیسے دئیے اور جاکر اپنی پسندیدہ چیزیں لانے کو کہا۔ ماں کہنی لگی’’ کوئی اسے دھوکا دے گا۔‘‘ توکیا ہوگا؟ لیکن جو اعتماد لڑکے کو ملے گا وہ پانچ سو روپے گنوانے سے کہیں زیادہ ہے۔
چند منٹوں بعد ماں حیران تھی جب اس کا بیٹا ہاتھ میں ٹرے اٹھاکر لے آیا۔ وہ صرف ٹرے ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ ایک خوش گوار تبدیلی بھی ساتھ لے کر آیاتھا۔ بیٹا اپنے پسندیدہ کھانوں میں مگن تھا اور باپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ۔ وہ خوش تھا کہ آج اس کا بیٹا اکیلا گیا اور خود سے کوئی کام کر آیا ہے۔ بیٹے کا ہاتھ تھامے گھر جاتے ہوئے باپ نے بیٹے سے کہا’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم اتنے بہادر لڑکے ہو۔‘‘
لڑکے نے کہا بابا اس میں کونسی خاص بات ہے؟
باپ نے کہا، ’’بہت سے لوگ الجھن میں رہتے ہیں کہ میکڈونلڈ سے کیا خریدیں؟ لیکن تم نے کیسے خرید لیا؟‘‘
لڑکے کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ یہ اس کی توانائی تھی لیکن اسے سمت اس کے باپ نے دی تھی۔ ’’میں جیت گیا‘‘ ،’’میں نے کردکھایا‘‘ کااحساس زندگی بھر لڑکے کے ساتھ رہے گا ۔اس کا حوصلہ بڑھاتارہے گا۔
بچوں کوفوراً ہاں نہ کہیں:اگر آپ کا بچہ آپ سے کچھ کہتا ہے،کچھ مانگتا ہے تو اسے فوراً’’ہاں‘‘ نہ کہیں۔ بچے اکثر جو بھی ہم سے مانگتے ہیں ہم انہیں وہ چیزیں بلاتردددلادیتے ہیں۔ ہمیں غور کرناچاہیے کہ کوئی چیز مانگنے پر فوراً ہم انہیں دے دیں گے تو یہ بات ان کی ذہانت کے فروغ میں مانع ہوجائے گی۔ان کی ذہنی نشوونما کیسے ہوگی۔ان میںسوچنے اور غورو فکر کا مادہ کیسے فروغ پائے گا۔کسی چیز کو طلب کرنے پر آپ کا ایک مختصر مباحثہ بچے کی ذہنی نشوونما میں معاون ثابت ہوگا۔ متذکرہ صورت حال میں بچہ آپ کی بات کان لگا کر سنے گا۔
بائیں دماغ کا ایک اور کام منطقی سوچ کا فروغ ہے۔ کسی ایک موضوع کی گہرائی و گیرائی میںاترکر اپنے نظریات کومنطقی استدلال کی کسوٹی پر پرکھنا بھی بائیں دماغ کے افعال میں شامل ہے۔
اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بہتر طریقے سے بات کریں۔ اپنی بات کو عمدہ طریقے سے رکھیں۔
یاد رکھیئے بچے یہ سب طریقے دیکھ کر اور سن کر سیکھتے ہیں۔ جب تک بچے لوگوں کو منطقی سوچ استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے اسے غیر اہم ہی سمجھیں گے۔ بچوں میں منطقی فکر واستدلال کب بیدار ہوگا؟ جب ان کے سامنے اس کی روشن مثالیں موجود ہوں گی۔